عوام کی بھاری حمایت سے مغربی بنگال میںتیسری بار حکومت کررہی ممتابنرجی کی راہ کے کانٹے کم نہیں ہورہے ہیں۔ ایک طرف مرکز کی جانب سے مقرر کیے گئے گورنر جگدیپ دھن کھڑ کی جا و بے جا دخل اندازی حکومت کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے تو دوسری جانب ریاست میں صدر راج نافذ کیے جانے کا تانا بانا بھی بنا جانے لگا ہے۔ اپوزیشن بھارتیہ جنتاپارٹی کی سیاسی آویزش بھی حکومت کی راہ میں مشکلیں کھڑی کررہی ہے۔ آج جمعہ کا دن ممتاحکومت کیلئے مشکلات سے بھر ارہا۔ ایک طرف سپریم کورٹ نے وہ عرضی سماعت کیلئے منظور کرلی ہے جس میں ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ دوسری طرف کلکتہ ہائی کورٹ نے بعدا ز انتخاب تشدد کے معاملہ میں سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ تشدد کا شکار بننے والے تمام افراد کے مقدمات درج کرے، ان کا علاج کرائے اور متاثرین کیلئے راشن کی فراہمی کو یقینی بنائے۔تیسری جانب آج سے شروع ہونے والا بجٹ اجلاس حزب اختلاف بھارتیہ جنتاپارٹی کی ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگیا۔بی جے پی کے ارکان چاہ ایوان تک پہنچ گئے اور جے شری رام کے نعرے لگانے لگے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ریاست میں بعدازانتخاب ہورہے تشدد کے واقعات کا کوئی ذکر گورنر کی تقریر میں نہیں ہے اس لیے وہ گورنر کا خطبہ نہیں سنیں گے۔گورنر جگدیپ دھن کھڑ جنہوں نے پہلے ہی حکومت کا لکھا ہوا خطبہ پڑھنے سے انکار کردیاتھا دو چار منٹوں میں ہی اپنی تقریر سمیٹ کر راج بھون کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔
ممتاحکومت کیلئے سب سے زیادہ مشکلات کا سبب گورنر جگدیپ دھن کھڑ ہی بنے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا ہے جب گورنر، حکومت کے خلاف بیان بازی نہ کرتے ہوں۔ اس کے نتیجہ میں راج بھون اور نوانو (ریاستی سکریٹریٹ) کے مابین تصادم کی کیفیت پیداہوگئی ہے۔ آئین کی مقرر کردہ حدود سے باہر نکل کربنگال کو اپنی جولانی طبع کا مشق بنانے والے گورنر کے خلاف ریاستی کابینہ کا ہر رکن شمشیر برہنہ بنا ہوا ہے۔وزیراعلیٰ ممتابنرجی باقاعدہ پریس کانفرنس کرکے گورنر دھن کھڑپر سنگین بدعنوانی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ تین بار مرکز کو خط لکھ چکی ہیں کہ جگدیپ دھن کھڑ کو واپس بلالیا جائے لیکن اب تک مرکز کی جانب سے ان کے کسی بھی خط کا جواب نہیں ملا ہے۔ممتابنرجی بدنام زمانہ جین حوالہ بدعنوانی کیس میں بھی گورنر جگدیپ دھن کھڑ کے ملوث رہنے کا الزام عائد کرتی ہیں تو دوسری طرف ترنمول کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ ریاست میں جعلی ویکسی نیشن کیمپ کے انعقاد میں بھی راج بھون کے کردار کو زیر بحث لارہے ہیں۔ حتیٰ کہ گورنر دھن کھڑ کوواپس بلانے کی تجویز بھی حکومت کے زیر غور ہے جو اسی اجلاس میں پیش کی جانے والی ہے۔
دیکھاجائے تو یہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔ حدود سے تجاوزہمیشہ ہی قابل گرفت رہا ہے۔آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی بھی یہی ہے کہ ہر شخص چاہے وہ کسی عہدہ پر ہی براجمان کیوں نہ ہو، اس کیلئے ایک دائرہ مقرر ہے۔ اس دائرہ سے باہر جب بھی وہ قدم نکالے گا گرفت ہونی ہے۔ عہدہ کا کروفرکسی کو بھی آئین سے ماورا نہیں کرسکتا ہے۔ گورنر جگدیپ دھن کھڑ کے معا ملے میں بھی اسی اصول کو پیش نظر رکھاجاناچاہیے۔ اپنے دو سالہ دور میں جگدیپ دھن کھڑ گورنر کی حیثیت میںآئینی حدود سے باہر نکل کر امور ریاست میں دخل اندازی کرتے رہے ہیں۔حد تو انہوں نے اس وقت کردی جب ریاست میں حزب اختلاف بھارتیہ جنتاپارٹی کے ارکان کے ساتھ راج بھون میں ممتاحکومت کے خلاف باقاعدہ پریس کانفرنس کی اور وہی باتیں دوہرائیں جو حزب اختلاف کا موقف رہاہے۔ایک طرح سے انہوں نے خود کو ریاست میں آئینی سربراہ کے بجائے اپوزیشن لیڈر کے طور پر پیش کردیا۔دو دن قبل ہی انہوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے تیارکردہ خطبہ پڑھنے سے انکار کردیا۔ گورنر تقریر کے کچھ حصے تبدیل کرنا چاہتے تھے لیکن آئین کے مطابق وہ اس کے مجاز نہیں ہیں۔گورنر اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کسی راجہ مہاراجہ یا شاہ و شہنشاہ کی جانب سے مامور صوبیدار کا اختیارات نہیں رکھتے ہیں۔ وہ آئین میں تفویض کردہ محدود اختیارات کے ساتھ ایک جمہوری حکومت کی جانب سے ریاست میں مامور کیے گئے ہیں۔آئین نے انہیں حکومت کی راہ میں مزاحم ہونے کا اختیار نہیں دیاہے۔
ان حالات میں اگر حکومت ا نہیں واپس بلانے کا مطالبہ کررہی ہے تو کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔بہرحال یہ صورتحال عوام کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ منتخب ہونے والی کسی حکومت کیلئے کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہوسکتی ہے۔ نہ تو ریاست میں ایسی بدنظمی اورانارکی ہے کہ قانون اپنا کام نہ کرسکتا ہو اور نہ ہی نظم و نسق کو وہ خطرہ لاحق ہے جس کا واویلا مچایاجارہاہے۔ایسے میں صدر راج کے نفاذ کی کوشش کو سیاسی بحران پیدا کرنے کی سازش ہی سمجھاجائے گا اور اسے کسی بھی حال میں پسند نہیں کیاجاسکتا ہے اور نہ ہی گورنر کے فعال سیاسی کردار کومستحسن ٹھہرایاجاسکتا ہے۔
[email protected]
ممتاحکومت کی راہ میں کانٹے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS