یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی: زین شمسی

0

زین شمسی

منی پور میں دو قومیں میتئی اور کوکی کے درمیان خوں ریز تصادم جاری ہے۔ فسادات کے ہفتوں گزر گئے ہیں، سرکاروں اور میڈیا کے لوگوں کواس خونیں جنگ سے کوئی مطلب نہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے، وہیں اتراکھنڈ میں مسلمانوں کی ہجرت شروع ہو چکی اور سرکار وں اور میڈیا کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ اخبارات کی رپورٹنگ بتاتی ہے کہ اتراکھنڈ کے کئی اضلاع میں باضابطہ منصوبہ بند سازش کے تحت مسلمانوں کو زدو کوب کیا جارہا ہے کہ وہ جان سے جائیں یا وہاں سے ہجرت کر جائیں۔ ڈی کوئنٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اتراکھنڈ کے پرولا میں مسلم کاروباریوں کو شہر بدر کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم کاروباریوں میں سے ایک محمد اخلاق اپنا ساز و سامان لے کر اس جگہ سے خوف زدہ ہو کر چلے گئے جہاں وہ4دہائیوں سے مستقل سکونت پذیر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے چھوٹے بچے نے ان سے پوچھا کہ دنگائی یہ نعرہ کیوں لگا رہے تھے کہ دیوبھومی پر مسلمانوں کا کیا کام؟ ان کا بچہ اتنا ڈرا ہوا تھا کہ انہیں اپنی دکان اور اپنا مکان چھوڑنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ہندوتو کے ٹھیکہ دار بلکہ بیوپار منڈل کے صدر بھی چاہتے تھے کہ وہ اپنی دکان خالی کر دیں۔ ایک اور کاروباری محمد زاہد نے اپنی دکان چھوڑنے کے بعد کہا کہ اب میں یہاں کبھی واپس نہیں آئوں گا، کیونکہ ہمارے ایک بھی ہندو دوست نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ محمد زاہد پرولا میں بی جے پی اقلیتی سیل کے صدر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب بی جے پی میں رہنے والے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے تو باقی کا اللہ ہی مالک ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جب میری دکان جلائی جارہی تھی تو میں نے ایس ایچ او اور بیوپارمنڈل کے صدر کو بھی فون کیا، مگر انہوں نے کسی طرح کی مدد سے انکار کر دیا۔ محمد زبیر نے بی جے پی کے پسماندہ مسلمان کے جال میں پھنس کر پارٹی جوائن کی لیکن اب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے لوگ اتراکھنڈ سے ہجرت کرکے جائیں تو جائیں کہاں۔ غم روزگار کے سبب ہر وقت اپنا مکان اپنے کاندھوں پر رکھنا آسان نہیں ہے۔ ہجرت انسان کو حاشیہ پر لے جاتی ہے۔ یہ انسانیت کی سب سے نچلی سطح ہے جہاں انسان کو اس کی زمین سے دور ہونا پڑتا ہے اور جب وہ کسی دوسری جگہ نقل مکانی کرتا ہے تو زندگی بھر کے لیے مہاجر کا ڈنک اس کے زخم کو ہرا کر دیتا ہے۔
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
……
ہر نئی نسل کو اک تازہ مدینے کی تلاش ہے
صاحبو! اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے
ملک کے بیشتر عوام جو ذہنی طور پر اب نفرت کی فیکٹری میں بنائے جارہے ہیں، انہیں اس طرح کی خبروں میں کسی طرح کی انسانیت سوزی کی جھلک نہیں ملتی، انہیں دنیاوی ہجرت سے آگے جا کر دوسری دنیا کی ہجرت کی کہانی سننی ہے، جو میڈیا والے انہیں دِکھانا پسند کرتے ہیں۔ دنیا سے آخرت کی طرف منتقلی پر ڈبیٹ کیے جارہے ہیں۔ میڈیا اور اندھ بھکتوں کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ عبدل اس دنیا میں بھی خوش ہے اور مرنے کے بعد72حوریں بھی ان کا استقبال کر رہی ہیں تو حوروں پر خوب بحث ہو رہی ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ جہاں ستی پرتھا کا رواج رہا ہے، جہاں بیوگی کو گناہ مانا جاتا رہا ہے، جہاں بال وِواہ کا چلن ہے، جہاں1000اپسرائوں کا ذکر ہے، جہاں جوا میں بیوی کے ہار جانے کا بیان ہے، وہاں یکایک ان لوگوں کو مسلمانوں کی عورتیں مظلوم لگنے لگی ہیں۔ کم از کم انہیں یہ تو سمجھنا چاہیے کہ اگر کوئی مسلم لڑکی حجاب پہنتی ہے تو مسلم لڑکی عرفی جاوید بھی ہوسکتی ہے۔ اپنی اپنی پسند ہے، مگر سیاست اور مسلموں کے خلاف ذہنیت سازی کا یہ پروپیگنڈہ اب ہندوستانی سیاست کا سب سے بڑا دھندہ بن چکا ہے۔وہ کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے۔
حور و قصور سے نہ بہشت بریں سے ہے
نازاں ہوں میں کہ میرا تعلق زمیں سے ہے
جہاں تک حوروں کا تعلق ہے تو اس میں ہمارے علما کابھی قصور ہے کہ انہوں نے حوروں کے تصور کو جسمانی خواہشات کا آئینہ بنا کر پیش کر دیا ہے۔یہاں تک کہ اقبال نے بھی لکھا کہ
قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
حور و غلماں کا تصور جنتیوں کی ملازمہ سے ہے اور کچھ نہیں۔کہیں کسی جگہ میں نے پڑھا تھا کہ لیزلے ھیزلٹن حضرت محمدمصطفیؐ کی داستان حیات لکھنے کی تیاری میں تھی۔ اسی وجہ سے اسے محسوس ہوا کہ اسے قرآن پاک کو جتنا ہو سکے مکمل اچھی طرح سے پڑھنا چاہیے۔ اس کے لیے اسے اپنی بھرپور کوشش کرنا چاہیے، اس مقصد کے لیے اس نے قرآن پاک کے چار مشہور تراجم لیے اور ان کا مطالعہ، ایک ایک آیت کا نہ صرف ترجمے کا بلکہ ساتویں صدی کے اصل عربی متن کے ساتھ کیا۔جب وہ قرآن پاک کا مطالعہ کرنے لگی تو اس نے اس بات کو جانا کہ ایک غیر مسلم اور اسلام کی مقدس کتاب کے خود شناس ’’سیاح‘‘ کے طور پہ وہ جو توقع کر رہی تھی، یہ ویسا نہیں تھا۔ اس نے اس پروجیکٹ کے لیے تین ہفتے مقرر کیے تھے لیکن یہ تین ہفتے تین مہینوں میں بدل گئے۔
اسے پتہ چلا کہ72 کی تعداد کہیں ظاہر نہیں ہوئی۔ نہ تو قرآن پاک میں کہیں بہتر حوروں کا ذکر تھا نہ ہی ان کے پرکشش سینے کا: خدا لطیف ہے۔ یہ جملہ بار بار دوہرایا گیا ہے،اور قرآن پاک ہماری سوچ سے کہیں زیادہ لطیف ہے۔ مثال کے طور پہ جنت اور حوروں کے معاملے میں۔ یہاں بوسیدہ استشراقیت اپنی ٹانگ اڑاتی ہے۔ وہ لفظ جسے چار مرتبہ استعمال کیا گیا ہے وہ حوریں ہے، جو سیاہ آنکھوں والی، ابھرے سینے والی، حسین کنواریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم اصل عربی میں ایک لفظ ’’حوریں‘‘ہے، اس کا مطلب خوبصورت سینہ نہیں ہے، اس کا مطلب فرشتوں کی طرح پاکیزہ ہو سکتا ہے۔ یا پھر یہ یونانیوں کے ہرکولیس کا ہم معنی ہو سکتا ہے جس کی جوانی دائمی ہے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ حتمی بات کوئی نہیں جانتا، یہی اصل بات ہے۔ آخرت کی دنیا کے متعلق کوئی بھی حتمی بات نہیں کر سکتا۔ کیونکہ قرآن پاک واضح کہتا ہے کہ ’’جنت میں تمہاری نئی تخلیق ہوگی‘‘ اور ’’تم ایسی صورت میں بنائے جاؤ گے جو تم نہیں جانتے‘‘ جو اسے حور کے تصور سے کہیں زیادہ پرکشش محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی نئی صورت میں تخلیق کی جائے گی۔ اور بہتر کا ہندسہ کہیں نظر نہیں آتا۔ قرآن پاک میں کہیں بہتر حوروں کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ تصور300سال بعد وجود میں آیا اور اسے اکثر اسلامی علما نے بادلوں میں بیٹھی ساز بجاتی ہوئی مخلوق کے طور پہ پیش کیا۔ جنت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ کنوار پن نہیں بار آوری ہے، فراوانی ہے۔ اس کے باغوں کو بہتی نہروں سے پانی ملتا ہے۔
دراصل جب مسلمانوں کے یہاں ہی حوروں کے تعلق سے وضاحت نہیں ہے تو غیر مسلموں کو تو ایک شوشہ چاہیے اور یہ شوشہ آج کے دور کا سب سے بڑا مکالمہ ہے۔ ہجرت اور انتقال دنیا کے تعلق سے مسلمان کسی بھی قوم سے زیادہ آگاہ ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ ان کی آگاہی سے دوسرے لوگ آگاہ نہیں ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS