تاکہ بچوں کے تعلیمی سال کی تلافی ہوجائے

0

یہ دعویٰ غلط ہے کہ آن لائن تعلیم نے عام اسکولی تعلیم کی کمی کو پورا کردیا ہے
انوراگ بیہر
اس نے کتاب کھولی، کوشش کی لیکن پڑھ نہ سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ایسا اسی جنوری کی شروعات میں بنگلورو میں ہوا۔ وہ تیسری کلاس میں پڑھتی ہے۔ جب گزشتہ مارچ میں اسکول بند ہوئے تھے، تب وہ دوسری کلاس میں تھی۔ پورے تعلیمی سال میں ایک دن بھی اسکول جائے بغیر کچھ ہی مہینوں میں وہ چوتھی کلاس میں پرموٹ ہوجائے گی۔ پورے ملک میں میرے کئی ساتھی ایسے ہی بچوں سے روبرو ہوئے ہیں۔
اس بچی کو واضح طور پر یاد ہے کہ وہ گزشتہ سال مارچ میں روانی سے پڑھ سکتی تھی۔ جب میں نے اسے کتاب دی، تب اس نے کوشش کی اور پھر شکست قبول کرلی۔ ذہن و دل میں نقصان کا خیال آیا اور آنسو بہہ نکلے۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے اسکول میں اپنے آخری دن کے بعد سے اپنے ہاتھ میں ایک بھی کتاب نہیں لی ہے۔ اس کی ٹیچر مجھے بتاتی ہیں ’وہ آہستہ آہستہ، لیکن اچھی طرح سے پڑھتی تھی۔ کچھ ہی مہینوں میں وہ چوتھی کلاس میں چلی جائے گی، لیکن حقیقت میں وہ پہلی کلاس کی سطح پر لوٹ آئی ہے۔ اس میں والدین یا ٹیچر کا کوئی قصور نہیں۔ جب کوئی بچہ 10ماہ میں ایک مرتبہ بھی کلاس میں نہیں گیا ہے اور گھر پر ہر کوئی زندہ رہنے کے لیے بھی محنت کررہا ہے، تب آپ اور کیا امید کرسکتے ہیں؟‘ یہ تبصرہ مختصر میں اصلیت بیان کردیتا ہے کہ ہندوستانی اسکولی تعلیم حالات کا منظم طریقہ سے سامنا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پالیسی سازی کی اعلیٰ سطح پر بھی اسی کمی کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
مارچ2020 سے ہندوستان میں اسکول بند کردیے گئے۔ ہمارے 26کروڑ اسکولی طلبا کی تدریس کو برقرار رکھنے کی کوششیں مؤثر نہیں ہوئی ہیں۔ کچھ ٹیچروں نے کمیونٹی پر مبنی کلاسوں کو کھلے میں رکھنے اور اپنے طلبا کے ساتھ لگے رہنے کی پہل کی۔ ایسی کچھ کامیاب کلاسوں کے باوجود یہ نظام عام اسکولوں کا متبادل نہیں ہے۔ کمیونٹی کلاسز کے اچھے معاملات میں بھی استاد-طلبا کا رابطہ ہر ہفتہ 4 سے 6 گھنٹے ہوتا ہے، جب کہ اسکول کھلنے کی حالت میں یہی رابطہ تقریباً روز ہی 6سے 8گھنٹے کا ہوتا ہے۔ کھلی کلاس میں شامل ہونے میں بھی کچھ ہی طلبا اہل ہوئے ہیں۔
آن لائن تعلیم کی موروثی حدود اور سبھی اسکولی بچوں تک ایسی تعلیم کی پہنچ کو یقینی نہیں بنایا گیا ہے۔ پوشیدہ کاروباری مفادات کے سبب کچھ لوگ دعویٰ کررہے ہیں کہ آن لائن تعلیم نے اسکولی تعلیم کی کمی کی تلافی کردی ہے، جب کہ ہندوستان میں زیادہ تر بچوں کی اس تک پہنچ نہیں ہے۔ ہمارے 26کروڑ بچوں نے ایک پورا تعلیمی سال کھودیا ہے، لیکن حالت اس سے بھی سنگین ہے۔ اتنے لمبے عرصہ تک تشویشناک تعلیم کی غیرموجودگی نے بچوں کی اب تک کی تعلیم کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ آسان الفاظ میں کہیں، تو بچے بھول گئے ہیں کہ انہوں نے پہلے کیا سیکھا تھا۔ اس لیے جب اسکول پھر کھلیں گے، تب کھوئے ہوئے سال اور کھوئے ہوئے سبق یا تعلیم کا بھی خیال رکھنا پڑے گا۔ پہلے گرمی کی لمبی چھٹیوں کے دوران کچھ ایسا ہی ہوتا تھا۔ جو نقصان ہوا ہے، اس کے ثبوتوں کا سیلاب آگیا ہے۔ اس نقصان کا ہم نے طلبا اور اساتذہ کے مابین موازنہ کیا ہے اور جو شروعاتی اعدادوشمار سامنے آئے ہیں، ان کے مطابق، 74فیصد بچوں نے اپنی ایسی بنیادی صلاحیتوں میں سے ایک یا ایک سے زیادہ کو کھو دیا ہے۔ مثال کے لیے ایک پیراگراف یا ایک صفحہ پڑھنے، اپنے الفاظ میں اس کا خلاصہ پیش کرنے کی صلاحیت، ترتیب میں کچھ جملے لکھنے کی صلاحیت اور آسان جوڑ-گھٹانا کی صلاحیت، بنیادی ضرب-تقسیم کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔
اب سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب اسکول کھلیں، تب ٹیچروں کو اس خسارہ کو پورا کرنے کے لیے وقت دینا پڑے گا، بچوں کو اضافی تعاون دینا ہوگا۔ کچھ چھٹیوں کو ختم کرنا، 2021کے اکیڈمک کلینڈر کی اچھی طرح سے توسیع کرنی ہوگی۔ کورسز، سیشنوں کو پھر سے منعقد کرنا پڑے گا۔ اس حقیقت پر ہم نے توجہ نہیں دی تو یہ نہ صرف عدم مساوات کی کھائی کو چوڑا کرے گا، بلکہ محرومین کو اور زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ یہ معاملہ ہمارے قومی ایجنڈے میں اولین ترجیحات پر ہونا چاہیے۔ اس کے لیے پورے ملک میں مربوط اور پرجوش طریقہ سے کام کی ضرورت ہے۔ ہمیں بحران سے نمٹنے کے لیے فوراً کوشش کرنی چاہیے، ورنہ ہمارے بچوں کو مستقبل میں اس کی قیمت چکانی پڑے گی۔
(مضمون نگار عظیم پریم جی فاؤنڈیشن کے سی ای او ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS