سیاست کو امکانات کا کھیل اور مفروضات کا میل کہا گیا ہے۔ تصور مطلب پرسیپشن۔ سیاست میں اس پرسیپشن کی مہیما اتنی نرالی ہے کہ کئی مرتبہ اس کے سامنے اقتدار کی طاقت بھی بونی پڑجاتی ہے۔ ملک کی سابقہ یوپی اے حکومت اس کا ثبوت ہے جس کے گرنے کی ایک بڑی وجہ ہی اس کو لے کر بنا بدعنوان ہونے کا تصور تھا۔ کبھی اسی یوپی اے کا حصہ رہیں ممتابنرجی کی بدعنوانی کے تعلق سے بے داغ ہونے کا تصور آج سوالات کے گھیرے میں ہے۔
نیلے بارڈر والی سادی سفید ساڑی اور ربڑ کی چپل کے ساتھ ہی صاف ستھری شبیہ ممتابنرجی کے سیاسی کریئر کی خاص پہچان رہی ہے۔ تین مرتبہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود ممتا آج بھی ایک ایسی تحریک چلانے والی لیڈر کہی جاتی ہیں جو ماں-ماٹی-مانش کی لڑائی میں سسٹم سے ٹکرا جاتی ہیں۔ لیکن تقریباً ساڑھے چار دہائیوں کی طویل سیاسی جدوجہد اور بے حد احتیاط سے بنائی گئی ان کی یہ شبیہ آج دوراہے پر آکھڑی ہوئی ہے۔
مغربی بنگال کی حکومت میں نمبردو کی حیثیت رکھنے والے اور ممتا کے سب سے معتمد معاونین میں شامل پارتھ چٹرجی کی ایک مبینہ قریبی دوست کے گھر سے 50کروڑ روپے سے زیادہ کی نقدی کی برآمدگی کی تصاویر نے بنگال اور ہندوستان کے لوگوں کے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ غیرقانونی دولت کا انبار، اس سے جڑا گھوٹالہ اور گھوٹالے سے وابستہ لیڈر کے مبینہ طور پر ملوث ہونے سے ممتا کی سیاست کو ممکنہ پہلی مرتبہ کوئی بڑا اخلاقی چیلنج ملا ہے۔
مکل رائے اور شوبھیندو ادھیکاری جیسے لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے کے بعد مغربی بنگال کی سیاست میں پارتھ چٹرجی کا کردار ممتا کے لیے کافی کچھ ویسا ہی ہوگیا تھا جیسا مہابھارت میں کرشن کے لیے ارجن کا تھا۔ ممتا تنظیم اور حکومت کی راہ میں آنے والے کئی چیلنجز کا حل پارتھ چٹرجی کے ذریعہ نکالا کرتی تھیں۔ قربت اتنی ہے کہ ممتا انہیں دادا کہہ کر بلاتی ہیں۔ اس لیے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ دیدی کے یہ ’دادا‘ ترنمول کے بڑے لیڈر ہی نہیں، بڑے رازدار بھی ہیں۔ اس وجہ سے بھی ممتا سیاسی الزامات کے راست نشانہ پر ہیں۔
بنگال ہی نہیں، ملک کی سیاست کے لحاظ سے بھی اس واقعہ کے گہرے مضمرات ہیں۔ ممتا تین مرتبہ کی وزیراعلیٰ ہیں اور ان میں سے دو بار وہ وزیراعظم نریندر مودی کی مدت کار میں ہی منتخب ہوئی ہیں۔ ان تمام برسوں میں ان پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں لگا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ مرکزی تحقیقاتی ایجنسیوں نے ان پر کوئی ’ممتا‘ دکھائی ہے یا انہیں کوئی رعایت دی ہے۔ بلکہ اہم اپوزیشن لیڈر ہونے کے سبب ان کے خلاف تو جانچ ایجنسیوں کی پڑتال اور بھی گہری رہی ہوگی لیکن اب تک ان کے ہاتھ ایسا کوئی سراغ نہیں لگ پایا جو ممتا کو بدعنوانی کے کٹہرے میں کھڑا کرسکے۔
گزشتہ سال بھوانی پور میں ضمنی الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کو دیے گئے حلف نامہ کے مطابق بھی ممتابنرجی کے پاس صرف 69ہزار 255روپے کیش اور 9گرام جیولری ہونے کی معلومات سامنے آئی۔ ممتا وزیراعلیٰ کے طور پر اپنی تنخواہ بھی نہیں لیتی ہیں اور اسے ریلیف فنڈ میں جمع کرادیتی ہیں۔ اس کے علاوہ سابق ممبر پارلیمنٹ کے طور پر ملنے والے بھتّے کو بھی وہ ریلیف فنڈ میں جمع کراتی ہیں۔ ان کی ذاتی آمدنی کا واحد ذریعہ ان کی وہ کتابیں ہیں جن کی رائلٹی انہیں ملتی ہے۔ معاشی شفافیت کی یہی اخلاقی طاقت ایک ہی وقت میں سیاسی مخالفین کے خلاف ممتا کی ڈھال اور ان پر حملہ کا ہتھیار بنتا رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی تک کے خلاف ممتا کی جارحیت کو اسی وجہ سے تقویت ملا کرتی تھی۔
حالاں کہ ترنمول کے لیڈروں پر بدعنوانی کا یہ کوئی پہلا الزام نہیں ہے۔ ممتا کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی اور ان کی بیوی روجیرا مبینہ کوئلہ گھوٹالہ سے متعلق خود مرکزی ایجنسیوں کے رڈار پر ہیں۔ گزشتہ سال اسمبلی انتخابات میں ترنمول کی زبردست جیت کے بعد وزیرکابینہ اور کولکاتہ کے میئر فرہاد حکیم، وزیرکابینہ آنجہانی سبرت مکھرجی اور ایم ایل اے مدن مترا کو سی بی آئی نے گرفتار کیا تھا۔ پہلے سی بی آئی نے ترنمول ممبرپارلیمنٹ سدیپ مکھرجی کو بھی گرفتار کیا تھا۔ مکھرجی اس وقت پارٹی کے لوک سبھا لیڈر ہیں۔ بیربھوم کے ترنمول ضلع صدر انوبرت منڈل بھی سی بی آئی اور ای ڈی کے رڈار پر ہیں۔ ان تمام معاملات میں ممتا اپنے معاونین کے لیے لڑتی نظر آئی تھیں، لیکن اس بار ان کا خاموش رہنا اور اپنے ہی ساتھی پر کارروائی کرنا واضح اشارہ ہے کہ خود ممتا بھی اب تسلیم کر رہی ہیں کہ معاملہ الگ ہے۔
اس معاملہ میں ممتا کے تعلق سے ایک تصور کو اور چیلنج ملا ہے۔ ایسا سمجھا جاتا رہا ہے کہ ترنمول کانگریس پر ممتا کا پورا کنٹرول ہے، لیکن بنگال اور ترنمول کانگریس کی سیاست میں اتنی بڑی حیثیت رکھنے کے باوجود پارتھ چٹرجی کے خلاف ممتا کے بھتیجے ابھیشیک بنرجی کی قیادت میں ہوئے سزا کے اعلان کو پارٹی میں اقتدار کے ایک اور مرکز کے عروج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ ذاتی بات چیت میں ترنمول کانگریس کے ایک سینئر لیڈر نے بھی مانا کہ پارٹی میں اس سے پہلے کبھی اتنی تیزی سے ردعمل پیش کرنے کی روایت نہیں رہی۔ حالاں کہ ابھیشیک نے اتنا کچھ ممتا کی رضامندی کے بغیر کیا ہوگا اس پر شبہ ہے۔ ایسی بھی خبریں ہیں کہ ای ڈی کی حراست میں پارتھ چٹرجی نے ممتا سے مسلسل رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ممتا کی جانب سے کوئی توجہ نہیں ملی۔
سوال اکیلے پارتھ چٹرجی کا نہیں ہے بلکہ ممتابنرجی کا ریاست سے نکل کر ملک کی سیاست پر چھانے کا منصوبہ ہے۔ ای ڈی اور سی بی آئی اس ایک معاملہ میں جانچ کے بعد رک جائیں گی، ایسا نہیں لگتا، بلکہ اس بات کا خدشہ زیادہ ہے کہ یہ گھوٹالہ ممتاحکومت کے کئی اور وزرا کے خلاف جانچ کا اینٹری پوائنٹ بن جائے۔ ایسا ہوا تو یہ حزب اختلاف بالخصوص بی جے پی کو بدعنوانی کے ایشو پر ترنمول کانگریس کے خلاف سڑکوں پر اترنے کا موقع دے گا۔ ریاست سے لے کر مرکز کی سیاست تک ترنمول کانگریس کے مخالفین کے پاس اب تک ممتا حکومت کی فلاحی اسکیموں کی کوئی کاٹ نہیں تھی، لیکن یہ گھوٹالہ ایک طرف ریاست کی سیاست میں ممتا پر الزامات کی دھار تیز کرسکتا ہے، وہیں دوسری جانب وزیراعظم کے عہدہ پر ممتا کی دعویداری کو بھی کھٹائی میں ڈالے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ ممتا نے اس خطرے کا بروقت اندازہ لگا لیا ہے۔ تبھی تو صدر اور نائب صدر کے عہدہ کے لیے الیکشن کے تعلق سے کانگریس اور کچھ دیگر پارٹیوں سے کھنچی کھنچی ممتا نے نئے سرے سے اپوزیشن کو منظم کرنے کی شروعات کردی ہے۔ اس کے لیے ممتا اگلے کچھ دنوں کے لیے دہلی پہنچ رہی ہیں۔ ایسی بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ دامن صاف رکھنے کے لیے ممتا اقتدار سے لے کر تنظیم تک بڑی تبدیلیاں کرسکتی ہیں۔ ممتابنرجی کے سامنے ڈیمیج کنٹرول کے امکانات لامحدود ہیں، لیکن بنیادی سوال گھوم پھر کر ہر قیمت پر بے داغ شبیہ کو لے کر بنے تصور کے تحفظ کا ہی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)
یہ ’داغ‘ اچھے نہیں ہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS