حال کے دنوں میں دو ایسی رپورٹیں منظرعام پر آئی ہیں جو فلاحی مملکت، جمہوریت، سماجی انصاف کے خوشنمانعروں کے درمیان سرمایہ دارانہ جبر کے مکروہ چہرے کو ننگاکررہی ہیں۔ ان رپورٹوںکو دیکھ کر یہ بدیہی حقیقت ایک بار پھرذہن میں راسخ ہوجاتی ہے کہ دنیا میں جاری موجودہ نظام معیشت منافع کی ہوس میں انسانیت کی تمام حدیں پھلانگ سکتا ہے۔ سرمایہ کی وسعت کے تلے دبتے کچلتے انسان اوران کی محنت ایسی حقیر شئے بن کر رہ جاتی ہے جس کی طرف دیکھنا بھی وقت کا زیاں سمجھاجاتاہے۔
پہلی رپورٹ بین الاقوامی ادارہ محنت(آئی ایل او ) کی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی انتہائی خراب حالات میں کام کرتی ہے۔ حالات اتنے خراب ہیں کہ لاکھوں مزدور اور ملازمین کام کے بوجھ کی تاب نہ لاکرہلاک ہوجاتے ہیں۔لاکھوں مزدور وں کے کام کی جگہ اتنی خطرناک اورآلودہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے۔مگر اس کے باوجود سرمایہ دار اور صنعت کار نہ کام کی جگہ بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہلاک ہونے والے مزدوروں کے ورثا اور لواحقین کی اشک سوئی کا کوئی انتظام ہے بلکہ ان اموات پر اظہار تاسف بھی نہیں کیاجاتا ہے۔
آئی ایل او کی اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا میں 30 لاکھ افراد کام سے متعلق حادثات اور مختلف قسم کی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ یہ تعداد سال 2000 کے مقابلے میں 12 فیصد اور 2015 کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ ہے۔اس رپورٹ میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں کہ یہ اموات تسلسل کے ساتھ ہورہی ہیں اور اموات کی سب سے بڑی وجہ ہفتہ میں 55گھنٹے سے زیادہ کام کے اوقات ہیں۔اوقات کار میں جبری اضافہ کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد تقریباً7.5لاکھ ہے۔کام کے دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کام کرنے والے عوام کیلئے محفوظ کام کا کلچر تیار نہیں کیاجاسکاہے۔آئی ایل او کی اس رپورٹ پر سڈنی میں منعقد ہونے والی 23 ویں کانگریس میں 27سے30نومبر کے دوران بحث بھی ہوئی لیکن محنت کشوں کیلئے کام کرنے کے محفوظ طریقے تیار کرنے کے اقدامات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔
دوسری رپورٹ نہیں بلکہ تحقیق ہے جس میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ کام سے متعلقہ بیماریوں سے ہونے والی اموات کی تعداد میں عالمی سطح پر اضافہ ہوا ہے۔یہ مطالعاتی تحقیق فن لینڈ کی ٹیمپیر یونیورسٹی اور اٹلی میں انٹرنیشنل کمیشن آن آکیوپیشنل ہیلتھ (ICOH) کے محققین نے کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وبا سے پہلے تک یعنی2011 اور 2019 کے دوران پیشہ ورانہ بیماریوں سے منسلک اموات میں 26 فیصد اضافہ ہوا۔ 2019 میں 29لاکھ اموات صرف کام کی وجہ سے ہوئی ہیں جب کہ2.60 لاکھ اموات کام سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے ہوئیں جب کہ کام کے دوران زخم لگنے کی وجہ سے 3,20,000 اموات ہوئی ہیں۔
اس رپورٹ اور تحقیق میں ان اموات کو شامل کیاگیا ہے جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل میں ریکارڈ ہوئی ہیں جب کہ لاکھوں ایسی اموات بھی ہیں جن کا کہیں کوئی ریکارڈ نہیں ہے، یہ اموات غیر منظم شعبہ میں کام کرنے والے ان کارکنوں کی ہے جن کی بڑی تعداد ہر روز اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھتی ہے۔فلک بوس عمارتوں کی بنیادوں میں ایسے ہزاروں مزدوروں کے باقیات دیکھے جاسکتے ہیںلیکن یہ اموات کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔کارکنوںاور مزدوروںکی یہ حالت دنیا بھر میںہے لیکن ترقی پذیر کہے جانے والے ممالک خود کو ترقی یافتہ کی صف میں لانے کیلئے انسانی جانوں کی حرمت پامال کررہے ہیں، ان کے یہاں صورتحال کہیں زیادہ قابل رحم اور تشویش ناک ہے۔
یہ رپورٹ اور تحقیق سرمایہ داری کے اس تاریک پہلو پر روشنی ڈال رہی ہے جس نے ترقی اور انتہائی تیز رفتاری سے بدل رہی دنیا کی جگمگاہٹ کے پیچھے انسانی جانوں کے بھاری اتلاف اور بے توقیری کو چھپا رکھا ہے۔ اور جہاں معاشی منافع پر انسانی جانوں کی بھینٹ چڑھانا کاروباری گر میں شمار ہوتا ہے اورحکومتیں بھی ایسے کاروبار کی سرپرستی اور حفاظت کرتی ہیں۔ ہندوستان میں تو صورتحال اتنی زیادہ خراب ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کے مفاد کی حفاظت میں حکومت باقاعدہ قانون سازی کررہی ہے۔ چند ماہ پہلے تبدیل کیے گئے قانون محنت میں یومیہ اوقات کار کو8گھنٹے سے بڑھاکر12گھنٹے کی تجویز ہے۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہندوستان میں مزدوروں، کارکنوں اور ملازمین کا کیا مستقبل ہوگا۔سرمایہ داروں کیلئے دولت پیدا کرنے والے محنت کش فقط ایک مشین سمجھے جائیں گے۔ورک کلچر کے نام پر سرمایہ داروں کو ظلم و جبر کی ملنے والی پوری قانونی اجازت ہی محنت کشوں کی اموات کا باعث بن رہی ہے۔بقول اقبال:
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ ٔمزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات!
[email protected]
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS