محمد عارف انصاری
اسلام میں حجاب عورت کی عفت، پردہ داری اور دینی فریضہ ہے، جسے قرآن میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہندو دھرم میں بھی گھونگٹ یا اوڑھنی کو شرافت اور پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سکھ مذہب میں خواتین کے سر ڈھانکنے اور مردوں کے لیے پگڑی کو احترام حاصل ہے۔ عیسائیت میں روایتی طور پر عبادت کے وقت سر ڈھانپنے کی ہدایت ملتی ہے۔ یہودی برادری میں بھی پردہ و حجاب کو وقار سے جوڑا گیا ہے۔ دیگر مذاہب میں لباس و پردے کو اخلاقی اور سماجی اقدار کا حصہ مانا گیا ہے۔ ہندوستانی آئین دفعہ 25 ہر شہری کو مذہبی آزادی اور اپنے عقیدے پر عمل کرنے کا بنیادی حق دیتا ہے۔ اس طرح حجاب مذہبی، سماجی اور آئینی اعتبار سے ایک جائز اور محفوظ حق ہے۔
ہندوستان میں حجاب پر بارہا سوال اٹھائے گئے ہیں۔ کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کو داخلے اور امتحان سے روکنے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ گجرات، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں حجاب پہننے والی خواتین پر سوشلسٹ عناصر کے بجائے فرقہ پرست ٹولوں نے حملے کیے، جسے میڈیا اور عدالتوں میں چیلنج کیا گیا۔ یہ رویہ محض لباس کا مسئلہ نہیں بلکہ فسطائی ذہن کی عکاسی ہے جو مذہبی شناخت کو نشانہ بناتا ہے۔ حالیہ دنوں راجستھان کے ٹونک زنانہ اسپتال میں حجاب اتروانے کا واقعہ اس نفرت انگیز ذہنیت کی تازہ مثال ہے، جس نے خواتین کی عزت و مذہبی آزادی پر کاری ضرب لگائی۔ ایسے اقدامات نہ صرف آئین کی دفعہ 25 کی خلاف ورزی ہیں بلکہ جمہوری قدروں کے بھی منافی ہیں۔
اسی تسلسل میں، راجستھان کے ضلع ٹونک کے زنانہ اسپتال میں ایک مسلم انٹرن ڈاکٹر امامہ کے حجاب پہننے پر اعتراض نے ملک بھر میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ڈاکٹر اندو گپتا کا یہ کہنا کہ ’’اگر حجاب اتنا ضروری ہے تو تم میڈیکل پیشہ چھوڑ دو‘‘نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ آئین ہند کی ضمانت دی ہوئی مذہبی آزادی کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ واقعہ محض ذاتی تنگ نظری کا اظہار نہیں بلکہ اس ذہنیت کی نمائندگی کرتا ہے جو سرکاری اداروں میں خاموشی کے ساتھ سرایت کر چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک سرکاری ملازم کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی ذاتی تعصبات کو قانون اور ضابطوں پر فوقیت دے؟ اور کیا حکومت کی خاموشی دراصل اسی ذہنیت کو تقویت نہیں دے رہی؟
یہ بھی غور طلب ہے کہ یہی اسپتال انچارج ڈاکٹر ونود پروریا نے پہلے ہی وضاحت دی تھی کہ حجاب پر کوئی سرکاری پابندی نہیں اور مذہبی آزادی کا احترام ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود ڈاکٹر اندو گپتا نے اپنے تعصب کو ترجیح دی اور ایک مسلم خاتون کو سب کے سامنے کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ رویہ اس بات کا مظہر ہے کہ اداروں میں بعض افراد اپنے ذاتی ایجنڈے کے تحت فیصلے کرتے ہیں، جو نہ صرف مریضوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے بلکہ پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بھی داغدار کرتا ہے۔ ایسے افراد کو اگر قابو نہ کیا جائے تو سرکاری ادارے فرقہ وارانہ کشمکش کے اکھاڑے بن سکتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل آئین میں دیے گئے مساوات اور سیکولرزم کے بنیادی اصولوں کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر اس ملک میں صرف حجاب کو ہی تنازعہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ ہندو خواتین اگر منگل سوتر پہن کر آئیں، مانگ میں سندور بھریں تو یہ ان کی مذہبی شناخت سمجھی جاتی ہے اور کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ سکھ برادری کے لوگ پگڑی باندھیں یا کرپان ساتھ رکھیں تو یہ احترام کا موضوع ہے۔ عیسائی افراد گلے میں صلیب لٹکائیں تو کوئی سوال نہیں اٹھاتا۔ پھر صرف مسلم خواتین کا حجاب ہی کیوں نشانہ بنتا ہے؟ یہ امتیازی رویہ اس ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جو مسلمانوں کو مسلسل شک و شبہ کے دائرے میں قید رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ مذہبی رواداری کے دعوے کو بھی کھوکھلا ثابت کرتا ہے۔یہ بات واضح ہے کہ سرکاری ملازمین، خاص طور پر ڈاکٹرز اور اساتذہ، سماج کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اگر وہی مذہبی تعصب اور نفرت کا مظاہرہ کریں تو سماج میں تقسیم مزید گہری ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر اندو گپتا جیسے افراد کا رویہ نہ صرف ایک فرد کو ہراساں کرتا ہے بلکہ ایک پوری برادری کے وقار کو مجروح کرتا ہے۔ عوامی خدمات میں ایسے افراد خطرناک ہیں کیونکہ ان سے مساوات اور انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت ہے کہ حکومت اور ادارے ایسے رویوں پر فوری کارروائی کریں تاکہ یہ پیغام جائے کہ فرقہ پرست ذہنیت کو سرکاری نظام میں جگہ نہیں دی جا سکتی۔ ورنہ اس طرح کے واقعات عوام کے ریاستی اداروں پر اعتماد کو متزلزل کر کے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ایسے رویوں کے خلاف خاموشی اپنانا عملی طور پر تعصب کی حمایت کے مترادف ہے۔یہ تنازعہ ہمیں اس بڑے سوال کی طرف بھی لے جاتا ہے کہ مذہبی آزادی اور پیشہ ورانہ ضابطوں میں توازن کیسے قائم کیا جائے؟ آئین نے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی ہے بشرطیکہ وہ عوامی مفاد کے خلاف نہ ہو۔ ڈاکٹر امامہ کے کیس میں کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ ان کا حجاب مریضوں کی خدمت میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ اس کے باوجود انہیں نشانہ بنانا سراسر امتیازی سلوک ہے۔ اگر حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لے تو یہ تنازعہ قومی سطح پر پھیل سکتا ہے اور سماج میں مزید نفرت اور بے اعتمادی کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے غیر ضروری تنازعات بھارت کی عالمی سطح پر کثرت میں وحدت کی شبیہ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس طرح کے واقعات نوجوان نسل کے دلوں میں اداروں کے تئیں بے اعتمادی کو اور گہرا کرتے ہیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان کی خوبصورتی اس کی کثرت میں وحدت ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کی مذہبی شناخت کا احترام نہیں کریں گے تو یہ معاشرہ بانٹنے والوں کے ہاتھوں یرغمال بن جائے گا۔ ڈاکٹر اندو گپتا جیسے افراد کو اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے کہ وہ ذاتی تعصبات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی خدمت کریں۔ حجاب ایک ذاتی اور مذہبی اختیار ہے، اسے تنازعہ بنا کر ہم قومی یکجہتی کو کمزور کر رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ادارے ایسے معاملات میں فوری اور شفاف کارروائی کریں تاکہ عوام کو یقین ہو کہ مذہبی آزادی اور مساوات صرف کاغذی نعرے نہیں بلکہ عملی حقیقت ہیں۔ اگر ہم اس موقع پر انصاف نہ کر پائے تو آنے والی نسلیں اس عدم برداشت کو اپنی سماجی اقدار کا حصہ سمجھ لیں گی۔
aarifmedia2025@2025