ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں: مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی

0
ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں: مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی

مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی
نظم و نسق کی پابندی اور قو انین وضوابط کا پاس و لحاظ دین اسلام کی امتیازی خصوصیات میں سے ہے،جو ایک مومن صادق کی زندگی کے ہر ہرمرحلہ اور ہر ہرمیدان میں مطلوب ہے۔ عبادات ہوں یا معاملات ، معاشیات ہو یا سیاسیات،معاشرت ہو یا عمرانیات یا تعلقات عامہ سب کے سب نظم ونسق اور قوانین وضوابط سے مربوط ہیں۔اللہ کے پیارے رسول محمد ؐکی حدیث ہے ’’ ان اللہ تعالیٰ یحب اذا عمل احدکم عملا ان یتقنہ‘‘ (بیہقی، شعب الایمان) اللہ تعالی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ تمہارا کوئی بھی کام عمدگی اور سلیقہ مندی سے ہو۔
قرآنی آیات، ذخائر احادیث اور اسلامی سیر و تاریخ میں جابجا اس کی تبلیغ و تفہیم اور تعریف و تحسین کی گئی ہے اور اس کی اہمیت و ضرورت اور معنویت کو آشکارا کیا گیا ہے۔ واقعہ معراج جو گردوں پر عالم بشریت کی حکمرانی کا استعارہ ہے، اس میں بھی نظم و نسق اور قانون و ضابطہ کو برتنے کی بھرپورتلقین وتعلیم موجود ہے۔ خاص طور سے یہ حقیقت اس وقت اور زیادہ طشت ازبام ہوجاتی ہے جب رسول اللہؐ اس جسمانی وروحانی سفر میں آسمانِ دنیا کے دروازے پر پہنچتے ہیں توآپ کے دلیل سفرحضرت جبریلؑ جیسے مقرب بارگاہ الٰہی فرشتے کواس میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے اور ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ کون ہیں؟ جواب ملتا ہے کہ میں جبریلؑ ہوں، پھر سوال ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ جواب دیا گیا کہ محمد ؐہیں، مزیدسوال ہوتا ہے کہ کیا ان کو بلایا گیا ہے، جواب دیا جاتاہے کہ ہاں، پھر آپ کا ’’مرحبا بہ فنعم المجئی جاء ‘‘(خوش آمدید!کیا ہی مبارک آنے والے ہیں)کہہ کر والہانہ استقبال ہوتا ہے۔ رسول اللہ ؐ اور حضرت جبریل کو ساتوں آسمان پر اسی نظم وقانون سے گزرنا پڑتا ہے۔ (بخاری)

ذرا غور کریں کہ حضرت جبریل علیہ السلام اپنی تمام تر خصوصیات اور اعلیٰ مقام و مرتبہ کے باوجود اپنے رعب وداعب،اثرو رسوخ اور بارگاہ الٰہی میں تقرب کا دعویٰ و دلیل کیے بغیر کس طرح ساتوں آسمان کے نظم و نسق اور قانون و ضابطہ کی مکمل پابندی کرتے نظر آتے ہیں؟
نظم و نسق کے پابند صرف مقرب ترین فرشتے جبریل امینؑ وغیرہ ہی نہیں بلکہ تمام فرشتے ہیں جیساکہ ارشادات باری تعالیٰ ’’والصافات صفا ‘‘ (الصافات؛ ۱۔قسم ہے (عبادت کے لیے سلیقہ سے)صف بستہ کھڑے فرشتوں کی) اور’’ویفعلون مایومرون‘‘(التحریم :۶۔فرشتوں کو جو حکم دیا جاتا وہ اسے بجا لاتے ہیں)میں بیان ہوا ہے۔
عبادتوں میں نماز جوکہ مومنوں کی معراج ہے اس میں بھی نظم و نسق کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے کہ ’’سو وا صفو فکم فان تسوی الصفوف من اقام الصلوۃ‘‘ (بخاری) اپنی صفوں کو درست کرو اس لیے کہ صفوں کی درستگی سے ہی اقامت صلوۃ ہوتی ہے۔
امامت صلاۃ بھی انتہائی نظم ونسق کی تعلیم دیتی ہے کہ امام اگر بھول جائے تو اس کو لقمہ دینے کے باوجود اس کی پیروی لازم ہوتی ہے۔

روزے کی کتنی اہمیت ہے اس سے ہر کوئی واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اہمیت کے پیش نظر اور کمال انعام و نوازش کے طور پر اس کا بدلہ خود دے گا۔ اس میں بھی بعض جائز امور پر پابندی لگاکر نظم و نسق کا خیال و لحاظ رکھنے کی تعلیم و ترغیب دی گئی ہے۔
معیشت کو استحصالی سرمایہ دارانہ نظام اور جارح اشتراکیت کی خونیں کشمکش سے بچا کر نظم و نسق اور اعتدال پر استوار کیا گیا ہے کہ ’’توخذ من اغنیاء ھم وترد الی فقراء ھم‘‘۔(بخاری)مال زکوٰۃ مالداروں سے وصول کیا جائے گا اور غریبوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
تجارتی امور کو انار کی اور بد نظمی سے پاک رکھنے کے لیے حکم ہوا۔ ’’لا یسم المسلم علی سوم اخیہ‘‘ (مسلم)کوئی مسلم کسی مسلمان کے سودے پر سودا نہ کرے۔
اسی طرح حسن معاشرت کے آداب میں سے ایک ادب یہ بتایا گیا کہ تم کسی کے گھر یونہی منھ اٹھا کر نہ چلے جائو بلکہ اس کے دروازے پر پہنچ کر پہلے سلام کرو، پھر اجازت طلب کرو اور اجازت ملنے کی صورت میںہی کسی کے گھر میں داخل ہو۔ (ابو دوائود)
یہ سارے خطابات کن لوگوں سے ہورہے ہیں؟ ان نفوس قدسیہ سے جو نبی ؐ کے ہر حکم پر جان نثار کرتے ہی نہیں بلکہ ہر حکم پر کان دھرے رہتے تھے اورجن کے بارے میں نبی ؐکے ادنی حکم سے سر مو انحراف کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
معلوم یہ ہوا کہ عبادات ہوں یا معاملات یا معاشرت و معیشت ہر معاملے میں نظم و نسق اورقانون و ضابطہ کی پابندی ضروری ہے۔ اگر اپنے ملک میں ہوں تو اس میں بھی اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے اور بیرون ملک میں ہوں تب بھی اس کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔

موسم حج ہم پر سایہ فگن ہے اور اللہ نے جن مستطیع بندوں کو اپنے بیت عتیق کے حج کی سعادت بخشی ہے وہ دنیا کے ہر کنارے سے جوق درجوق اورافتاں وخیزاںمکہ چلے آرہے ہیں۔ کیوں کہ حج کی اہمیت و فضیلت بے شمار ہے۔اس میںمومن حضور قلب کے ساتھ اپنے پالنہار سے دعا ومناجات کرتا ہے، اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں،وہ بے شماردنیوی واخروی منافع حاصل کرتا ہے، اس کے ایک ایک عمل کا اجروثواب ہزاروں گنا بڑھ جاتا ہے اور ایک حاجی حج کر کے جب واپس لوٹتا ہے تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوتا ہے کہ گویا اس کی ماں نے اسے اسی دن جنم دیا ہو۔ ایک مومن صادق کے دل میں جاگزیں حج کے شوق و محبت کو دیکھتے ہوئے ہر ملک میں حکومت کی طرف سے اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے انتظامات کیے جاتے ہیں اور نظم و قانون بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح حرمین شریفین کے خدام اور ضیوف الرحمن کے میزبانوں نے بھی حجاج کے حسن استقبال ، مناسک حج کی پرامن ادائیگی اور راحت وآرام کے لیے جدید سہولیات سے لیس انتظامات کررکھے ہیں اور امن وشانتی اور اخوت و بھائی چارہ کے ماحول میں مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے ضابطے بھی مقرر ہیں، ان کا پاس و لحاظ ہر حاجی کے لیے شرعی واخلاقی طور پر ضروری ہے۔ حاجی جس ملک سے بھی چلیں وہ روانگی سے لے کر واپسی تک امن و قانون کا پاس و لحاظ رکھیں۔ حجاج کو وداع کرنے کے نام پر نہ امن وقانون کو ہاتھ میں لیں ،نہ ہڑدنگ مچاتے پھریں اور نہ ہی ٹریفک نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کریں۔ اور آپ یہ ہرگز نہ بھولیں کہ آپ ایک روحانی سفرپر نکلے ہیں، آپ کا یہ سفر سراپا عبادت اور خوشنودی مولی کے لیے ہے۔ آپ کسی ریلی ، احتجاج یا ناموری کے لیے نہیں نکلے ہیں۔

اسی طرح جب حج بیت اللہ کا عزم محکم ہوجائے تو سب سے پہلے سفر حج کے لیے ضروری قانونی اور انتظامی امورکی تکمیل کرلیں۔ ان میں سب سے اہم کام حج کے لیے تصریح (پرمٹ)اور ویزہ کا حصول ہے۔ حج ویزا یا تصریح کے بغیر ہرگز ہرگز سفرحج نہ کریں۔ کیوں کہ یہ ایک دینی،اخلاقی اور دستوری غلطی اور بسا اوقات جرم ہے۔ذرا بتائیں تو سہی کہ آپ نظم و ضبط کو درہم برہم کرکے، قانون کو ہاتھ میں لے کر، بیجا بھیڑ بھڑاکا کرکے، اپنے بھائیوں کو تکلیف دے کر اور انتظامیہ کو زک پہنچا کر آخر کونسی عبادت کرنا چاہتے ہیں؟ اللہ کے لیے ایسا ہرگز نہ کریں۔ اگرآپ نے ایسی ترکیب نکال ہی لی ہے کہ انتظامیہ کی آنکھ میں دھول جھونک دیں گے اور پکڑے نہ جائیں گے،تویہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آپ جس اللہ تعالیٰ کے لیے یہ مقدس سفر کررہے ہیں، حج جیسی گناہوں سے پاک صاف کرنے والی عبادت کرنے والے اور قدم قدم پر اور لمحہ لمحہ رب کی رضا چاہنے والے ہیں اور لبیک اللہم لبیک پکارنے والے ہیں وہ اللہ اس طرح کی بد نظمی،قانون شکنی اور دھوکہ دھڑی کو پسند نہیں کرتا ہے۔ اس طرح کے ناروا تصرفات حج کی روح کے منافی ہیں۔اللہ کے رسول ؐ اور آپ کے پیارے جانبازصحابہ اللہ کے حکم سے سنہ ۶ہجری میں عمرہ کے لیے مدینے سے نکلے تھے،لیکن مکہ والوں نے روک دیا۔چنانچہ حق پر ہونے کے باوجود اور سب سے مبارک سفرہونے کے علی الرغم خیر وبرکت اور خطے میں پائیدار امن کی آس وامید میں عمرہ اد اکیے بغیر مدینہ واپس لوٹ آئے،بعض صحابہ کو یہ اٹ پٹا سا لگاکہ اس قدر دب کر مشرکوں سے معاہدہ کیوں ہورہا ہے لیکن ان کی سلیقہ مندی اورنظم کی پابندی دیکھئے کہ کسی کو مجال حکم عدولی نہ رہی اور تاریخ کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ ان ستودہ صفاتوں کا عمرہ کیے بغیر واپس آنا فتح مبین کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
مشرکین مکہ نے شدت عداوت ودشمنی کی تپش میں کباب ہوکر اور اللہ کے راستہ سے موحدین کو روکنے کے لیے ظالمانہ موقف اختیار کیا تھا ، لیکن یہاں تو معاملہ اس کے برعکس ہے۔یہاں تو کتاب وسنت کی اساس پر استوار مملکت کی طرف سے امن وشانتی کے سائے میں بسہولت مناسک حج اداکرانے کی غرض سے ضوابط وقوانین مقرر کیے گئے ہیں،لہٰذا ان کی پابندی شرعا واخلاقاناگزیر ہے۔

سعودی حکومت جب سالہاسال کے تجربے اور پورے سال وزارت حج سمیت ساری منسٹریاں ہی نہیں بلکہ پوری حکومت اسی انتظامی ادھیڑ بن اور انتظام کی فکر میں لگی رہتی ہے اور بہتر طور پر ان تمام بے شمار مسائل اکل وشرب ، طعام و قیام ، آمد و رفت، ادائیگی مناسک،فرائض و واجبات اور مستحبات، صفائی و ستھرائی اور ہر طرح کی اطمینان وسکون اور ہر طرح کی لڑائی اور دنگائی سے دور فضا میں آپ کو پرسکون اور روح پرورماحول میں عبادت کا موقع فراہم کے لیے کوشاں رہتی ہے اوران سب کو بہتر سے بہتر طور پر انجام دینے کے لیے ہر انسانی طاقت وقوت کو اجتماعی و انفرادی اور حکومتی و عوامی طور پر جھونک کر بھی مزید بہتری کے لیے فکر مند رہتی ہے اور ان سب میں حفظان صحت کے تمام اصولوں اور ترکیبوں کو بروئے کار لانے میں منہمک و سرگراں ہوتی ہے۔ایسے میں آپ کی یہ زیادتی وقانون شکنی اور اس میں بلا ویزا ،بلا تصریح وویزا اوربلا اجازت کے انٹری کیا کچھ پرابلم اورمشکلیں کھڑی نہ کردے گی؟ اس لیے براہ کرم آپ سعودی عرب کے اندر ہوں یا باہر ایسی جرأت بیجا سے باز آئے ، اپنے رویہ میں تبدیلی لائیے اور دین وایمان، شریعت وقانون اور مصلحت و خیر خواہی امت کا لحاظ رکھتے ہوئے اصول وضوابط پر کاربند ہوجائے۔ ہمیںخوب معلوم ہے کہ جولوگ چوری چھپے ہزار جتن کر نے کے بعد بلا ویزا و تصریح حج کرتے ہیں ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیںجو بار بار حج کرنے کے عادی ہیں۔ یا یہ وہ لوگ ہیں جن کو اس طرح کے لوگ یا ایجنٹ ورغلاتے اور ابھارتے ہیں، ورنہ عام حج کرنے والے حضرات اگر کچھ دنوں تک صبر کریں تو ان کو کم ازکم زندگی میں ایک بار حج کرنے کاچانس ضرور مل جاتا ہے۔ حج کمیٹیاں، حکومتیں اور متعلقین اس پر نظر رکھتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس کا کوئی نہیں ہے اس کا ادائیگی فریضہ حج کے لیے اللہ جل شانہ کافی و افی ہیں۔ ساری دنیا کو آپ بے سروسامانی اور بے یاری و مددگاری کے باوجود مسخر اور ہموارکرسکتے ہیں۔ اگر حج کی نیت ہے اور آپ اس کا شوق فراواں لیے ہوئے ہیں تو اللہ سے امید رکھیں اور غلط راہ اور طریقہ اپنانے سے بچیں۔ مفہوم جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کی مشکلات سے نکلنے کی شکل نکال دیتا ہے) اور کس کو اس مقد س جگہ پر جانے اورا س کے خیرات و برکات اور اجر و ثواب سے بہرور ہونے کا انتہائی جذبہ و شوق نہیں ہے؟ کونسا سینہ ہے جس میں یہ جذبہ صادق موجزن نہیں ہے ؟ کس دل میں اس کو پالینے کی تڑپ نہیں ہے؟ کونسی آنکھ ہے جو اس کے د یدار کے لیے نہیںترس رہی ہے؟ اور کونسی پیشانی ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے اور اللہ کے سامنے اس کی اس مبارک سرزمین پر سجدہ ریز ہونے کے لیے بے چین نہیں ہے؟حق تو یہ ہے کہ زبان حال سے ہر مومن یہی کہتا رہتا ہے:
کہ ہزاورں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
ان دنوںآپ سبھی عشرہ ذو الحجہ سے گزررہے ہیں جو اللہ کے نزدیک سب سے بہترین ایام ہیں۔ان مبارک ایام کو صحیح طریقے سے کام میں لائیں۔یہ عید سعید کو آپ کو اور پورے ملک وملت اور انسانیت کو بہت بہت مبارک ہو۔اللہ تعالی اسے بھلائی کا ذریعہ بنائے۔آمین

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS