تحریر۔ابوشحمہ انصاری
سعادتگنج،بارہ بنکی
اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات موجود ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مسلمان اپنی دین داری، اخلاقی بلندی اور علم و عمل کی وجہ سے دنیا میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ مسلمانوں کی عظمت کا یہ دور صرف ایک مخصوص علاقے یا وقت تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ ایک طویل عرصے پر محیط رہا۔یہ اس وقت ممکن ہوا جب مسلمانوں نے اپنی زندگیوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں ڈھال لیا تھا، لیکن آج جب ہم اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں، تو افسوس ہوتا ہے کہ وہ عظمت، وقار اور عزت کا زمانہ ماضی کی بات بن چکا ہے۔
مسلمانوں کی عظمت کا دور
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی دین داری، اتحاد اور عمل کے ذریعے دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ حضرت محمدؐ کی قیادت میں صحابہ کرام نے ایک ایسی اسلامی ریاست قائم کی جس کی بنیاد انصاف، مساوات اور علم پر رکھی گئی تھی۔ بعد میں خلفائے راشدین کے دور میں یہ نظام مزید مضبوط ہوا۔ مسلمان حکمران نہ صرف انصاف پسند تھے بلکہ علم و تحقیق کو بھی فروغ دیتے تھے۔
اندلس کا دور مسلمانوں کی عظمت کا ایک روشن باب ہے۔ اس دور میں مسلمان سائنس، فلسفہ، طب، ریاضی اور دیگر علوم میں دنیا کے لیے مثال بنے۔ بغداد، قرطبہ اور دمشق جیسے شہروں میں دنیا بھر سے لوگ علم حاصل کرنے آتے تھے۔ مسلمانوں کی علمی کاوشوں نے ہی یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھی۔
مسلمانوں کی کامیابی کی وجوہات
مسلمانوں کی کامیابی کارازان کے دین سے مضبوط تعلق میں پوشیدہ تھا۔ وہ قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا رہنما سمجھتے تھے اور اپنے ہر عمل میں اللہ کی رضا کو مقدم رکھتے تھے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انہوں نے عدل وانصاف،مساوات اوررواداری جیسے اصولوں کو اپنایا۔ اس کے علاوہ علم کی جستجو اور تحقیق کی حوصلہ افزائی بھی ان کی کامیابی کا ایک اہم پہلو تھی۔
مسلمانوں کا ایک اوراہم وصف ان کا اتحاد تھا۔ وہ ایک امت کی طرح تھے اور رنگ و نسل، زبان اور علاقے کے فرق کو نظر انداز کرتے تھے۔ ان کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا اور دنیا کو عدل و انصاف پر مبنی نظام دینا تھا۔
موجودہ حالات
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے مسلمان ان اعلیٰ اقدار سے دور ہو چکے ہیں۔ ہم نے وہ دین جو ہمیں عزت و عظمت کا راستہ دکھاتا ہے اسے چھوڑ دیا ہے۔ قرآن جو ہدایت کا سرچشمہ ہے، اسے صرف رسموں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اتحاد جو ہماری سب سے بڑی طاقت تھی، اب اختلافات میں بدل چکی ہے۔
مسلمان آج اپنے آپ کو دنیاوی معاملات میں الجھا کر دین کے اصولوں کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ وہ علم و تحقیق میں پچھڑ چکے ہیں اور اخلاقی گراؤٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ نتیجتاً، دنیا میں ان کی حیثیت کمزور اور بے اثر ہو چکی ہے۔
حل کی جانب رہنمائی
ہمیں اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے دین کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ قرآن و سنت کو اپنے زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کرنا ہوگا۔ علم کی جستجو کو دوبارہ زندہ کرنا ہوگا اور نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت کے ذریعے شعور دینا ہوگا۔
اس کے علاوہ ہمیں اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہوگا۔ فرقہ واریت اور تعصب کو چھوڑ کر ایک امت بننا ہوگا۔ ہمیں اپنی اخلاقیات کو بہتر بنانا ہوگا اور دنیا کے سامنے اسلام کی اصل تصویر پیش کرنی ہوگی۔
تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلمان جب بھی اپنے دین پر عمل پیرا ہوئے، دنیا میں ان کا مقام بلند ہوا۔ آج بھی اگر ہم اپنی کوتاہیوں کو سمجھ کر اصلاح کی کوشش کریں تو وہ دن دور نہیں جب مسلمان دوبارہ عزت و وقار کے مقام پر فائز ہوں گے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری کامیابی کا راز صرف اور صرف اللہ کے دین کی پیروی میں ہے۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
یہ شعر ہمیں ہماری اصل کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتا ہے اور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر ہم عزت و عظمت چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے دین کے راستے پر واپس آنا ہوگا۔