محمد حنیف خان
علاج ومعالجہ انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے،جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ایک فرد اپنی حکومت سے اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ وہ اس کو بآسانی سستا علاج مہیا کرائے گی۔ہندوستان میں علاج و معالجہ کی کیا صورت حال ہے اس کو ہم نے گزشتہ ایک برس میں بخوبی دیکھ لیا ہے۔علاج میں دو بنیادی ضرورتیں ہوا کرتی ہیں اول دوائیں اور دوم انفرااسٹرکچر، یہ دونوں مل کر عوام کی طبی سہولیات کو مکمل کرتی ہیں۔کووڈ19جیسی عالمی وبا کے دور میں سب سے زیادہ عوام کو جس نے پریشان کیا وہ طبی سہولیات کی عدم فراہمی تھی۔ابھی دو ماہ قبل جو حالات تھے شاید ملک میں اس سے قبل کبھی ایسے حالات پیدا ہوئے ہوں، ان میں بنیادی کمی انفرااسٹرکچر کی ابھر کر سامنے آئی تھی۔ہر شخص حیران و پریشان تھا کہ اس کو اور اس کے مریض کو علاج نہیں مل پارہا ہے کیونکہ جس مقدار میں انفرااسٹرکچر کی ملک کو ضرورت تھی اس جانب کبھی توجہ نہیں دی گئی تھی۔یہ اور بات ہے کہ حکومتیں اس بات کو آج بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ملک یا ریاست میں طبی سہولیات کے لیے بنیادی ڈھانچے کی کمی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ شعبہ طب میں بنیادی ڈھانچے کی شدید قلت ہے،یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ لوگ علاج پائے بغیر دم توڑ گئے۔
اس وقت ملک میں جو شعبے سب سے زیادہ فائدے کے ہیں، ان میں تعلیم و طب ہیں۔یہ دونوں شعبے ایسے ہیں جہاں کنزیومر /صارف کو نچوڑ لیا جاتا ہے۔اس کے پاس جائے رفتن اور پائے رفتن کا موقع نہیں ہوتا ہے کیونکہ تعلیم میں جہاں بچوں کا مستقبل ہوتا ہے، وہیں طب میں انسانی زندگی کو بچانے کا مسئلہ ہوتا ہے۔اسکول چلانے والے اور اس سے وابستہ سبھی افراد(کتب کی چھپائی،تقسیم کار،خردہ کتب فروش )سب کے سب اپنے من مطابق وصولی کرتے ہیں۔اس سے کہیں زیادہ برا حال میڈیکل لائن کا ہے۔ یہاں اسپتال چلانے سے لے کر پیتھالوجی دوا ساز کمپنی، تقسیم کار، خردہ فروش اور ڈاکٹر سب کے سب مریض کو لوٹتے ہیں۔کتنے ایسے لوگ ہیں جو محض علاج میں تباہ و برباد ہوگئے، گھر زمین سب فروخت ہوگیا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ طبی سہولیات کی مہنگائی اور حکومت کا اس پر عدم کنٹرول ہے۔
مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مفت اور سستے علاج کے لیے متعدد اسکیمیں شروع کی ہیں جن سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں مگر یہ حد درجہ ناکافی ہیں کیونکہ اس طرح کی اسکیمیں بہت کم افراد کو اپنے دائرے میں لے پاتی ہیں جبکہ اگر دوائیں ہی سستی کردی جائیں،دوا کے نام پر لوٹ کو روک دیا جائے تو اس کا فائدہ زیادہ وسیع ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں پرائسنگ اصول و ضوابط میں ترمیم کرکے دواؤں کی اصل قیمت ہی لکھنے پر کمپنیوں کو مجبور کریں۔
اس وقت ملک میں طب کے شعبہ میں سب سے بڑا مسئلہ مہنگی دواؤں کا ہے۔نیشنل فارماسیوٹیکل پرائسنگ اتھارٹی کی موجودگی کے باوجود دواؤں کا عالم یہ ہے کہ دو ہزار روپے میں ملنے والی دوا پر دس ہزار روپے کی قیمت درج ہوتی ہے۔ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جایئے ہر جگہ یہی حال ہے۔خود ڈاکٹر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصل قیمت اور ایم آر پی میں ڈھائی سو گنا تک فرق ہوتا ہے۔سمجھ میں یہ نہیں آتاہے کہ وہ حکومت جس کے کندھوں پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو سستی طبی سہولیات مہیا کرائے، آخر وہ اس جانب کبھی توجہ کیوں نہیں دیتی ہے۔ اس کے پاس قیمتوں کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی ہے، اس کے باوجود اس نے ابھی تک محض سات سے آٹھ سو دواؤں کو ہی اپنے دائرے میں لیا ہے۔باقی دواؤوں پر دوا ساز کمپنیوں سے لے کر میڈیکل اسٹور مالکان تک کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جس طرح چاہیں لوٹ کھسوٹ مچائیں۔حکومت غریبوں کی مجبوری کو آخر کیوں نہیں سمجھتی ہے۔یہ وہ مقام ہوتا ہے جب ایک غریب کا ہاتھ کام کرنا بند کردیتا ہے،وہ تو پورا سال اور پوری زندگی پروڈکشن میں ہی مصروف رہتا ہے لیکن جب وہ بیمار ہوتا ہے تو دواؤوں کی قیمتیں اس کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔کینسر جیسے امراض کی دواؤں کا بھی یہی حال ہے کہ ایم آر پی سے کئی گنا زیادہ کی قیمت پر دوائیں فروخت ہوتی ہیں۔اسی طرح سے ایک ہی فارمولے سے تیار دوا کی قیمت کمپنی کی وجہ سے بدل جاتی ہے۔حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فروری 2019میں نظام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے وزیراعظم اور نائب صدر جمہوریہ کو ایک خط لکھ کر اس سلسلے میں ایک پالیسی طے کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مگر اس پر ہوا کچھ نہیں۔اس لیے عوام کو اب اس سلسلے میں بیدار ہونے کی ضرورت ہے،اس کو حکومت سے اس بارے میں کھل کر سوال کرنا چاہیے کیونکہ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب انسان سب سے زیادہ پریشان اور دکھ کا مارا ہوتا ہے۔
مہنگی دوا کا اصل راز انسان کے غیر انسان میں تبدیل ہونے اور اس خواہشات کے شتر بے مہار ہونے میں پوشیدہ ہے۔اگر انسان کے سینے میں انسان کا دل ہوتا تو وہ انسان کا درد سمجھتا مگر مادیت نے اس کے وجود کو انسان کے بجائے ایک پتھر میں بدل کر رکھ دیا ہے۔اس کے سینے میں دل کی جگہ ایک ایسا لوتھڑا ہے جو ظاہراً تو حرکت کرتا ہے مگر وہ اب حسیات سے خالی ہوچکا ہے۔منافع خوری اور عیش و عشرت کی خواہش نے آج انسان کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ وہ لاگت سے دو تین سو گنا زیادہ تک وصو ل کرتا ہے۔ذمہ دار افراد کے مطابق اگر حکومت دواؤں کی قیمت پر کنٹرول کرلے تو جہاں ایک طرف ملک کی ترقی کی رفتار تیز ہوجائے گی تو وہیں علاج و معالجہ کے اخراجات میں 180 فیصد تک کی کمی آجائے گی۔اندازہ لگایئے کہ حکومت کی جانب سے ملنے والے سستے غلے کی وجہ سے جس ملک کا پیٹ بھرتا ہو، وہاں علاج و معالجہ کا خرچ اصل خرچ سے 180فیصد زیادہ ہے۔ایسا نہیں ہے کہ حکومت کو اس کے بارے میں علم نہیں ہے،اس کو سب معلوم ہے،اس کی نگاہ سے کچھ پوشیدہ نہیں ہے مگر اس کے پیچھے بہت بڑا کھیل ہے۔ایک طرف دوا ساز کمپنیوں کی ساز باز ہے تو دوسری طرف تقسیم کار اور میڈیکل اسٹور مالکان کے ساتھ ڈاکٹروں کا ایک جم غفیر ہے جو مہنگی دوائیں دے کر عوام کے ساتھ رحم و کرم کا ڈھونگ رچتے ہیں۔کوئی ڈاکٹر دو چار خوراک دوائیں مفت میں دلاتا ہے تو کوئی کم قیمت پر دوا کا وعدہ کرتا ہے اور کچھ تو ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ فلاں ڈاکٹر کے پرچے پر دوا کم قیمت پر فلاں فلاں دکانوں پر مل جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ میڈیکل اسٹور ہیں جو 10سے 20فیصد رعایت کا بورڈ لکھ کر دوا فروخت کرتے ہیںلیکن اس کے پیچھے ایک ایسی اندھی دنیا ہے جہاں انسانوں کا بسیرا نہیں ہے۔
اسی طرح پیٹنٹ اور جینرک دواؤں کا معاملہ بڑی بیماریوں کی اہم دواؤں کا پیٹنٹ بڑی بڑی کمپنیوں کے پاس ہے جو ان دواؤں کو الگ الگ برانڈ سے فروخت کرتی ہیں اور مجبوری میں انسان ان کو خریدتا ہے کیونکہ انسان میں جب تک سانس ہوتی ہے، تب تک زندگی کی آس ہوتی ہے۔وہ اسی آس کے چکر میں دکان و مکان اور پیر کے نیچے کی زمین بھی فروخت کر ڈالتا ہے۔اگر پیٹنٹ دوائیں جینرک میں عوام کو مہیا ہوجائیں تو ایک تخمینے کے مطابق 200گنا اخراجات میں کمی آ سکتی ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق کینسر کی جس پیٹنٹ دوا پر ماہانہ خرچ 1.51لاکھ روپے ہے،جینرک میں اسی کا خرچ محض 12180روپے ہے۔جینرک اور برانڈیڈدواؤں میں طبی تحقیقات کے مطابق کوئی فرق نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی درست ہے کہ کوئی ایسا ڈیٹا موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر ان دونوں کے مابین کے فرق کو واضح کیا جا سکے۔چونکہ برانڈیڈ دواؤں پر کمپنیاں ایک خطیر رقم محض تشہیر پر خرچ کرتی ہیں یہاں تک کہ ڈاکٹروں کو اس کے لکھنے کے لیے راغب کرنے پر وہ ایک موٹی رقم خرچ کرتی ہیں، اس لیے وہ مہنگی ہوتی ہیں جبکہ جینرک دواؤں کی قیمت حکومت طے کرتی ہے۔
مجموعی طور پر اگر ملک میں طبی شعبے کو دیکھا جائے تو اس کی حالت بہت بری ہے۔سرکاری اسپتالوں سے لے کر پرائیویٹ تک میں سبھی طبی سہولیات اولاً موجود نہیں ہیں اور جہاں ہیں وہاں لوٹ کھسوٹ اتنی زیادہ ہے کہ مریض طبعی موت سے پہلے ہی مرجاتا ہے۔اس لیے سستی طبی سہولیات مہیا کرانے کے لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اولاً پرائسنگ اتھارٹی کے ذریعہ سبھی دواؤں کی قیمتیں طے کرے تاکہ مریضوں کو دوا ساز کمپنیوں اور اس کے پورے ٹولے کی لوٹ سے بچایا جا سکے۔جب تک حکومت تعین قیمت کا مسئلہ حل نہیں کرتی ہے، اس وقت تک ملک میں سستا علاج عوام کو نہیں مل سکتا ہے جو اس کا بنیادی حق اور ریاست کا بنیادی فریضہ ہے۔ اسی طرح پیتھالوجیکل چیک اپ، سرجری اور اسپتالوں میں داخلہ اور بیڈ کی قیمتیں بھی طے کرے تاکہ عوام کو برے ایام میں کم سے کم دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے مفت اور سستے علاج کے لیے متعدد اسکیمیں شروع کی ہیں جن سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں مگر یہ حد درجہ ناکافی ہیں کیونکہ اس طرح کی اسکیمیں بہت کم افراد کو اپنے دائرے میں لے پاتی ہیں جبکہ اگر دوائیں ہی سستی کردی جائیں،دوا کے نام پر لوٹ کو روک دیا جائے تو اس کا فائدہ زیادہ وسیع ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومتیں پرائسنگ اصول و ضوابط میں ترمیم کرکے دواؤں کی اصل قیمت ہی لکھنے پر کمپنیوں کو مجبور کریں اور یہ ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ اپنا یہ فریضہ ادا کرے۔ اس لیے مرکزی و ریاستی حکومتوں کو اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو کچھ راحت مل سکے۔
[email protected]