ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی
ہندوستان جو اپنے دامن میں صدیوں پرانی تہذیب، تمدن، ثقافت اور ہم آہنگی کی بے نظیر مثالیں سمیٹے ہوئے ہے آج ایک ایسے نازک دور سے گزر رہا ہے جہاں انسانیت کا سرمایہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ یہ وہی دھرتی ہے جہاں صوفیاء نے محبت کے نغمے گائے، جہاں سنتوں نے روحانی ہم آہنگی کا درس دیا، جہاں بھگوت گیتا، وید اور قرآن کی آوازیں ایک ساتھ گونجتی رہی ہیں اور جہاں عید و دیوالی، ہولی و بقرعید کی خوشیاں ایک دوسرے کے ساتھ منائی جاتی رہیں۔یہ وہ ملک ہے جہاں بھگوت گیتا کے فلسفے اور کبیر کے دوہوں نے جنم لیا، جہاں صوفیاء کی روحانی شاعری اور گاندھی جی کے اہنسا کے تصور نے تہذیبی روایت کی بنیاد رکھی،مگر آج یہی دھرتی نفرت کی آگ میں جل رہی ہے۔ مذہب کے نام پر، ذات پات کے نام پر، زبان اور علاقائیت کے نام پر معاشرے کے تانے بانے کو دانستہ طور پر کھوکھلا کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم واقعی وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنے ہی ہم وطنوں سے خوف کھانے لگے ہیں؟ کیا ہم نے اپنی اس روایت کو بالکل ہی فراموش کر دیا ہے جس میں دہلی کی گلیوں میں ہولی کے رنگ اور عید کی خوشیاں مشترکہ تھیں مگر آج کا ہندوستان ایک مختلف منظر پیش کرتا ہے۔ یہاں کے آسمان پر نفرت کے بادل چھا چکے ہیں اور دلوں میں محبت کی روشنی مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تبدیلی کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس کے ازالے کا راستہ کیا ہے؟
ہندوستانی معاشرے میں نفرت کی جڑیں اتنی گہرائی تک پیوست ہو چکی ہیں کہ اب یہ ایک معمول کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ہمارے سماج میں نفرت کی جڑیں محض اتفاقی طور پر نہیں اگ آئی ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک منظم، دانستہ اور گہری سازش کارفرما ہے۔ سیاسی جماعتیں جو دراصل عوام کی خدمت کے لیے وجود میں آئی تھیں، آج خود ان کے درمیان دراڑیں ڈالنے کا سبب بن چکی ہیں۔ انتخابی مہمات میں فرقہ پرستی، اشتعال انگیز تقاریر اور دوسروں کے خلاف نفرت پھیلانا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں عام انسان اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی خوف محسوس کرنے لگا ہے۔ کہیں کسی کے لباس پر سوال اٹھتا ہے، تو کہیں کسی کے کھانے کے طریقے پر۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں سماجی ہم آہنگی کا تصور محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ صحافت جو کبھی ضمیر کی آواز سمجھی جاتی تھی اب کسی مخصوص نظریے کی خدمت گزار بن گئی ہے۔ سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ جھوٹی خبریں، اشتعال انگیز بیانات اور نفرت انگیز مواد چند لمحوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچ کر ذہنوں کو زہر آلود کر دیتا ہے۔ تعلیمی نظام بھی اس تباہی سے محفوظ نہیں رہا۔ وہ نصاب جو کبھی طلبہ کو رواداری، باہمی احترام،بھائی چارہ اور انسانیت کا سبق سکھاتا تھا، اب صرف ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ حال یہ ہے کہ نوجوانوں کو تاریخ تو پڑھائی جاتی ہے مگر اس تاریخ سے وہ سبق نہیں سیکھ پاتے جو دلوں کو جوڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔ گاندھی، نہرو، مولاناابوالکلام آزاد، رابندرناتھ ٹیگور اور اے پی جے عبدالکلام جیسی ہم آہنگی کی علمبردار شخصیات اب محض نام بن کر رہ گئی ہیں، ان کی فکر اور فلسفہ تعلیمی اداروں سے غائب ہوتی جارہی ہیں۔
نفرت کی یہ فصل جو ہم نے بوئی ہے اس کے اثرات ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں بدیہی طور پر نظر آتے ہیں۔نفرت جب کسی معاشرے میں جڑ پکڑ لیتی ہے تو اس کے اثرات صرف جذباتی یا نظریاتی نہیں ہوتے بلکہ یہ روزمرہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرتی ہے۔ خاندانوں میں تفریق پیدا ہوتی ہے، دوستیاں ٹوٹتی ہیں اور باہمی اعتماد کا رشتہ متزلزل ہو جاتا ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں انسان انسان پر بھروسہ نہ کر سکے، وہ کبھی ترقی کی طرف گامزن نہیں ہو سکتا۔ ہم نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے کہ کس طرح معمولی جھگڑوں نے شہروں کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک دیا۔ یہ صرف جانی نقصان تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس سے ایک پوری نسل خوف، کرب اور عدم تحفظ کے احساس میں پلتی ہے۔ معاشی ترقی، جو کسی بھی ملک کے لیے بنیادی ستون سمجھی جاتی ہے، نفرت کے ماحول میں زوال پذیر ہو جاتی ہے۔
سرمایہ کار ایسے علاقوں میں سرمایہ لگانے سے کتراتے ہیں جہاں امن و امان کی صورت حال غیر یقینی ہو۔ سیاحت، جو ہندوستان کی ایک بڑی آمدنی کا ذریعہ ہے نفرت اور تشدد کے واقعات سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ چھوٹے کاروباری لوگ جو مختلف برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں جب ایک دوسرے پر اعتماد کھو دیتے ہیں تو تجارتی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں اور معیشت کمزور پڑ جاتی ہے۔نوجوان نسل جو کسی بھی سماج کا مستقبل ہوتی ہے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ نفرت کی فضا میں پرورش پانے والے نوجوان شدت پسندی، غیر رواداری اور انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب وہ دوسروں کو محض ان کی شناخت کی بنیاد پر پرکھتے ہیں تو ان کی ذہنی وسعت محدود ہو جاتی ہے۔ وہ تنقیدی سوچ سے محروم ہو جاتے ہیں اور ایک متعصب ذہن لے کر معاشرے میں شامل ہوتے ہیں جو کہ کسی بھی جمہوری ملک کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہے۔یہی وہ نسل ہے جو کل کو سرکاری عہدوں، تعلیمی اداروں اور صنعت و تجارت کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ اگر ہم نے اس نسل کو آج محبت، رواداری اور ہم آہنگی کا سبق نہ دیا تو کل کا ہندوستان ایک شدید بحران کا شکار ہوگا جہاں صرف ظاہری ترقی باقی رہے گی مگر دل کھوکھلے ہوں گے۔ لیکن ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے امید کی کرن اب بھی باقی ہے۔ ہمارے پاس اپنی اس قدیم روایت کو پھر سے زندہ کرنے کا موقع موجود ہے جہاں ہم نے صدیوں تک مشترکہ تہذیب کو پروان چڑھایا ہے، نفرت کی تاریکی جتنی بھی گہری ہو ایک چھوٹی سی امید بھی اسے چیر سکتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ ایسے روشن کرداروں سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے نفرت کی آگ میں بھی محبت کا پیغام سنایا ہے۔ کبیر، گرو نانک، خواجہ غریب نواز، شیخ احمد سرہندی اور گاندھی جی جیسے رہنماؤں نے ہمیشہ انسانیت کو اولین حیثیت دی۔
آج بھی ہمیں انہیں شخصیات کے نقش قدم پر چل کر راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں محبت کی شجرکاری کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے تعلیمی اداروں میں تبدیلی لانی ہوگی اور وہاں صرف کتابیں نہیں دل بھی کھولنے ہوں گے۔ اسکولوں اور کالجوں میں ایسے مضامین کو فروغ دینا ہوگا جو نوجوانوں کو صرف پیشہ ورانہ مہارت نہ سکھائیں بلکہ انہیں بہتر انسان بھی بنائیں۔ مشترکہ تہذیب، صوفی اور بھکتی تحریکوں کا مطالعہ اور مختلف مذاہب کی تعلیمات کو مثبت انداز میں پیش کرنا اس مہم کا حصہ ہونا چاہیے۔ تاریخ کو تعصب کے بغیر پڑھانا اور یہ سکھانا کہ مختلف شناختیں ایک ساتھ مل کر کیسے ایک خوبصورت سماج کی تشکیل کرتی ہیں انتہائی ضروری ہے۔میڈیا کو بھی اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنا ہوگا۔ صحافت کو سنسنی خیزی اور جھوٹے بیانیے سے باہر نکل کر سچائی، ہمدردی اور معاشرتی ہم آہنگی کے لیے کام کرنا ہوگا۔ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ ایسے پروگرام پیش کریں جو مختلف کمیونٹیز کو قریب لائیں، ان کے مسائل کو اجاگر کریںاور آپسی بھائی چارے کو فروغ دیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو نفرت انگیز مواد کے خلاف سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور عوام کو بھی یہ سکھانا ہوگا کہ وہ ایسی باتوں کو پھیلانے کے بجائے ان کے خلاف آواز بلند کریں۔سیاست دانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود کو عوام کا خدمت گار سمجھیں ان کا آقا نہیں۔ وہ جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ کروڑوں دلوں پر اثر ڈالتی ہے۔ اگر وہ نفرت کے بجائے اتحاد، یکجہتی اور ترقی کی بات کریں تو عوام بھی انہیں خطوط پر سوچنا شروع کر دے گی۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ فرقہ وارانہ جرائم کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ایک ایسا ماحول بنائے جہاں ہر شہری خود کو محفوظ سمجھے۔
(مضمون نگار،اسسٹنٹ پروفیسر، فیکلٹی آف تھیولوجی
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ )
[email protected]