کھیتی پر بھاری پڑتا یہ تنازع

کسانوں اور حکومت کے مابین کشیدگی میں ہم اس سال زراعت کے حقیقی بحران کو نظرانداز کررہے ہیں۔ یہ کافی نقصان دہ ہوگا

0
Image:Outlook India

وائی کے الگھ

مہاپنچایتوں کے ساتھ کسان تحریک بھی پھر سے رفتار پکڑنے لگی ہے۔ جہاں جہاں مہاپنچایت ہورہی ہے، وہاں وہاں کسان کہیں زیادہ پرزور طریقہ سے اپنی اوآز بلند کررہے ہیں۔ ان کا بنیادی طور پر ایک ہی مطالبہ ہے، مرکزی حکومت جبراً ان پر نئے زرعی قوانین نہ لگائے۔ اسے وہ قطعی برداشت نہیں کریں گے۔ اس تحریک کے حق میں اور خلاف تمام طرح کے دلائل دیے جاچکے ہیں، مگر کچھ دیگر باتیں بھی ہیں جن پر غور کیا جانا چاہیے۔
یہ تو اچھی پیش قدمی ہے کہ ہریانہ حکومت نے اس افسر کا تبادلہ کردیا ہے، جس نے کسانوں کے سر پھوڑنے کی بات کہی تھی۔ لیکن اصلی مدعے کی بات یہی ہے کہ جن تین زرعی بلوں پر پارلیمنٹ کی مہر لگ چکی ہے اور وہ قانون بن چکے ہیں، ان کو فی الحال نافذ نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا اس لیے، کیوں کہ ابھی وبا کا وقت ہے اور یہ وقت خاص طور پر کسانوں کے لیے کافی مشکلات سے بھرا ہے۔
کسانوں کی تکلیف کا ایک ذاتی تجربہ شیئر کرتا ہوں۔ وبا کے دوران آمدورفت بند ہوجانے سے کاروبار یا تو ممکن نہیں ہوپاتا یا پھر کافی مشکل ہوتا ہے۔ میری بیوی پہلے صبح کی سیر کے وقت ہی پھل-سبزی لے آیا کرتی تھیں، مگر آج کل وہ اس کے لیے علی الصباح صبح نہیں، بلکہ کچھ دیر سے باہر نکلتی ہیں۔ آخر کیوں؟ دراصل جو کسان احمدآباد ضلع سے صبح چار بجے اپنی گاڑی میں پھل-سبزی لے کر اہم بازاروں میں آیا کرتے تھے، وہ رات کے کرفیو کے سبب صبح 6بجے کے بعد گھر سے نکلتے ہیں۔ نتیجتاً، نہ صرف ان کی مصنوعات کم فروخت ہوتی ہیں، بلکہ وہ بہت دور تک اپنی سبزیاں بھی نہیں فروخت کرپاتے، کیوں کہ دور جاتے جاتے دوپہر ہوجاتی ہے اور پھر سبزیاں خراب ہونے لگتی ہیں۔ پہلے علی الصباح نکل جانے کے سبب ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اور یہ پریشانی صرف احمدآباد ضلع میں نہیں ہے۔ ابھی مہسانا سے نوساری ’مِلک ٹرین‘ بھی نہیں چل رہی ہے اور ناسک-ممبئی کے درمیان پھلوں کے ٹرک بھی نہیں دوڑ رہے۔ میرا ماننا ہے کہ ایسی پریشانیوں سے پورے ملک کے کسان متاثر ہورہے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھیں تو قانون میں جو بات کہی گئی ہے کہ کسان ایگریکلچرل پروڈیوس مارکیٹ کمیٹی(اے پی ایم سی) نہیں جاتے، صحیح معلوم ہوتی ہے۔ واقعی، جہاں کسان جاتے ہیں، ان کو ہی بازار سمجھا جانا چاہیے۔ اس لیے یہ قانون بنیادی طور پر کسانوں کی مدد ہی کریں گے۔ پھر بھی، جبراً ان کو نافذ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کسانوں سے حکومت کو بات کرنی چاہیے۔ بات چیت ہی نہیں، انہیں یہ گارنٹی دینی چاہیے کہ ان کی شکایتوں پر غور کیا جائے گا۔ آخرکار اس حقیقت سے بھلا کوئی کیسے انکار کرسکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے آخری دن کسی بامعنی بحث کے زرعی بل کو پاس کردیا گیا تھا۔
دیکھا جائے تو حکومت نے ایک اور غلطی کی، اس نے نہ صرف آناً فاناً یہ بل پاس کیے، بلکہ اس کو نافذ کرنے میں بھی جلدبازی کی۔ اس سے اس کے خلاف اور زیادہ ماحول بن گیا۔ ایسا پیغام گیا کہ کچھ نہ کچھ اندرونی بات تو ہے کہ حکومت ان قوانین کو بغیر بحث کے اور اتنی جلدبازی میں نافذ کرنے جارہی ہے۔ اس لیے حل کی اگر بات کریں تو حکومت کو فی الحال جلدبازی سے گریز کرنا چاہیے۔ کسانوں کو یہ یقین دہانی کرانی چاہیے کہ ابھی ان قوانین کو ٹال دیا جائے گا اور اگلے سال خاطرخواہ بحث کے بعد ہی ان کو نافذ کیا جائے گا۔ ان کو یہ بھی سمجھایا جانا چاہیے کہ قانون ان کے مفاد میں ہیں اور ضرورت کے مطابق ان میں کچھ تبدیلیاں بھی کی جاسکتی ہیں۔ ہاں، مارپیٹ یا جھگڑے-فساد سے اس مسئلہ کا حل قطعی نہیں نکلے گا۔ ویسے بھی ہندوستان ایک زرعی ملک ہے اور کسانوں سے مارپیٹ اس کا مقصد نہیں ہوسکتا۔

کسانوں کی اس طویل تحریک اور حکومت کی بے حسی کا سب سے زیادہ نقصان زراعت کو ہو رہا ہے، اور بالواسطہ طور پر ہندوستانی معیشت اور زراعت سے وابستہ کمپنیوں کے مشکلوں میں رہنے کے سبب روزگار میں اضافہ کی شرح منفی طور پر متاثر ہو رہی ہے۔ حالاں کہ اب بھی موقع ہے۔ حکومت پہل کرے اور اپنا ہاتھ بڑھائے۔ کسانوں سے بغیر شرط بات چیت ہونی ہی چاہیے۔

یہاں مجھے رمیش چاند یاد آرہے ہیں۔ وہ نیتی آیوگ کے ممبر ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ ایک ریسرچ پیپر تیار کیا ہے کہ آخر کس طرح سے ان قوانین کو نافذ کرنا چاہیے، تاکہ ان کا متوقع فائدہ حاصل کیا جاسکے۔ اپنے ریسرچ پیپر میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے ان زرعی اصلاحات کا فائدہ دیہی معیشت کو ملے گا۔ ممکن ہو، تو ان کی ریسرچ پر غوروخوض ہونا چاہیے، تاکہ کسان اور حکومت کے ٹکراؤ میں بیچ کا کوئی راستہ نکل سکے۔
پریشانی یہ ہے کہ اس کشیدگی میں ہم زراعت کے حقیقی بحران کو نظرانداز کررہے ہیں۔ مثلاً اس مرتبہ خریف کی فصل بری طرح سے متاثر ہوئی ہے۔ عموماً بارش اگست کے ماہ میں ہوتی تھی۔ حکومت کی طرف سے کسانوں کو نئے بیج دینے، انہیں کریڈٹ مہیا کرانے اور دیگر راحت دینے کے اعلانات بھی کیے جاتے تھے۔ مگر اس سال ستمبر ماہ میں غیرمتوقع طور پر تیز بارش ہورہی ہے اور حکومت لاتعلق بنی ہوئی ہے۔ جون-جولائی میں بوئی گئی فصلیں بالکل تیار ہونے کو تھیں، لیکن اب وہ زمین پر لوٹنے لگی ہیں۔ واضح ہے، خریف کے اس نقصان کا اثر ہندوستانی زراعت پر پڑے گا۔ ربیع کی فصلیں اچھی ہونے کے باوجود ’ایگریکلچرل آؤٹ پٹ‘ کم رہے گا۔ لیکن اس سنجیدہ پہلو پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ظاہر ہے، کسانوں کی اس طویل تحریک اور حکومت کی بے حسی کا سب سے زیادہ نقصان زراعت کو ہو رہا ہے، اور بالواسطہ طور پر ہندوستانی معیشت اور زراعت سے وابستہ کمپنیوں کے مشکلوںمیں رہنے کے سبب روزگارمیں اضافہ کی شرح منفی طور پر متاثر ہورہی ہے۔ حالاں کہ اب بھی موقع ہے۔ حکومت پہل کرے اور اپنا ہاتھ بڑھائے۔ کسانوں سے بغیر شرط بات چیت ہونی ہی چاہیے۔ میرے استاد پروفیسر لارنس کلین نے، جو معیشت میں نوبل انعام یافتہ تھے، مجھے سکھایا تھا کہ معیشت کے قوانین کو اگر بغیر عقل کے استعمال کیا جائے گا تو معیشت کو نقصان ہوتا ہے۔ موجودہ حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ ابھی سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کسانوں اور حکومت کے درمیان یہ تنازع اب مزید لمبا نہیں کھنچنا چاہیے۔
(مضمون نگار سابق مرکزی وزیر
اور مشہور ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS