لاعلاج بنا امریکہ کا یہ مرض

0

دنیا بھر میں حقوق انسانی سے متعلق اپنی تشویشات کا ڈھنڈورا پیٹنے والا امریکہ اپنے ہی ملک کے شہریوں کے جینے کے حق کو تحفظ نہیں فراہم کرپارہا ہے۔ گزشتہ منگل کو ٹیکساس صوبہ میں ہوئی فائرنگ کے واقعہ میں 19بچوں اور اسکول کے دو ٹیچرس کی موت نے امریکہ کی منافقت کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ اس واقعہ کو امریکی اسکولوں میں گزشتہ ایک دہائی کی سب سے خوفناک فائرنگ بتایا جارہا ہے۔ سال2012میں اسی طرح کے ایک حادثہ میں کنیکٹکٹ میں سینڈی ہک کے ایک پرائمری اسکول میں 20بچوں اور 6اسٹاف کی موت ہوئی تھی۔ اس واقعہ کے بعد بھی اب تک 2,858امریکی بچے اسکولی شوٹ آؤٹ میں یا تو مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں۔
ٹیکساس کی واردات اسی سال امریکی اسکولوں میں شوٹ آؤٹ کا 27واں واقعہ ہے۔ پورے امریکہ کا حساب لگایا جائے تو سال کے شروعاتی پانچ ماہ پورے ہونے سے قبل ہی وہاں 215ایسے واقعات کو انجام دیا جاچکا ہے جن میں بندوق یا اسی طرح کے دوسرے آگ اگلنے والے ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔ گزشتہ پورے سال میں ایسے 693واقعات ہوئے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہ تمام واقعات وہ ’ماس شوٹنگ‘ ہیں، جن میں کم سے کم چار لوگ مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ اس میں چار سے کم تعداد میں جان گنوانے کے معاملات کو جوڑ دیا جائے تو یہ اعداد و شمار کس ’اونچائی‘ تک پہنچیں گے، اس کے محض تصور سے ہی کپکپی آجاتی ہے۔ بس اتنا جان لینا کافی ہوگا کہ امریکہ میں گزشتہ پچاس سال میں 14لاکھ سے زیادہ لوگ بندوق سے ہونے والے تشدد میں مارے جاچکے ہیں۔ ایک موازنہ بات کو مزید واضح کردے گا۔ سال 2002سے 2011کی دہائی پر ہوئی ایک اسٹڈی بتاتی ہے کہ اس مدت میں ہر سال دہشت گردانہ وارداتوں میں 31لوگ مارے گئے، جب کہ گن کلچر کی وجہ سے ہوئی اموات کے اعداد و شمار 11ہزار لوگوں کے نکلے۔
اس گن کلچر سے جڑے ایسے تمام اعداد و شمار ہیں جو خود کو دنیا کا سب سے مہذب معاشرہ بتانے والے امریکی دعوے کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ امریکہ میں دنیا کی 4فیصد آبادی رہتی ہے، لیکن دنیا کی تقریباً آدھی پستولیں اور رائفلیں وہاں رجسٹرڈ ہیں۔ گزشتہ 20سال میں امریکہ میں بندوقوں کی کھپت میں 3گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف سال2021میں ہی امریکیوں نے تقریباً 2کروڑ آتشیں اسلحہ خریدے، جو تاریخ میں دوسری سب سے بڑی فروخت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکہ میں اب بندوقوں کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہوگئی ہے۔ فی 100امریکی شہریوں پر ہتھیاروں کا اوسط 120.5ہے یعنی امریکہ کا ہر شہری اوسطاً ایک سے زیادہ پستول یا بندوق رکھتا ہے۔ یہ اعداد و شمار دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ ہیں۔ سوئس ریسرچ پروجیکٹ اسمال آرمس سروے 2018کے مطابق ٹاپ-5میں شامل باقی ممالک میں یمن میں یہ اوسط 52.8، سربیا اور مونٹے گمرو میں 39.1اور اروگوے اینڈ کناڈا میں 34.7کا ہے۔
بندوقیں امریکی سماج میں کس طرح کھلے عام موت تقسیم کررہی ہیں، اس کی ایک جھلک سینٹر فار ڈِسیزکنٹرول اینڈ پروینشن یعنی سی ڈی سی کے ڈاٹا سے ملتی ہے۔ اس کے مطابق سال 2019-2020 میں ایک سال میں پستول-بندوق سے ہونے والی اموات میں 34فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں یہ 75فیصد کا اضافہ ہے۔ اس ڈاٹا کے مطابق 53امریکی روزانہ بندوق یا گن کے تشدد کے شکار بن رہے ہیں۔ 79فیصد قتل میں بندوق کا استعمال ہورہا ہے جو کناڈا(37فیصد)، آسٹریلیا(13فیصد) اور انگلینڈ(4فیصد) کے مقابلہ کئی گنا زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار سے بننے والی تصویر اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ گولیوں سے بھون دینا امریکہ کے لیے ایک ایسی رسم بن گئی ہے جہاں لوگ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلہ میں اس کے عادی ہوچکے ہیں۔
سب سے زیادہ حیران کرنے والی بات تو یہ ہے کہ امریکیوں نے خود ہی اس لعنتی زندگی کا انتخاب کیا ہے۔ سال 2020کے لیے گلوپ کا ایک سروے بتاتا ہے کہ امریکہ کے لیے ’ناسور‘ بننے کے باوجود گن کلچر کے خلاف سخت قانون کے لیے حمایت گزشتہ 6سال کی نچلی سطح پر رہی۔ بیشک 52فیصد لوگوں نے سخت قانون کی حمایت کی لیکن 35فیصد لوگ صورت حال کو جوں کا توں قائم رکھنے کے حق میں رہے، جبکہ 11فیصد نے قانون میں مزید نرمی کی بھی پیروی کی۔ امریکہ کی کل 50ریاستوں میں سے کیلیفورنیا، کنیکٹکٹ، ہوائی، میری لینڈ، میساچوسیٹس، نیوجرسی، نیویارک اور واشنگٹن میں بندوقیں یا گن پر پابندی ہے جبکہ منیسوٹا اور ورجینیا میں ان ہتھیاروں پر کسی طرح کی پابندی نہیں ہے، لیکن ریاستوں کی جانب سے انہیں ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے۔ کل ملاکر یہ تعداد صرف10ہوتی ہے یعنی باقی 40 ریاستوں میں شہریوں کو ہتھیار رکھنے کی کھلی چھوٹ ہے۔ یہ فرق سیاسی سطح پر بھی نظر آتا ہے جہاں 91فیصد ڈیموکریٹ ممبر پارلیمنٹ سخت قانون کے حق میں ہیں، جبکہ صرف24فیصد ریپبلکن اس کی حمایت میں ہیں۔ یعنی بے قصور امریکیوں کے اس طرح جان گنوانے پر دنیا 24×7جو چرچہ کررہی ہے اورتشویش میں مبتلا ہے، اس کی اہمیت ’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
یہ کتنا مضحکہ خیز ہے کہ امریکہ نے 21سال کی عمر سے پہلے شراب خریدنے کو تو غیرقانونی بنارکھا ہے لیکن ملٹری رائفل رکھنے کے لیے 18سال کے بعد مکمل طور پر اجازت دے رکھی ہے۔ خود امریکی حکومت کا ایک بڑا طبقہ ان واقعات کو کس نظریہ سے دیکھتا ہے، اس کا اندازہ ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پیکسٹن اور سینیٹر ٹیڈکروز کے بیانات سے ہوجاتا ہے۔ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے پیکسٹن نے ہتھیاروں پر پابندی کی پیروی کے بجائے اسکولی بچوں کی سیکورٹی کے لیے اساتذہ کو ہی ہتھیار رکھنے کی صلاح دی ہے، تو سینیٹر کروز نے بھی واضح کردیا کہ ہتھیاروں سے متعلق قوانین میں اصلاح ایسے جرائم کو روکنے کا طریقہ نہیں ہے۔ شاید اسی سوچ کی وجہ سے اس جمعرات کو امریکی سینیٹ میں گھریلو دہشت گردی بل اور بندوق پالیسی کی تجویز پاس نہیں ہوپائی جس کے سبب امریکہ میں بڑے پیمانہ پر فائرنگ کے واقعات پر قدغن لگانے کی ایک اور کوشش ناکام ہوگئی۔
امریکہ میں جوہورہا ہے، اسے کئی لوگ سائیکلولاجیکل ڈِس آرڈر کا مسئلہ مانتے ہیں۔ لیکن ان واقعات کے وسیع دائرہ کو دیکھتے ہوئے یہ دلیل سبھی معاملات پر فٹ نہیں بیٹھ سکتی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے کہ دوسرے ممالک میں بھی ذہنی صحت کا مسئلہ ہے، وہاں بھی گھریلو تنازعات ہیں، لیکن بار بار اس طرح سے وہاں فائرنگ نہیں ہوتی جیسے امریکہ میں ہوتی ہے۔ جس ملک نے اپنے چار چار صدور-ابراہم لنکن، جیمس اے گارفیلڈ، ویلیم میک کینلے اور جان ایف کینیڈی- کو بندوق سے ہوئے تشدد میں گنوایا ہو، وہاں یہ بے بسی تھوڑا حیران ضرور کرتی ہے کیوں کہ جو امریکہ دوسرے ممالک میں گھس کر حملہ کرتا ہو، وہ اپنے گھر میں لاچار کیسے ہوسکتا ہے؟
وجہ دراصل دوسری ہے اور بائیڈن بھی اس سے انجان نہیں ہیں۔ بائیڈن ہی کیوں، ان سے پہلے کے کئی امریکی صدر سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس پر لگام نہیں لگا پائے۔ دراصل امریکہ میں وبا میں تبدیل ہوچکے گن کلچر کے پیچھے کی طاقت وہاں کی گن لابی ہے جسے مبینہ طور پر کنٹرول کرتا ہے این آر اے یعنی نیشنل رائفل ایسوسی ایشن۔ این آر اے بندوقوں پر کسی بھی طرح کے کنٹرول کے خلاف ہے اور اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ زیادہ بندوقیں امریکہ کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔اس کی ممبرشپ کو لے کر الگ الگ دعوے سامنے آتے ہیں۔ خود ایسوسی ایشن کا دعویٰ ہے کہ سال 2012میں سینڈی ہک اسکول میں ماس شوٹنگ کے ردعمل کے طور پر اس کے ممبران کی تعداد 50لاکھ تک پہنچ گئی تھی، لیکن کچھ تجزیہ کار اسے 30لاکھ کے آس پاس ہی مانتے ہیں۔ حالاں کہ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ این آر اے اس وقت امریکہ کی سب سے بڑی اسپیشل انٹرسٹ لابی بن چکی ہے۔ سال 2020میں اس نے امریکہ کی گن پالیسی کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے غیرتصدیق شدہ طور پر تقریباً 250ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ تصدیق شدہ طور پر ایسوسی ایشن امریکی پالیسی کو متاثر کرنے کے لیے سالانہ تین ملین ڈالر خرچ کرنے کی بات قبول کرتا ہے۔ ایک طرح سے یہ امریکی عوامی نمائندگان کو اپنے ملک کے شہریوں کی جان کا سودا کرنے کے لیے تیار کیا گیا تصدیق شدہ خرچ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کھیل اس سے کئی گنا بڑا ہے جس نے نہ صرف دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت کے سیاسی نظام کو بدعنوان بنادیا ہے، بلکہ اسے بار بار دنیا کے سامنے شرمسار بھی کیا ہے۔ امریکہ اس معاملہ میں ہندوستان سے سبق لے سکتا ہے جہاں جمہوریت اور جینے کے حق، دونوں کے تحفظ کے لیے نہ صرف دنیا کے سب سے سخت قوانین ہیں بلکہ ان کا مکمل ایمانداری سے مؤثر عمل بھی ہوتا ہے۔ استعمال کرنا تو دور، ہندوستان میں ہتھیار رکھنا ہی بڑی بات ہے کیوں کہ گہرائی سے جانچ اور بیک گراؤنڈ چیک کرنے کے بعد ہی ہتھیار رکھنے کا لائسنس ملتا ہے۔ حالاں کہ قانون سے پرے سوال نظریہ کے اس فرق کا بھی ہے جو اپنے شہریوں کے چہروں پر محفوظ مستقبل کی چمک کو سکوں کی کھنک کے مقابلہ زیادہ قیمتی سمجھتا ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS