محمد فاروق اعظمی
ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کی تمام سیاست سرمایہ داروں کی لونڈی بن چکی ہے۔عوام اور مزدور دشمن قوتوں کو ہر طرح کا تحفظ مل رہاہے۔تھوڑے تھوڑے وقفہ سے حکومت ایسے فیصلے کررہی ہے جوسرمایہ داری کو مستحکم کرکے عوام کے حقوق کو روزبروز کم کیے جانے کاسبب بن رہے ہیں۔مزدورا ور محنت کش عوام کی زندگی جہنم زدہ بن کر رہ گئی ہے۔ بے روزگاری کا بھیانک عفریت منہ کھولے ملک کے نوجوانوں کو نگل رہا ہے۔ہوش ربا مہنگائی اور کمر توڑ گرانی کی وجہ سے عوام کی زندگی دوبھر ہوچکی ہے۔کھانے پینے کی چیزیں عوام کی رسائی سے دورا ور زندگی کی بنیادی سہولتیں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ عوام کی ان مشکلات کا حل نکالنے کے بجائے حکومت سرمایہ داروں کی رضااور خوشنودی حاصل کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہے۔ حال کے دنوں میں مرکزی حکومت اوراس کے زیرانتظام پالیسی ساز اداروں نے کئی ایسے فیصلے کیے ہیں جن کے نتیجہ میں جمہوریت سرمایہ دارکے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے گی اور طاقت و اختیار کا سارا سرچشمہ سرمایہ دار ہوگا۔قومی وسائل عوامی ملکیت کے بجائے سرمایہ دار کاخزانہ بھرنے کے کام آئیں گے۔ اس کا آغاز مودی حکومت نے منافع بخش قومی اداروں کو سرمایہ دار کے ہاتھوں سونپنے سے کیا اورا ب دھیرے دھیرے قومی وسائل کوبھی سرمایہ داروں کے حوالے کررہی ہے۔ہوائی اڈوں، ریل کی پٹریوں، ٹرین اور ریلوے اسٹیشنوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کو بیچنے کے بعد اب حکومت ریلوے کی زمین بھی سرمایہ داروں کو فروخت کرنے جارہی ہے۔اس سے قبل حکومت نے بینکنگ کے شعبہ میں ’انقلابی اقدامات‘ بھی اٹھائے ہیں۔ان اقدامات کے تحت محنت کشوں، مزدوروں اور غریبوں کا خون نچوڑ کر سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں کو ہرا رکھاجائے گا۔آج جب کہ ہر کچھ دن پر ملک کا کوئی نہ کوئی بینک دیوالیہ ہورہاہے، بڑے صنعتی گھرانوں کو قرض دے کر اس کی واپسی میں ناکام ہے، ایسے میں انہیں سنبھالنے کے بجائے نئے سرے سے صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کو بینک کھولنے کی اجازت دینے کا کھلا مطلب یہی ہے کہ انہیں عوام کے پیسے کو اپنے استعمال میں لانے کی آسانی فراہم کی جائے۔ پورا بینکنگ سیکٹر ایک غیر یقینی صورتحال سے گزر رہا ہے، ایسے میںاگر اس تجویزکو منظور کرکے سرمایہ داروں کو بینک کھولنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی تو وہ قرضوں کی بند ر بانٹ کا ایسا سلسلہ شروع کریں گے جو کبھی ختم نہیںہوگا۔ آر بی آئی کے دوسابق گورنر رگھو رام راجن اور ورل آچاریہ نے اس تجویز کو انتہائی خطرنا ک بتاتے ہو ئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے ایسا کوئی قدم اٹھایا تو اس سے ’ کنیکٹیڈ لینڈنگ‘شروع ہوجائے گی۔ یعنی بینک کا مالک اپنی ہی کمپنی کو آسان شرط پر یا بلا کسی شرط کے قرض دینا شروع کردے گا۔ ایک طرح سے یہ عوا م کی جمع رقم کو لوٹنے کانظام ہوگا جسے قانونی تحفظ بھی حاصل ہوگا۔
ہائیڈرو کاربن اور میتھین گیس کی تلاش کے نام پر زرعی زمینوں کے خوفناک استحصال کی وجہ سے جنوبی ہندوستان میں کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے اور وہ دھیرے دھیرے اپنی زمینوں سے محروم ہورہے ہیں۔ یہ زرعی زمینیں بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو منتقل ہورہی ہیں۔ ایسے میں نئے زرعی قوانین کے تعلق سے کسانوں کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
زراعت کے شعبہ میں اصلاحات کے نام پر حکومت نے جس کھیل کا آغاز کیا ہے، وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ زرعی اصلاحات کے نام پر بنائے جانے والے تینوں قانون زراعت پر سرمایہ دار کا قبضہ مستحکم کرنے والے ہیں۔زمین کا سینہ چیر کر اناج اگانے والے کسان اپنی فصل سرمایہ داروں کی مرضی سے اگائیں گے اور ان کی من پسند قیمت پر فروخت کریں گے۔ ہر چند کہ حکومت کا یہ اصرار ہے کہ کسانوں کو اپنی فصل اپنی مرضی کی قیمت پر بیچنے کا اختیار ہوگا لیکن یہ انتہائی گمراہ کن اور کھلا دھوکہ ہے۔ چند بیگھہ زمین پر فصل اگانے والا کسان اپنی پیداوار کو جلد از جلد بیچ کر قیمت حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے تاکہ وہ اس سے اپنا گزربسرکرنے کے ساتھ ساتھ اگلی فصل بھی پیداکرنے کا سامان کرے، ایسے میں اس کے پاس نہ تو اتنا وقت ہوگا کہ وہ زیادہ قیمت کے انتظار میں اپنی فصل روک رکھے اور نہ جگہ ہوگی جس کانتیجہ یہ ہوگا کہ سرمایہ دار کی مرضی اسے تسلیم کرنی ہوگی۔ سرمایہ داروں کا گروہ فصل کی خریداری کیلئے قیمت پر ایک ہوجائے گا اور کم ترین قیمت طے کی جائے گی جسے قبول کرنا کسانوں کی مجبوری ہوگی۔ایم ایس پی کا خاتمہ بھی زراعت پر سرمایہ داروں کے قبضہ کی کلید ہوگا۔ ان قوانین کے اطلاق کے بعد منڈی پر کارپوریٹ کا کنٹرول ہوجائے گا اور آج اپنی مرضی سے فصل کی قیمت طے کرنے کا سنہرا خواب کل سرمایہ داروں اور کارپوریٹ کی طے کردہ قیمت پربیچنے کی مجبوری میں بدل جائے گا۔نئے قانون میں اجناس کیلئے حکومت کی مقرر کردہ کم از کم سپورٹ قیمت نئے قوانین میں شامل نہ ہونے سے کسان مزید غربت میں ڈوبتے چلے جائیں گے،منڈی کو کنٹرول کرنے والے اجارہ دارپیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر اجناس بیچنے پر کسانوں کو مجبور کریں گے۔ فصل بیچنے کیلئے جس ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بلندبانگ دعویٰ کیاجارہا ہے وہ سٹہ بازی کی ہی دوسری شکل ہے جسے حکومت قانونی تحفظ فراہم کرکے سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کے طور پر دے رہی ہے۔
ملک کے زرعی شعبہ کو بہتربنانے کیلئے گزشتہ چند برسوں میں جو اقدامات کیے گئے ہیں،ان کے تباہ کن نتائج بھی کسانوں کے سامنے ہیں۔ ملک میں کسانوں کی خودکشی کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ہر چند کہ حکومت نے2018کے بعد کسانوں کی خودکشی کا الگ سے کوئی ڈاٹا جاری نہیں کیا ہے لیکن قرضوں کی عدم ادائیگی، فصل کی قیمت نہ ملنے، پیداواری لاگت میں ہوش ربا اضافہ اور دیگر وجوہات کی بناپر بڑی تعداد میں کسان خود کو ہلاک کررہے ہیں۔این سی آر بی نے حال میں حادثاتی اموات اور خودکشی پر2019کی جو رپورٹ جاری کی ہے، اس کے مطابق سال 2019 میں 10281 کسانوں نے خودکشی کی ہے۔یعنی ہندوستان میں ہر مہینہ تقریباً ایک ہزار کسان خودکشی کررہاہے۔ ہائیڈرو کاربن اور میتھین گیس کی تلاش کے نام پر زرعی زمینوں کے خوفناک استحصال کی وجہ سے جنوبی ہندوستان میں کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہوچکی ہے اور وہ دھیرے دھیرے اپنی زمینوں سے محروم ہورہے ہیں۔ یہ زرعی زمینیں بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کو منتقل ہورہی ہیں۔ ایسے میںنئے زرعی قوانین کے تعلق سے کسانوں کے ان خدشات کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا ہے۔
مودی حکومت کے یہ اصلاحی قوانین درحقیقت سرمایہ دارانہ استبداد کی ہی ایک شکل ہیں جنہیں حکومت اپنی طاقت کے بل پر نافذ کررہی ہے۔ان اصلاحات میں سے چند ایک کے سلسلے میں حکومت کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ حکومت مزاحمت کے اس عوامی اور جمہوری حق کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اورسب سے پہلے وہ اسی پر چوٹ کررہی ہے۔حکومت کی منشا ہے کہ عوام بلاچون وچرا اس کی ہرا صلاح کو تسلیم کرلیں لیکن ہندوستان کاجمہوری مزاج حکومت کے راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔چار مہینوں سے چلنے والی کسانوں کی تحریک اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ کسان اپنا گھر بار چھوڑ کر حکومت کے ارادہ کے سامنے چٹان بنے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور کسانوں کا یہی عزم محکم ہندوستان میں مضبوط جمہوریت کی بنیاد ہے۔
[email protected]