پروفیسر عتیق احمدفاروقی
ایک پرانا قول ہے ’جنگ اتنااہم عمل ہے کہ اسے مکمل طور پر جنرلوں پر نہیں چھوڑاجاسکتا‘اسی قول میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ کسی معاشرے کا نظم ونسق صرف پولیس کی ذمہ داری نہیںہوسکتی۔قانون کے ذریعہ قائم دوسرے ادارے بھی اپنے اپنے کردار نبھاتے چلتے ہیں۔ تب جاکر کسی مہذب معاشرہ میں قانون کی بالادستی یا ’رول آف لا‘قائم ہوتاہے۔ یہ کہنا غیرمناسب نہ ہوگاکہ کوئی معاشرہ مہذب کہلانے کا تبھی مستحق ہوسکتاہے جب وہاں قانون کی حکمرانی ہو۔ اس کسوٹی پر اگرہم اپنے ملک ہندوستان کو کسیں تو کیا اسے ایک مہذب معاشرہ کہاجاسکتاہے؟۔
آزادی کے بعد کچھ ہی برسوں میں یہ واضح ہوگیاکہ ہمارا عدالتی نظام جس کے اہم حصے سی آرپی سی اور آئی ای اے (انڈین اویڈنس ایکٹ)تھے، بدلے حالات میں انصاف دینے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ عدالتوں میں انصاف نہ مل پانے یا ایک لمبے طریقے عمل سے گزرنے کے بعد آدھا ادھورا انصاف حاصل ہونے کے چلتے عوام نے جلد ہی فوری انصاف کے دوسرے متبادلوں کو تلاش کرنا شروع کردیا۔ بدقسمتی سے یہ دوسرا متبادل بہت خوفناک تھا۔ یہ متبادل غیرقانونی طریقوں سے اپنی پسند کا انصاف حاصل کرناتھا۔ انصاف کی یہ راہ سرکاری اورغیرسرکاری مجرموں کی گلی سے ہو کر گزرتاتھا۔ پہلے غیرسرکاری مجرموں کی بات کرلیں۔ یہ ایک عام اطلاع کا موضوع ہے کہ کچھ اقتصادی جرموں میں فوری طورپرانصاف دلانے میں مجرم سب سے زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔ انصاف دلانے والے یہ چینل پیشے ور مجرموں کے بھی ہوسکتے ہیں اورکئی بار اسمیں جج کوئی مافیا عوامی ہیرو ہی ہوتاہے۔ یوپی اوربہار میں ایک درجن سے زیادہ مافیا ایم پی اورایم ایل اے ہیں،جن کے نام گنائے جاسکتے ہیں جو اپنے یہاں دربار لگاکر انصاف کرتے رہتے ہیں اورلوگ ان کے فوری انصاف کے بعد ان کی جے جے کار کرتے گھرجاتے ہیں۔ ان عدالتوں میں جو مسئلے سلجھائے جاتے ہیں ان میں خاص طور پر لین دین اورکرایہ داری کے معاملے ہوتے ہیں اگرآپ مکان مالک ہیں اورکرائے دار کے ساتھ آپ کاکوئی تنازعہ چل رہاہے ، توعدالت کے دروازے کھٹکھٹانے کے بعد ہی آپ کی سمجھ میں آجاتاہے کہ انصاف حاصل کرنے میں آپ کی کئی نسلوںکوانتظارکرنا پڑسکتاہے، لہٰذا زیادہ آسان ہے کسی مافیا کی پناہ میں جایاجائے۔ برسوں کچہری جانے میں آپ کا جتنا وقت ،محنت اورپیسہ خرچ ہوگا اس سے بہت کم میں مافیا کے دربارمیں آپ کو اپنے حق میں فیصلہ مل جائے گا۔ یہی کہانی لین دین کے معاملوں میں دہرائی جاتی ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی الگ الگ وقت پر اقتدار حاصل کرنے والی سیاسی جماعتوں نے قانون میں ایسی اصلاح کیوں نہیں کی جن سے انصاف حاصل کرنے کیلئے شہریوں کو عدالتوں کے باہر نہ جھانکنا پڑے۔
انصاف دلانے کے ان غیرسرکاری چینلوں کے مقابلے ایک سرکاری چینل زیادہ خطرناک ہے، جسے کافی حدتک سماجی منظوری کے ساتھ ہمارے حکمراں بڑے پیمانے پراستعمال کرتے آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری سرکاریں خود ہی پولیس نامی ادارے کو قانون وقاعدوں کی دھجیاں اڑانے والے منظم گروہ کی طرح استعمال کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی اس نااہلی کو چھپانے کیلئے کہ وہ شہریوں کو سستااورفوری انصاف نہیں دلاپارہی ہیں، ایک شارٹ کٹ راستہ اپنارکھاہے۔یہ راہ بدقسمتی سے غیرمہذب اورجنگلی پکڈنڈیوں سے ہوکر جاتاہے۔ یہ راستہ ہے پولیس کو تجزیہ کار،جج اورجلاد تینوںمیں تبدیل کرکے ان سے مجرموں کے ہاتھ پیر توڑوانے سے لے کر انہیںمارڈالنے تک کا کام کروایا جاتا ہے۔ مزیدار حقیقت یہ ہے کہ اس جنگلی پن کو سماجی منظوری حاصل ہے۔ اسے سمجھنے کیلئے ایک مثال کافی ہے۔ کچھ برسوں قبل حیدرآباد میں ایک خاتون ڈاکٹر کے ساتھ عصمت دری اورقتل کا واقعہ پیش آیا اورفطری طور پر عوام اس کے خلاف ابل پڑی اورسڑکوں پر نکل آئی۔ حیدرآباد پولیس نے معاملہ سلجھالیا اورچاروں قاتلوں کا پکڑ لیا ، پراس سے کسی کو اطمینان نہیں ہوا۔ نتیجتاً پولیس نے چاروں کو رات کے اندھیرے میں جیل سے نکالا اور ایک ایسی مڈبھیڑ میں مارڈالا جو پہلی نظر میں فرضی معلوم ہوتا ہے۔بجائے اس غیرقانونی انکاؤنٹرکے خلاف تحریک چلانے کے عوام نے اس میں شریک پولیس اہلکاروں پر پھول برسائے اوران کی جے جے کار کی۔
گزشتہ تین مہینوں میں تمل نادو ،مہاراشٹرا اوریوپی میں کچھ ایسی پولیس مڈبھیڑ ہوئی ہیں جو اس رجحان کے تشویشناک حدتک پہنچ جانے کا مظہر ہے۔ حکومتیں عدالتی نظام کو مضبوط کر کے انہیں اتنا اہل بنانے کی کوشش کرنے سے زیادہ آسان سمجھ رہی ہیں کہ مجرموں کو پولیس کے ذریعہ مروادیں یا کم ازکم انہیں معذورہی کردیں۔ بدلہ پور (مہاراشٹرا)میں ہوئی مدبھیڑ پر بامبے ہائی کورٹ نے کچھ مشکل سوالات پوچھے ہیں۔ پولیس کوان کے جواب دینے ہوں گے۔ ابھی تک کا تجربہ تو یہ بتاتاہے کہ ایسے سوالات صرف ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے ہیںا ورحتمی فیصلے میں ان کو تلاش کرنا کسی سراب جیسا ہی ہوتاہے۔ دیکھنا دلچسپ ہوگاکہ اس بار کیاہوگا؟ یوپی میں سلطان پور کی حالیہ مڈبھیڑوں میں تو ذات کا زاویہ بھی چھپاہے ، ایسا الزام لگایاگیاہے۔
کسی معاشرہ میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں ،اسے ہندوستانی تناظرمیں بخوبی سمجھاجاسکتاہے۔ دنیا کی پانچویں اورتیسری کی دہلیز پر کھڑی معیشت والے ہمارے ملک سے ہرسال تقریباً 25 لاکھ شہری اپنا پاسپورٹ لوٹاکر بیرونی ممالک کی شہریت قبول کررہے ہیں۔ یہ تو باضابطہ ملک ترک کرنے والوں کی تعداد ہے، اسمیں اگر غیرقانونی طریقوں سے باہر جانے والوں کی تعداد بھی جوڑ لی جائے تو یہ کافی بڑھ جائے گی۔ ان میں صرف روزگار کی تلاش میں ہجرت کرنے والے ہی نہیں ہیں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کا دوسرے ممالک اسلئے خیرمقدم کرتے ہیں تاکہ انہیں روزگار دیں سکیں۔ کیوں اتنے لوگ اپنامادروطن ترک کرنے کیلئے بیتاب ہیں؟ حکومتوں کو سمجھنا ہوگاکہ قانون کی حکمرانی پولیس کو منظم مجرموں کا گروہ بناکر نہیں بلکہ ایک اہل کفایتی اورشہری دوست عدالتی نظام کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتاہے۔