عبدالسلام عاصم
خدا پر یقین کا نسل در نسل جاری سلسلہ اب ختم ہوتا نظر آتا ہے۔ اس خوش فہمی کا اظہار کسی مذہب کی نفی کرنے والے لا دین نے نہیں کیا بلکہ یہ اندیشہ جرمن بشپس کانفرنس کے سربراہ گیؤرگ بیٹسگ نے جرمن دارالحکومت برلن میں منعقدہ سالانہ بشپس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ لوگوں کا خدا کی وحدانیت پر سے یقین بھی اٹھتا جا رہا ہے۔ بشپ نے اس صورت حال کیلئے کسی مذاہب مخالف لابی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا بلکہ پیرانِ کلیسا پر یہ کہتے ہوئے بالواسطہ انگلی اٹھائی ہے کہ کلیسا کو تو خدا کے بندوں کی درست رہنمائی کرنا تھی اور لوگوں کے دلوں کو جیتنا تھا۔
یہ منظرنامہ کسی ایک ملک، خطے یا مذہب تک محدود نہیں۔ ارتقاء کے جاری مرحلے میں دنیا کے بیشتر مذاہب کو دنیا بھر میں اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ ذمہ داران کو جہاں اس انقلاب یا منفی تبدیلی کا باریکی سے بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے، وہاں اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ نام نہاد مذہبی رہنمایان مذاہب کے اصل انسانی پیغام کو عام کر کے حالات کو بدلنے کے بجائے اپنی کمزور پڑتی گرفت کو مضبوط بنانے کیلئے ایک دوسرے مذاہب کو نشانہ بنا کر اپنے زیر اثر مذہب پرستوں کو انتہا پسند بنا رہے ہیں۔ حالانکہ انتہا پسندی کی آج بھی کسی مذہب کی اصل شکل میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
جرمن بشپ نے جن باتوں کا نوٹس لیا ہے، ان میں لوگوں کے اندر مذہب کی جانب رغبت میں کمی کے ساتھ عبادت گاہوں کا رُخ کرنے کا رجحان بھی کم ہونے کا ادراک شامل ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی مغربی معاشرے کے پس منظر میں درست نظر آتا ہے کہ یہ سلسلہ ایکدم سے شروع نہیں ہوا بلکہ دہائیوں سے جاری ہے۔دیکھا جائے تو مشرق میں یہ رجحان اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہاں عبادت گاہوں سے رجوع کرنے کا انداز بدل گیا ہے۔ پہلے جہاں خدا کی محبت لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی، اب وہیں فرقہ وارانہ اور مسلکی کشش بیشتر معبدوں کو آباد کیے ہوئے ہے۔
سوال ہے اس منظر کو بدلنے کیلئے عملاً کیا کیا جائے کہ خدا خانے انسانوں کے حق میں نیک لوگوں کی اجتماع گاہ بن جائیں۔ اس سوچ کے ساتھ بالفرض ایک یا ایک سے زائد حلقوں کی طرف سے کبھی کوئی قدم اٹھایا گیا تو اس سے از خود یہ ثابت ہوجائے گا کہ اب تک کے قدم گمراہی کے راستے پر تھے۔ کہتے ہیں کوئی بھی کرتب باز زیادہ دیر تک ناظرین کو بے وقوف نہیں بناسکتا۔ اس لحاظ سے تو جرمن بشپ نے بالواسطہ اسی ادراک سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ اب لازمی ہوگیا ہے کہ خدا خانوں کے ذمہ داران لوگوں کو پھر سے بنیادی مقصد کے ساتھ مذہب کی طرف مائل کرنے کے لیے اپنے راستے بدلیں اور صحیح راستہ اختیار کریں، تاکہ وہ خدا خانے سماجی زندگی اور طرز معاشرت میں بہتری لانے کے رُخ پر اپنا کردار بھر پور طریقے سے ادا کرسکیں۔
ہر چند کہ یہ باتیں جرمن ماحول کے پس منظر میں کہی جارہی تھیں اور مذہب کو چند رسومات تک محدود کردینے کے شاخسانے کے طور پر لوگوں کے(ان رسومات میں شرکت کیلئے بھی) کلیساؤں کا رُخ نہ کرنے پر افسوس ظاہر کیا جارہا تھا، لیکن صورتحال کا ایک بڑے کینوس پر جائزہ لیا جائے تو شاید ہی کوئی مذہب محفوظ نظر آئے! اگر بقول جرمن بشپ یہ کسی لادین تحریک کا نتیجہ نہیں تو پھر خرابی جاننے اور اسے دور کرنے کیلئے اپنے اندر ہی جھانکنا ہوگا۔ کیا ہمارے مشرقی مذہبی رہنمایان ایسی ہمت جٹا پائیں گے یا پھر دوسرے مذاہب کی راست اور بالواسطہ نفی کرنے کے کاروبار کے ذریعہ ہی اپنی دکانیں چلاتے رہیں گے۔
ایشیائی ملکوں میں بالخصوص وطن عزیز ہندوستان، پاکستان، افغانستان اور ایران کا جائزہ لیں تو بہت ساری ایسی باتیں سامنے آئیں گی جن کی موجودگی میں مذہب بیزاری پیدا کرنے کیلئے الگ سے کسی تحریک یا مشن کی کہیں کوئی ضرورت نہیں۔ مذہب بیزاری ویسے بھی پیدا نہیں کی جاتی یہ از خود پیدا ہوتی ہے جس کے لیے سازگار ماحول وہی لوگ پیدا کرتے ہیں جو مذاہب کے پیروکار کم اور ٹھیکہ دار زیادہ ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب انسان سے جینے کی آزادی نہیں چھینتا لیکن مذہب کے نفاذ کے ضابطے کو ضد میں بدل دینے والے لوگ جب سخت ترین پابندیوں کے ذریعہ اپنی دھونس جمانا شروع کر دیتے ہیں تو علم سے محروم کمزور جہاں سپر ڈال دیتا ہے وہیں پڑھے لکھے اور سوچنے، سمجھنے والے حلقوں میں مختلف النوع بیزاری سر اٹھانے لگتی ہے۔ کچھ لوگ کسی اعلان کے بغیر زندگی اپنی مرضی سے جینے لگتے ہیں اور کچھ اس قدر کھل کر سامنے آجاتے ہیں کہ کہیں کہیں بات بگڑ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔ پاکستان، افغانستان اور ایران میں تو ایسے واقعات کا جیسے تانتا بندھا رہتا ہے۔ اخبارات میں آئے دن مذہبی جبر کے ہاتھوں کسی کی پرتشدد موت یا قید و بند کے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ہندوستان میں بہت کم ایسے واقعات سرخیوں میں آتے ہیں جن میں کسی کو مذہبی جبر کی قیمت چکانا پڑی ہو۔
ایران میں ابھی حال ہی میں ایک منگنی یافتہ نوجوان جوڑے کو منگنی ہوجانے کی خوشی میں ناچنے گانے کی پاداش میں قید و بند کی صعوبت کا سامنا ہے۔ دونوں نے مذہب کو ہرگز ترک نہیں کیا تھا اور نہ ہی وہ کسی عریاں رقص کے خاطی پائے گئے۔ دونوں سے جس طرح زندگی کی آزادی چھینی گئی ہے، اس کے نتیجے میں کل اگر وہ مذہب کے اس حصار سے نکل جاتے ہیں جو خدا کا نہیں اُن لوگوں کا (خار دار طریقے سے) کھڑا کیا ہو ا ہے جو چاہتے ہیں کہ زندگی کسی کی بھی ہو اُسے جینے کے ہر طریقے پر ان کا اختیار ہو، تو کیا مذہب بیزاری کیلئے وہ دونوں بچے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے! ہرگز نہیں۔ کیونکہ اسلام تو وہ مذہب ہے جس کی وجہ سے عرب کے انتہائی انحطاط پذیر معاشرے میں کایاپلٹ تبدیلی آئی تھی۔
اس سے پہلے بھی حجاب کے معاملے میں ایک ایرانی لڑکی کی اخلاق نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں جان جا چکی ہے۔ اس واقعے نے بظاہر تو کوئی انقلاب برپا نہیں کیا لیکن بباطن جو تبدیلی آرہی ہے، وہ جس دن پھٹ پڑے گی اس روزجبر پر قائم نظام کا سارا توازن بگڑ کر رہ جائے گا۔ مورخ اس اتھل پتھل کو آئندہ ابھرنے والے کسی خوبصورت منظر کا کھردرا پس منظر دکھائے گا۔ ماضی، حال اور مستقبل کے سفر میں ایسی کئی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جن کو وقت رہتے محسوس نہ کرنے والے بھاری قیمت چکاتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک پرانی اطلاع کے مطابق پاکستان کے شمالی کوہستان میں شادی کی نسوانی تقریب میں روایتی ڈھولک بجانے اور گانے والی پانچ لڑکیوں کی جانیں لے لی گئی تھیں۔ پاکستان میں ناموس کیلئے قتل کے سیکڑوں واقعات ہر سال رونما ہوتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ہمارے یہاں مذہب سے دوری کی سب سے بڑی وجہ وہ علماء ہیں جو زندگی جینے کی آزادی کو سمجھنے میں اپنی لا علمی چھپانے کیلئے جینے کے ضابطوں کو جکڑ بندیوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ برقی میڈیا پر جدید مناظروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عالم دین کسی نوجوان کے سوال کا جواب نہیں دے پاتا تو اسے خاموش کروا دیتا ہے۔ ایسے میں کوئی نوجوان اگر یہ سمجھ لے کہ اُس کی باتوں کا مذہب کے پاس کوئی جواب ہی نہیں تو خاطی کون ہے! مزید یہ کہ بیشتر علماحقیقی اور سائنٹفک دنیاوی علم نہیں رکھتے۔ ایسے میں اگر کبھی غلطی سے کوئی سائنسی ایجاد ان کی سمجھ میں آ جاتی ہے تو اس استدلال سے کام لیتے ہیں کہ دین میں اس کا علم تو پہلے سے موجودہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا تھا تو اب تک اسے سامنے کیوں نہیں لایا گیا تھا۔
نوجوانوں کو سائنس سے متنفر کرانا بھی ایک زمانے میں علما کی اہم مصروفیت رہی۔ پرنٹنگ پریس سے لاؤڈاسپیکر تک ہی اس کی کہانی محدود نہیں۔ سوشل میڈیا کو بھی نہیں بخشا جا رہا ہے۔ دوسری طرف دیکھا گیا ہے کہ ہر عہد میں نئی نسل کا جھکاؤ جدید سائنس کی طرف رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مذہب کے عین برعکس سائنس کے پاس ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ دونوں شکلوں میں ٹھوس جوابات ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس علماء جواب سے نامطمئن سائل کو ہی کند ذہن ٹھہرانے لگتے ہیں۔ آج کل کچھ ایکس مسلم اپنے برقی پروگراموں میں علماء سے بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان پروگراموں کا بے باکانہ جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ کسی بھی موضوع پر ایک اسلام دشمن اور ایک اُسی اسلام کا نادان دوست ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں۔ خدا کے وجود تک پر ایک ایسی بحث میں وقت ضائع کیا جاتا ہے جس کے آغاز میں ہی سمجھنے والا سمجھ جاتا ہے کہ یہ اندھا گائے اور بہرا بجائے والا معاملہ ہے۔
زندگی کو مذہب کی آڑ میں مشکل ترین بنانا بھی مذہب سے نئی نسل کے روشن خیال نوجوانوں کی دوری کی ایک اور اہم وجہ ہے۔ یہ گھٹن پہلے بغاوت کو تحریک دیتی ہے پھر مذہب سے دور ی اختیار کرنے کی راہ کشادہ کرنے لگتی ہے۔ ایسی کشاکش سے گزرنے والے نوجوانوں کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کیلئے جب غیر منطقی کوشش کی جاتی ہے تو معاملہ ایکدم سے بے قابو ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہم سب جس عہد کے گواہ ہیں، اُس میں مصنوعی ذہانت سامنے لانے میں انسانی ذہن کی کامیابی نے ایک ایسا اسٹیج تیار کر دیا ہے جس پر پرفارم کرنے والا ہی ٹک سکتا ہے۔ اس بات کو اہل ادیان جتنی جلد سمجھ لیں ان عقائد کے حق میں بہتر ہے جو اصلاً علم پھیلانے آئے تھے جامد رسوم اور روایتی کٹر پن نہیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]