یہ صرف آیورویدک کمیشن ہے

0

ڈاکٹر خالد اختر علیگ

گزشتہ 11؍جون2021 کو حکومت ہند نے گزٹ شائع کرکے نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن یعنی NCISMکے قیام کا اعلان کردیاجس کے بعد ہندوستانی طب یعنی آیوروید، یونانی، یوگا، سدھا کے تعلیمی اداروں کو منظم کرنے اور معالجین کے اندراج کرنے کے لیے 1970 میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے تحت قائم کی جانے والی سابقہ سینٹرل کونسل فار انڈین میڈیسن کو تحلیل کردیا گیا۔2014میں جب سے مرکز میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب ہی سے ہندوستانی یا دیسی طریق علاج کی ترقی کی طرف خاصی توجہ دی جا رہی ہے۔نیشنل کمیشن فا ر انڈین سسٹم آف میڈیسن بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس سے قبل2014میںحکومت نے اس کی ترویج کے لیے ایک علیحدہ وزارت آیوش(AYUSH) قائم کی جو آیورید، یوگا و نیچرو پیتھی، یونانی، سدھااور ہومیوپیتھی کا مخفف ہے۔2017میں حکومت ہند نے کسی بیوروکریٹ کے بجائے وید راجیش کوٹیچا سابق وائس چانسلرجام نگر آیوروید یونیورسٹی کو وزارت آیوش کا سکریٹری بنایا جو تاحال اس عہدے پر قائم ہیں۔وزارت کے قیام کے اصل مقاصد میں ہندوستانی طب یعنی آیورید،یوگاو نیچرو پیتھی، یونانی، سدھا اور ہومیوپیتھی کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانا،امراض اور ان کا شافی علاج مذکورہ طریق علاج میں دریافت کرنے کے لیے تحقیق اور اس کی عوامی افادیت میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت دیگر پیتھیوں کے مقابلے آیورویداور یوگا کی ترقی اور اشاعت پر زیادہ زور دے رہی ہے۔یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ وزارت آیوش، تمام دیسی طریق علاج کے فروغ کے لیے قائم کی گئی تھی لیکن حکومت نے انہیں نظر انداز کردیا ہے اور آیوروید پر اس کی خاص عنایت ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح سے نو تشکیل شدہ نیشنل کمیشن فا ر انڈین سسٹم آف میڈیسن میں یونانی طب کو ایک گوشے میں محدود کردیا گیا ہے۔ آیوروید کے بعد سب سے زیادہ مقبول پیتھی یونانی طب کو اس کمیشن میں ذرہ برابر اہمیت دینے کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔جو معمولی نمائندگی نظر آتی ہے وہ صرف مجبور ی میں دی گئی ہے۔اس کمیشن کی صدارت کرناٹک سے تعلق رکھنے والے آیوروید کے ماہر ڈاکٹر سری نواساپرساد بدرو کو سپرد کی گئی ہے۔جہاںاس کمیشن میں آیوروید کے لیے علیحدہ بورڈ کی تشکیل کی گئی ہے، وہیں طب یونانی کو سدھا اورسوا رگپا کے ساتھ ایک علیحدہ بورڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ پورے ملک میں صدیوں سے ملک کے تقریباً ہر حصے میں اپنا وجود رکھنے والی طب یونانی جس کے ملک کے طول وعرض میں 100 اسپتال، 1500 ڈسپنسریاں اور60 طبیہ کالج موجود ہیں جہاں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر تعلیم ہوتی ہے،اس کو صرف تمل ناڈوتک محدود سدھا پیتھی جس کے صرف 9کالج ہیں کے ماہرکیرالہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کے جگناتھن کی تحویل میں دے دیا گیا ہے جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آیوروید کی طرح ہی یونانی بورڈ بنایا جاتا۔ 15 رکنی کمیشن میں10 اراکین بشمول صدر کا تعلق آیوروید سے ہے۔ کمیشن سے وابستہ ہندوستانی طب کی طبی درجہ بندی اور معیار طے کرنے والے بورڈ اور انڈین سسٹم آف میڈیسن ایتھکس اینڈ رجسٹریشن بورڈکی صدارت بھی آیوروید کے ماہرین کے سپرد کی گئی ہے۔ حکومت کو یونانی طب کے ماہرین میں ایسا کوئی بھی شخص نہیں دکھائی دیا جو اس کمیشن کے بااختیار بورڈوں کی قیادت کرسکے۔ ہمارے ملک میں جہاں ہر چیز کو مذہب کی عینک سے دیکھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، ایسے میں آیوروید کو ہندو تہذیب و ثقافت سے جو ڑ کر دیکھا جاتا ہے جبکہ یونانی طریق علاج کو مسلمانوں سے منسوب کردیا گیا ہے۔ کہنے کو تو نیشنل کمیشن فار انڈین سسٹم آف میڈیسن ہندوستانی طریق علاج کا مشترکہ ادارہ ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے اور یہ صرف آیوروید کا ہی ادارہ بن کر سامنے آیا ہے۔ یونانی طب ہندوستان میں کم و بیش ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ سے موجود ہے اور یہ آیوروید کی طرح ہی عوام میں مقبول رہی ہے۔آزادی سے قبل جب انگریز حکومت نے ہندوستانی طریق علاج کو ختم کرنے کی کوشش کی تو اس وقت مشہور یونانی معالج حکیم اجمل خاں ایک ایسے سیاستداں تھے جنہوں نے یونانی کے ساتھ آیورویدکی بقا کی بھی جنگ لڑی جس کے نتیجے میں انگریز حکومت ہندوستانی طریق علاج کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد حکومت ہند کی وزارت صحت و خاندانی بہبود اور بعد ازاں آیوش وزارت کے تحت جو بھی سہولیات آیوروید کے معالجین کو حاصل تھیں، وہ سب سہولیات یونانی معالجین کو بھی حاصل رہیں۔ چاہے وہ پرائیویٹ پریکٹس کا معاملہ ہو، میڈیکل افسر ہوں یا دیگر سرکاری مراعات سب کچھ یونانی و آیوروید دونوں یکساں رہے ہیں۔پورے ملک میں سرکاری وپرائیویٹ طبیہ کالجز کی تعداد بھی خاصی ہے۔طبیہ کالج اور آیوروید کالج و ان کا تعلیمی نصاب سابقہ سی سی آئی ایم (سینٹرل کونسل آف انڈین میڈیسن ) کے زیر کنٹرول تھا جو کہ اب آیوش وزارت کے تحت ہو گیا ہے۔کمیشن کو مکمل طور پر آیوروید کے ماہرین کے حوالے کرنے کے خطرناک نتائج آنے والے دنوں میں صاف طور پر نظر آئیں گے، یونانی نصاب پر بھی نظرثانی ہوسکتی ہے اور اسے مقبول بنانے کے نام پر اردو اور عربی سے آزاد بھی کرایا جاسکتا ہے تاکہ ایک مخصوص طبقہ کے افراد کی اجارہ داری کو ختم کیا جاسکے۔جیسا کہ پورے ملک میں مختلف شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کم کرنے کی گزشتہ سات سالوں میں کوشش کی گئی ہے، ویسے ہی اب طب یونانی کو ایک طبقہ کی بتا کر اس کی حیثیت کو کم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جائے گی اور یونانی میں پریکٹس کرنا بھی آسان نہیں ہوگا۔

بلاشبہ یونانی طب کے ساتھ سوتیلے سلوک کا الزام جہاں کافی حد تک صحیح ہے، وہیں دیسی طریق علاج کو کنٹرول کرنے والی وزارت آیوش اور سابقہ سی سی آئی ایم جیسے اداروں میں یونانی طب کی نمائندگی کرنے والے افراد کی سرد مہری اور مہر بہ لب اند از نے بھی یونانی طب کو کمتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے اب دھیرے دھیرے آ رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ طب یونانی کے ماہرین کی حیثیت سے حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ نہیں چاہتے کہ طب یونانی کو اس کا صحیح مقام مل سکے۔ جب مورخ ہندوستان میں طب یونانی کے خاتمہ کے باب میں حکومت کی بداعمالیوں کے بارے میں لکھے گا، اس وقت وہ اعلیٰ کرسیوں پر براجمان یونانی ماہرین کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے گا۔

لیکن یونانی طب کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کوئی نئی نہیں ہے بلکہ اس پر کافی زمانے سے کام کیا جارہا ہے۔ایک عرصہ سے آیوش معالجین ایلوپیتھ دواؤں کے استعمال کی اجازت مانگتے رہے ہیںلیکن حکومت دبے پاؤں صرف آیوروید معالجین کو ہی یہ اجازت دینے کی خواہاںرہی ہے جس کی نظیر گزشتہ سال سامنے آئی جب سرجری سے متعلق آیوروید کے سرجری میں ڈگری یافتہ معالجین کو سرجری کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ جب کہ یونانی میں بھی سرجری میں پوسٹ گریجویٹ کورس ایم ایس(ماہر جراحت)ہوتا ہے لیکن ’آیوش‘ کا حصہ ہونے کے باوجود اسے اس نوٹیفکیشن سے الگ رکھا گیا۔ اسی طرح گزشتہ سال مرکزی حکومت کے ملازمین کی صحت خدمات کے لیے قائم سی جی ایچ ایس کے ذریعہ آیوروید ،یوگا اور نیچروپیتھی کے نجی مر اکز پر ڈے کیئر کی سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن یونانی کو اس سہولت سے باہر رکھا گیا ہے۔اسی طرح 2016میں ایمس نئی دہلی میںانٹگریٹیو میڈیسن سینٹرکا قیام عمل میں آیا تھا جس میں صرف آیوروید اور یوگا کو ہی شامل کیا گیا تھا جبکہ دوسری پیتھیوں کو یکسر نظرانداز کردیاگیا تھا،اب وہی سینٹر ایک باضابطہ ادارے کی شکل میں پروان چڑھنے والا ہے۔
بلا شبہ یونانی طب کے ساتھ سوتیلے سلوک کا الزام جہاں کافی حد تک صحیح ہے، وہیں دیسی طریق علاج کو کنٹرول کرنے والی وزارت آیوش اور سابقہ سی سی آئی ایم جیسے اداروں میں یونانی طب کی نمائندگی کرنے والے افراد کی سرد مہری اور مہر بہ لب اند از نے بھی یونانی طب کوکمتربنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے اب دھیرے دھیرے آرہا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ طب یونانی کے ماہرین کی حیثیت سے حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ نہیں چاہتے کہ طب یونانی کو اس کا صحیح مقام مل سکے۔ جب مورخ ہندوستان میں طب یونانی کے خاتمہ کے باب میں حکومت کی بداعمالیوں کے بارے میں لکھے گا، اس وقت وہ اعلیٰ کرسیوں پر براجمان یونانی ماہرین کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے گا۔
(مضمون نگار معالج اور آزاد کالم نویس ہے )
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS