محمد جمیل اختر جلیلی ندوی
’طوفان اقصیٰ‘ آپریشن کے ساڑھے تین سودن مکمل ہوچکے ہیں، جس میں ہم صہیونی غاصب افواج کی طرف سے غزہ کی پٹی میں جنونی طورپرعام شہریوں کے قتل عام، بلکہ نسل کشی کااب تک مشاہدہ کررہے ہیں، لیکن افسوس کہ اب تک پوری دنیااس پرخاموش ہے، وہ بھی جوہمارے اپنے ہیں، وہ بھی جوانسانی حقوق کے دعویدارہیں، وہ بھی جوحقوق اطفال کاواویلاکرتے رہتے ہیں، وہ بھی جوحقوق نسواں کی دہائی دیتے رہتے ہیں، وہ بھی جوقانون اوردستورکی بات کرتے ہیں، وہ بھی جودنیاکے کسی کونے میں ہوئی ادنیٰ فائرنگ پر آسمان سرپراٹھالیتے ہیں،وہ بھی جوامن وشانتی کی بات کرتے ہیں، وہ بھی جودہشت گردی کے نام پراینٹ سے اینٹ بجاچکے ہیں، وہ بھی جو انسانیت کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ اہل غزہ کا کیاقصورہے کہ ان کی تعلیم گاہیں بربادکردی جائیں؟ ان کے شفاخانے نیست ونابودکردئے جائیں؟ ان کے گھروں کوملیامیٹ کردیاجائے؟ ان کے عبادت خانوں کوزمیںبوس کردیا جائے؟ کیادنیامیں لڑائی کے اصول وضابطے ختم ہوچکے ہیں؟ عام شہریوں کومارنا، ان کی املاک کوتباہ کرنا کہاں کا قانون ہے؟ بچے اورعورتوں پر بم برسانا کس قانون کے تحت روا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیابس دوخانوں میں بٹی ہوئی نظرآتی ہے، ایک اہل اسلام اوردوسرے غیراہل اسلام، غیراہل اسلام تویک جٹ ہیںاہل اسلام کے خلاف، لیکن افسوس! اہل اسلام بٹے ہوئے ہیں، کچھ تواپنی دنیاوی زندگی میں عیش وعشرت کے لئے، کچھ مادرزادآزادی کے لئے ، کچھ اپنی ناک اورمونچھ اونچی رکھنے کے لئے، کچھ کسی اورسبب کے باعث توکچھ کسی اوروجہ کی وجہ سے، لیکن اتنی بات طے ہے کہ جب تک یہ بٹے رہیںگے، پٹیںگے، مارے جائیںگے، کاٹے جائیں گے، کھدیڑے جائیںگے، بھگائے جائیںگے، کیونکہ بٹے رہنے کی صورت میں ان کی حیثیت تنکوں اور گھاس پھوس سے زیادہ نہیں، ستارے بکھرے ہوئے ہیں، اس لئے بہت زیادہ ہونے کے باجود وہ ہمیں سورج اور چاندکی طرح روشنی نہیں دے سکتے:
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
7 اکتوبر 2023 سے مسلسل بارہویں ماہ صیہونیوںنے غزہ کی پٹی پر ایک جنونی جنگ چھیڑ رکھی ہے، جس میں اس نے41,000سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا، 150,000سے زیادہ کو زخمی کیا اور 80 فیصدمکانات کو تباہ کر دیا، اس نے غزہ کی سرزمین میں کوئی جگہ نہیں چھوڑی ، جہاں صیہونی ٹینک داخل نہ ہوئے اور جنگی طیاروں نے اس پر بمباری نہ کی ہو اور یہ سلسلہ اب بھی بغیرکسی توقف کے جاری ہے، یہ جنگ جسے نیتن یاہو ذاتی مفاد کی خاطر اور سموٹریچ اور بین گویئر کے حمایت یافتہ دائیں بازو کے اتحاد کے خاتمے کے خوف سے طول دینا چاہتے ہیں،جوغزہ میں جنگ اورفوجی قبضہ کے جاری رہنے پرزوردیتے ہیں تاکہ غزوہ میں بازآبادکاری کی جاسکے اوریہ علاقہ صہیونی فوج کے لئے محفوظ پناگاہ کے طورپراستعمال میںلایاجاسکے، اسی لئے وہ تسلسل کے ساتھ وحشیانہ کارروائیاں کررہے ہیںاوراس بات کی کوشش میں لگے ہوئے ہیںکہ وہاںکے باشندے ہجرت کرجائیں، یاکم از کم شمالی علاقہ کوبفرزون قرار دے دیاجائے اورجنوب میں رفح کراسنگ اور فلاڈیلفیا ایکسس، جبکہ درمیان میں نیٹزرام ایکسس پران کامکمل کنٹرول ہوجائے، تاکہ غزہ میں پہنچنے والی چیز صہیونی تفتیش اورنگرانی میں داخل ہو، اس کامطلب یہ ہے کہ وہ غزہ پرایساکنٹرول چاہتے ہیںکہ جب ، جہاں اورجیسے چاہیں، وہ داخل ہوسکیں، انھیں کوئی روک ٹوک کرنے والانہ ہو۔
اس وقت کی جاری جنگ سابقہ تمام جنگوں سے مختلف ہے، یہ جنگ جہاں فلسطینیوں کے لئے زندگی اورموت کی جنگ ہے، اپنی سرزمین کی حفاظت کی جنگ ہے، جس کے لئے انھوں نے اب تک صرف اس جاری جنگ میں 41252 سے زیادہ جانیں قربان کی ہیں، جبکہ زخمیوںکی تعدادایک لاکھ سے زیادہ ہیں، شہیدوںکے اس جھرمٹ میں 10888 توصرف طلبہ ہیں، جبکہ زخمی طلبا کی تعداد 17224 بتائی جاتی ہے، اسی طرح اگرہم تعلیمی اداروں کی بات کریںتوصہیونی بمباری کی وجہ سے 362 تعلیمی ادارے تباہ وبرباد ہوچکے ہیں، جن میں سے 62تومکمل طورپرنیست ونابود ہوچکے ہیں۔ان تمام اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی صرف ’حماس‘ کا دشمن نہیں ہے، بلکہ وہ عام انسانوں کابھی دشمن ہے۔اسرائیلی حکومت بچوں اورعورتوں کابھی دشمن ہے اورسب سے بڑھ کریہ کہ وہ تعلیم کابھی دشمن ہے،حالانکہ آج کے ترقی یافتہ دورمیں ’تعلیم‘ کو ایک لازمی شے قراردیاگیا ہے، بلکہ حکومتوں نے تو بنیادی تعلیم کوہرایک کاحق قراردیاہے، اس کیلئے حکومتیں بھرپورطریقہ سے کوشش بھی کررہی ہیں، جبکہ غزہ کاحال یہ ہے کہ وہاں اس وقت 718,000طلبا اب بھی تعلیم سے محروم ہیں اور نفسیاتی صدمے اور صحت کی مشکل حالات کا شکار ہیں۔
دوسری طرف یہ جنگ اسرائیل کے لئے ناک کامسئلہ بنی ہوئی ہے، کیونکہ اب تک وہ اپنے آپ کودنیا کے سامنے ’سپرمین‘کی حیثیت سے پیش کرتا رہا ہے، لیکن غزہ کی اس جنگ نے اس کی ساری سپرمینی کی دھجیاںاڑا کررکھ دی ہیں، گیارہ مہینے گزرنے کے بعد بھی وہ غزہ جیسی چھوٹی سی زمین پرکنٹرول حاصل نہیں کرسکا ہے، اسی لئے ’کھسیانی بلی کھمبانوچے‘ کے مثل وہ عوام ، بلکہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، تعلیم گاہوں، اسپتالوں اورگھروں کواپنی بم باری کانشانہ بنارہا ہے، دراصل نیتن یاہواس وقت بہت مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں، غزہ پرکنٹرول نہیں ہورہا ہے، جبکہ خود ان کے ملک میں احتجاج پراحتجاج تسلسل کے ساتھ ہورہے ہیں، بھاری تعداد میں ، بلکہ پورے ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے، اسرائیلی عوام ان سے استعفیٰ کامطالبہ کررہے ہیں، لیکن یہ اپنی مونچھ اونچی رکھنے کے چکر میں غزہ کوتہس نہس کررہا ہے اورلطف یہ ہے کہ پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
اس وقت غزہ ہی وہ خطہ ہے، جس نے اسرائیل کو ناکوںچنے چبوادئے ہیں، اب اسرائیل اگرپیچھے قدم کھینچ لیتا ہے توپوری دنیا کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا ہوگا، حالانکہ اس کیلئے بہتری اسی میں ہے، اسے اپنے حلیف امریکہ سے سبق لیناچاہئے کہ کس طرح بیس سال کی جنگ کے بعداس نے اپنے قدم افغانستان سے پیچھے ہٹائے؟ اسے اس میں کسی قسم کی جھجھک محسوس نہیں ہوئی، عاربھی نہیں ہوا، یہی اس وقت اسرائیل کوکرناچاہئے، تاکہ خود بھی محفوظ رہ سکے اور انسانیت کوبھی زندہ رکھ سکے۔
rlq