کمار پرشانت
شردپوار کے ہاتھ سے طوطے اڑ گئے ہیں، ان کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی الجھن میں گرفتار ہے، کبھی ان کے پنکھ پر سواری کرنے والے ان کے طوطے پر کٹے پرندوں کی طرح سے نہ اُڑ پارہے ہیں، نہ رینگ پارہے ہیں، وزیراعظم مودی اور ان کی پارٹی نہ اپنا چہرہ چھپا پارہی ہے، نہ دکھا پارہی ہے، جنہیں سانپ سونگھ گیا ہے وہ ہیں کانگریس اور شیوسینا کے لیڈران! دکھانے کو سبھی اپنی اپنی تلواریں چلانے کا کھیل کررہے ہیں۔ حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ گتّوں کی ان تلواروں میں نہ دھار ہے، نہ طاقت!
مہاراشٹر کی حکومت کے پاس سر تو ہے ہی نہیں، کندھوں پر دھرا ہے کھوکھلے نائب وزرائے اعلیٰ کا بوجھ! شندے- فڑنویس- اجیت وغیرہ آج کار پر بھلے چل رہے ہوں، ہم بھی جانتے ہیں اور وہ بھی کہ ہیں وہ سب ایکدم بے کار! ایسا بے معنی مزاحیہ ڈرامہ کس نے لکھا؟ یہ اس قدر بدصورت منظرنامہ ہے کہ جس پر نہ کوئی کسی کو مبارکباد دے رہا ہے، نہ پیغام، نہ تبصرہ۔ سب نظریں چرا رہے ہیں تاکہ کوئی کسی کو کچھ کہتا یا کرتا دیکھ نہ لے! ایسے میں لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں- سیدھے بھی اور گھماپھرا کر بھی کہ مہاراشٹر میں جو کچھ، جس طرح، جن کے ذریعہ ہوا، اسے آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
اس لیے میں یہ لکھ رہاہوں۔ اور شروع میں ہی، جے پرکاش نارائن نے 1974 کی عوامی تحریک کی تیاری کے دوران، 1970-72سے جو سوال ملک سے پوچھنا شروع کیا تھا، وہی سوال میں آپ سے پوچھ رہا ہوں: کیا اخلاقی تانے بانے کے بغیر کوئی ملک اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے؟ آپ مہاراشٹر اور ’راشٹر‘ میں، اقتدار کی چوٹی پر بیٹھے لوگوں کا ہر کہیں جیسا زوال پذیرسلوک اور بے شرم تیور دیکھ رہے ہیں، وہ دوسرا کچھ نہیں، اخلاقی تانے بانے کے بکھر جانے کا نتیجہ ہے۔ یہ سیاست نہیں ہے۔ سیاست کا ایکدم لفظی مطلب بھی لیں ہم تو وہ ہے حکومت کرنے کی پالیسی! یہاں جو ہورہا ہے اس میں کوئی پالیسی نہیں ہے اور اس لیے دوسرا کچھ بھی چل رہا ہو، حکومت نہیں ہورہی ہے۔یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟ یہ کیسے ہوا کہ کبھی طویل مدت تک مہاراشٹر کے طاقتور وزیراعلیٰ رہ چکے نوجوان دیویندر فڑنویس کھلے عام کہتے ہیں کہ سیاست میں آشیرواد وغیرہ ٹھیک ہے لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اقتدار سے نکلے تو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا ہے۔ مطلب، اصل حقیقت تو اقتدار ہے باقی کھوکھلی باتیں ہیں۔ کیسے ہوتا ہے ایسا کہ وزیراعظم جیسی خاص کرسی پر بیٹھا کوئی آدمی آج ملک کے بدعنوانوں کی فہرست کا عوامی طور پر اعلان کرتا ہے اور کل ان سبھی بدعنوانوں کو اپنی حکومت میں کرسی پر بٹھا لیتا ہے؟ مطلب، وہ دکھانا چاہتا ہے کہ اقتدار کی کرسیاں سچ تو چھوڑئیے، وقار سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھتی ہیں۔ جو کچھ ہے سب جملہ بازی ہے! نریندر، دیویندر، پوار، ممتا، راہل، کجریوال وغیرہ سب ایک ہی کھیل کھیل رہے ہیں، جس کا کوئی امپائر نہیں ہے، کوئی قاعدہ نہیں ہے۔
راتوں رات ممبئی کی سڑکوں پر ان سب کو مبارکباد دینے والے بڑے بڑے، السٹریٹڈ پوسٹر عوامی مقامات پر لگ گئے جنہوں نے شردپوار کا دامن چھوڑ کر مودی کا دامن تھام لیا ہے۔ اس سے ہی خلاصہ ہوا کہ یہ سب راتوں رات نہیں ہوا، بلکہ کئی راتوں میں ہوا کہ یہ سب ’خود چھپوایا- خود چپکایا‘ والی اسی طرز میں ہوا جس کا قصہ سلیم-جاوید کے جاوید نے سنایا تھا کہ کیسے فلمی دنیا میں اپنا سکہ جمانے کے لیے ان دونوں نے اپنا نام فلمی پوسٹروں پر ٹھیکہ دے کر چسپاں کرایا تھا۔ لیکن اجیت پوار سے یہ پوچھا ہی جانا چاہیے کہ عوامی مقامات پر ایسے پوسٹر لگانے کی اجازت آپ نے کس سے لی، کس نے دی اور اس کا کرایہ کس نے ادا کیا، ادا کیا کہ نہیں ادا کیا کہ یہ سب آپ سب کی کالی کرتوتوں میں ڈھک گیا؟ لیکن اصلی جواب تو ان اندرا گاندھیوں- شردپواروں- اڈوانیوں- مودیوں- شاہوں کو دینا چاہیے جنہوں نے بے معنی سیاست کو چلانے-چمکانے میں سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ کسی بھی راستے اقتدار تک پہنچنا اور کسی بھی چالبازی سے وہاں بنے رہنا، سیاست کے نئے کھلاڑیوں کو یہ چال ان سب نے مل کر سکھائی ہے۔ اقتدار ہی واحد ہدف ہے، کوئی لیڈر ایسا کہے تو میرے جیسا آدمی اسے آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ کھیل کرکٹ کا ہو کہ کبڈی کا کہ اقتدار کا، جیتنا اس کا ہدف ہوتا ہے۔ ہار منھ میں کڑوا سا ذائقہ چھوڑ جاتی ہے۔ پھر بھی ہر کھیل میں کوئی جیتتا تو کوئی ہارتا تو ہے ہی۔ لیکن کھیل تبھی تک کھیل ہے جب تک اصولوں کے مطابق کھیلا جاتا ہے، جب تک امپائر کی انگلی یا سیٹی پر چلتا ہے۔ کھلاڑی کتنا بھی بڑا ہو- میسی ہو کہ کوہلی کہ فیڈرر کہ دھونی- نہ وہ کھیل سے بڑا ہوتا ہے، نہ امپائر کی انگلی سے اونچا ہوتا ہے۔
مہاتماگاندھی نے دوسرا کچھ کیا یا نہیں لیکن اتنا تو کیا ہی کہ اپنے وجود کی پوری طاقت لگاکر سیاست میں، انسانی سلوک میں(ان کے لیے یہ دونوں ایک ہی تھے!) کچھ ایسی اقدار کی جگہ بنائی جن کے لیے جان بھی دی جاسکتی ہے۔ کئی لکشمن ریکھائیں ایسی کھینچیں کہ جنہیں کوئی پار نہ کرے۔ کوئی غیرمہذبانہ کام یا سلوک کرے تو انگریزی میں ایک محاورہ ہی بن گیا ہے: اٹس ناٹ کرکٹ! ہندوستانی تناظرمیں گاندھی ویسا ہی محاورہ بن گئے ہیں: کوئی طنز کرے یا کہے تو کہتے ہیں: یہ گاندھی کا طریقہ نہیں ہے! گاندھی کے بعد بھی جواہرلعل، سردار، راجن بابو، نریندردیو، لوہیا وغیرہ نے سیاست میں تو ونوبا، کاکاکالیلکر، جے پرکاش نارائن جیسے لوگوں نے عوامی زندگی میں اقدار کی جڑیں سینچنے کا کام کیا۔
ہم نے جو آئین بنایا اور نافذ کیا وہ بھی ایسی اقدار کی بات کرتا ہے۔ اس لیے گاندھی کو راج گھاٹ سے نکلنے نہ دینے کااجتماعی منصوبہ بنا، تو بغیر پڑھے-سمجھے آئین کا حلف لینے سے زیادہ آئین نام کی کتاب کا کوئی مطلب نہیں ہے، ایسا ہم نے اپنی سیاست کی نئی نسل کو سمجھایا۔ اب وہ آپ کو آپ کی پڑھائی-سکھائی زبان میں جواب دے رہی ہے تو آپ حیران کیوں ہوتے ہیں؟ یہ وہ بھسماسر ہے جو گرو کے سر پر ہی تباہی کا اپنا ہاتھ رکھنے کو بے چین ہے۔ اقدار دودھاری تلوار ہوتی ہیں۔ ان پر چلو تو دھار لگتی ہے، نہیں چلو تو تباہی ہوتی ہے۔ بھگوان کرشن ان دونوں تکلیفوں سے گزرے تھے۔ ویاگھرکے تیر نے انہیں اس سے چھٹکارہ دلایا تھا۔ ہندوستانی معاشرہ اور سیاست اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ اسے کسی کرشن یا کسی ویاگھر کا انتظار ہے۔rvr