یہ مسلم دشمنی نہیں، ملک دشمنی ہے !

0

محمد فاروق اعظمی

گزشتہ کچھ دنوں سے کرناٹک میں حجاب تنازع کے بعد حلال، اذان، لائوڈ اسپیکر کے خلاف ماحول بناکرمسلم دشمنی کو ہوادی جارہی ہے۔ ہندوئوں کو مشورہ دیاجارہاہے کہ وہ جہاں بھی اذان کی آواز سنیں وہاں بلندا ور تیز آواز سے گانے بجانے لگیں۔مسلم دکانداروں سے سامان نہ خریدیں اور نہ ہی مسلم ٹرانسپورٹرس کی گاڑی استعمال کریں۔ خود حکومت کے وزیراس معاملے میں پیش پیش ہیں۔ کرناٹک میں دیہی ترقیات اور پنچایت راج کے وزیر کے ایس ایشورپا تو حلال مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ مسلمانو ںکے معاشی مفادات پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے لین دین پربھی پابندی لگائے جانے کا مطالبہ کیاجارہاہے۔جب کہ ملک کی معیشت میں مسلمانوں کا حصہ کسی دوسرے فرقہ سے کم نہیں ہے، مسلمان بھی حکومت کو اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا کہ ہندو اور دوسرے مذہب کے ماننے والے دیتے ہیں۔ ان سب کے باوجود مذہبی منافرت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی معیشت پربھی وار کیاجارہاہے اور ایک طرح سے مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی کوشش شروع کردی گئی ہے۔ اب اس سے دو قدم آگے بڑھ کر مسلمانو ںکے قتل عام کی دھمکی بھی دی جانے لگی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی، زہر افشانی اور اشتعال انگیزی کے کئی مقدمات میں ماخوذ اور ضمانت پر رہا بدنام زمانہ ہندو مہنت یتی نرسمہا نند پھر سے مسلمانوں کے خلاف زہر اگل رہاہے۔ یتی نرسمہا نند کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اگر کوئی مسلمان وزیراعظم بنتاہے تو اگلے20برسوں تک 50فیصد سے زائد ہندوئوں کے مذہب تبدیل ہوجائیں گے۔وہ دن آنے سے پہلے مسلمانوں کا ہندوستان سے صفایا کردیا جانا ضروری ہے۔اس کیلئے اس مہنت نے ہندو مردوں سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ ہندوتو کے تحفظ کیلئے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں۔ قومی دارالحکومت دہلی میں سیو انڈیا فائونڈیشن نا م کی تنظیم نے ایک نام نہاد ’ ہندو مہاپنچایت‘ کاانعقاد کیا تھا جس میں یتی نرسمہا نند نے اپنا یہ ذہنی گند اور زہر عوام کے سامنے اگلا۔سیو انڈیا فائونڈیشن وہی تنظیم ہے جس نے گزشتہ سال بھی دہلی کے جنتر منتر پر مسلم مخالف جلسے کیے تھے۔ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزنعرے لگانے پر اس کے بانی پریت سنگھ کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی گئی تھی اور وہ بھی ان دنوں ضمانت پر ہی باہر ہے۔
خود کو مہنت کہنے والا یتی نرسمہا نندکااصل نام دیپک تیاگی ہے۔ اس کی عملی زندگی کاآغاز ہی مسلم دشمنی سے ہوا ہے۔ مہنت بننے سے پہلے اس نے کئی رنگ بدلے کبھی سماج وادی پارٹی کے ساتھ رہا تو کبھی کسی دوسری پارٹی میں رہ کر اس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلائی۔غازی آباد کے داسنا دیوی مندر کابڑا پجاری بننے کے بعد سے تو اس کی مسلم دشمنی میں مزیدشدت پیدا ہوگئی۔ جرائم، غنڈہ گردی،سماج دشمن سرگرمیوں، قتل، اقدام قتل، خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے درجنوں مقدمات اس پر قائم ہیں لیکن ان سب کے باوجود یہ کھلے عام آئین کو چیلنج کرتا ہے،مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔قومی دارالحکومت میں دن کی روشنی میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیداکرنے والوں کایہ بھاری اجتماع بغیر کسی روک ٹوک کے ہوا اوراس کی میڈیا کوریج کیلئے جانے والے مسلم میڈیانمائندوں کو مارا پیٹا بھی گیا۔
ان سب کے باوجود اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ ملک میں آئین کی حکمرانی ہے، قانون اپنا کام کررہا ہے اور حکومت اقلیتوں کاتحفظ کررہی ہے تو یہ صریح دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ایک ایسا شخص جو اپنی نفرت انگیزی اور زہرناکی کی وجہ سے گرفتار ہوکر ضمانت پر رہا ہو اور پھر وہ کھلے عام دوبارہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرے، اس کے باوجود پولیس اس کی ضمانت منسوخ کرکے گرفتار کرنے کے بجائے اس کے تحفظ کیلئے ڈھال بن جائے تو سمجھاجاسکتا ہے کہ نہ ملک میں آئین باقی رہاہے اور نہ قانون کی حکمرانی کاکوئی تصور رہ گیا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف مہم چلانے والوں کو حکومتی سطح پر نہ صرف کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے بلکہ ایسا لگ رہاہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ مہم ہی حکومت کے اشارے پر چلائی جارہی ہے۔ ورنہ یتی نرسمہا نند جیسا شخص دہلی میں مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے اشتعال انگیزی کرنے کے بجائے جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ گزشتہ 8،10 برسوں سے ملک کا جو مزاج بن گیا ہے، اس میں ایسے تمام افرادجو مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی میں پیش پیش رہتے ہیں، انہیں اب نہ توآئین کا کوئی پاس رہاہے اور نہ قانون کا کوئی خوف ان کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
یہ صورتحال ملک کو تباہی کی ڈھلان پر دھکیلے جانے جیسی ہی ہے۔ ہندو قوم پرستی کی آڑ میں حکومت کی شہ پر کی جانے والی مسلم مخالف تمام کوششیں صرف اور صرف اقتدار کیلئے کی جارہی ہیں لیکن یہ کھلی ملک دشمنی ہے۔ ہندوستان جیسے سیکولر کثیرثقافتی اور کثیر لسانی ملک میں جہاں ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی جیسی مختلف اور الگ الگ کمیونٹیزقدیم زمانے سے ایک ساتھ رہتی چلی آئی ہوں وہاں مذہب کی بنیاد پر تفریق اور تقسیم کیا جانا دراصل ملک کو ایک اور تقسیم کی راہ پر لے جانا ہے۔مذہبی منافرت کو ہوا دینے والے شاید یہ بات بھول رہے ہیں کہ اس مذہبی منافرت کی وجہ سے ہی ملک دو لخت ہوا تھا۔ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ملک میں فرقہ واریت اور سیاست کے ناپاک گٹھ جوڑسے یہ ڈر پیدا ہوچلا ہے کہ کہیں یہ متاثرین میں ملک دشمنی کے جذبات پیدا کرنے کا سبب نہ بن جائے اگر یہ صورتحال پیدا ہوگئی تو یہ ملک کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔یتی نرسمہانند اور اس جیسے دوسرے ہندو شدت پسندوں کے ساتھ ان کی سرپرستی کرنے والے سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سمجھناہوگا کہ وہ اپنے گھنائونے کردار سے ملک میں جو ماحول بنارہے ہیں، اس کا نتیجہ مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ ملک کیلئے خطرناک ثابت ہوگا۔ اس فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کو آج نہیں روکا گیا تو ڈر اس بات کا ہے کہ یہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کو ہی کہیں نہ نگل لے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS