خواجہ عبدالمنتقم
عدل و انصاف ایک مہذب معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے اور اگر بنیاد ہی ہل جائے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا۔تصور انصاف سختی کے ساتھ مساوات کی تلقین کرتا ہے۔ ا گر کسی شخص کو کوئی مضرت پہنچی ہو، اسے کوئی نقصان ہوا ہو یا اس کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کا یہ حق ہے کہ فریق ثانی اس کے نقصان کو پورا کرے اور اس کا جو حق تلف ہوا ہے، وہ حق اس کو ملے۔ دراصل اسی کا نام انصاف ہے۔ انصاف اس طرح کیا جانا چاہیے کہ متاثرہ شخص کو اس بات کا مکمل اطمینان ہوجائے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ انصاف ملنا، انصاف کرنا یا انصاف دلانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انصاف بروقت ملنا چاہیے۔اس کے علاوہ اسے اس قسم کی سزا دی جانی چاہیے جن کی تفصیل بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعہ 4 میں دی گئی ہے یعنی(الف)سزائے موت، (ب)عمرقید، (د) قید جودو طرح کی ہے، یعنی (1) بامشقت، یعنی کڑی محنت کے ساتھ، (2)محض،یعنی سادہ،ضبطی جائیداد، جرمانہ وخدمت خلق(Community service)۔
قارئین اور طلبائے قانون انصاف کی کئی اقسام سے واقف ہی ہیں جیسے عدالتی انصاف (Legal Justice) یعنی سپریم کورٹ و ہائی کورٹوں کی نظیریں، رسم ورواج، دیگر ممالک کی نظیریں، بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی قرار دادیں، عہد نامے ودیگر دستاویزات وغیرہ و حقیقی یا قدرتی انصاف(Natural Justice) یعنی مختلف عدالتوں کے ذریعہ مرتب کیے گئے مسلمہ اصولوں کے مطابق کیا گیا انصاف۔ ان اقسام میں ایک اور نئی نام نہاد قسم ’انصاف بشکل انہدام تعمیرات ‘ شامل ہوگئی ہے جسے ہمارے اخبارات”Bulldozer Justice” نام دے رہے ہیں اور انگریزی اخبار”The Hindu”نے تو اسے سرکار سے منظور شدہ اجتماعی سزا کا نام دیا ہے جو قانونی بالادستی کے اصول کوبالائے طاق رکھ کر اور مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دی جا رہی ہے۔دراصل اس طرح کی کارروائی کو سرے سے تو غلط نہیں کہا جاسکتا مگر اسے تب تک یقینا غلط کہا جاسکتا ہے جب تک مجاز عدالت کے روبرو باقاعدہ سماعت کے بعد یہ نہ ثابت ہوجائے کہ متعلقہ تعمیر غیرقانونی ہے اور عدالت یہ فیصلہ دے کہ اسے منہدم کردیاجائے۔ اگر کسی نے غلط طریقے سے کوئی کام کیا ہے تو اسے اس کی سزا ملنی ہی چاہیے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات،طبقے یا برادری سے ہو۔ البتہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک ہی حالات میں ایک زمرے کے لوگوں کو برابر سمجھا جائے۔ ناانصافی اس وقت وجود میں آتی ہے جب دو لوگوں کو ایک ہی صورت حال کا سامنا ہو مگر ان کے ساتھ غیر مساوی سلوک کیا جائے یعنی انہیں برابر نہ سمجھا جائے یا بصورت دیگر غیر مساوی کو مساوی سمجھا جائے یا ایک کے ساتھ سختی برتی جائے اور دوسرے کے ساتھ نرمی۔ہاں اب کسی حد تک یہ دیکھنے میں بھی آرہا ہے کہ اگر عبدالرشید کا مکان توڑا گیا ہے تورام پرشاد کا مکان بھی منہدم کیا جارہا ہے۔ اگر بریلی میں محرم کے جلوس سے متعلق واقعہ میںمبینہ مسلمان ملزمین(حالانکہ کسی ملزم یا مجرم کو ہندو یا مسلمان کہنا اچھا نہیں لگتا مگر حالات نے اس طرز تخاطب کے لیے مجبور کر دیاہے ورنہ ملزم یا مجرم تو صرف ملزم یامجرم ہوتا ہے نہ کہ مسلمان،ہندو یا کسی دیگر مذہب سے منسوب شخص) کے مکانات زمیں بوس کیے گئے ہیں تو دوسری جانب راجستھان میں نیٹ امتحان کے پرچے لیک کرنے میں مبینہ طور پر شریک ایک ہندو ملزم کا مکان بھی منہدم کیا گیا ہے۔ مگر یہاں پر بھی مذکورہ اس بات کو دہرانا پڑے گا کہ دونوں ہی معاملات میں جرم ثابت ہوئے بغیر ایسا کیا گیا ہے جب کہ ہم سب اس مفروضے سے بخوبی واقف ہیں کہ قانون ہر شخص کو بے گناہ سمجھتا ہے تا آنکہ اس کے خلاف جرم ثابت نہ ہو جائے۔
عدلیہ اور عاملہ دونوں شعبوں سے وابستہ حکام کو حسن نیت سے ہرمعاملے کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ایک اور مثال عدالتوں کو دیے گئے اختیار خاص بھی ہیں۔ باقاعدہ عدالتی نظام کے قائم ہونے سے پہلے عدالتی حاکموں پر قاعدے قانون کی اتنی پابندی یا بندش نہیں تھی جو آج دیکھنے میں آتی ہے۔ لیکن عدالتی نظام کی بتدریج ترقی اور عدالتوں کے سامنے مختلف قسم کے مسائل پیش آنے کے نتیجے میں ضروری ضابطوں اور قاعدوں کی تدوین کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ بدلتے ہوئے حالات سے نمٹا جاسکے۔ اسی لیے نئے نئے قانون، نئے نئے ضابطے اور قاعدے وجود میں آئے اور عدالتوں کو ان کا پابند بنایا گیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں یہ بھی حق دیا گیا کہ اگر ان کے سامنے ایسے معاملے آتے ہیں جن کے بارے میں کوئی قانون، ضابطے یا قاعدے نہیں ہیں یا پیچیدہ و اہم نوعیت کے ہیں اور وہ یہ سمجھیں کہ عدالتی ضابطہ ان کی رہنمائی نہیں کرتا تووہ مجموعہ ضابطہ دیوانی اور بھارتیہ ناگرک سرکشا ادھینیم،2023کے تحت اپنے اختیارات تمیزی کا استعمال کرسکتی ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے ان اختیارات کا استعمال اس طرح کریں کہ اس سے انصاف کی اغراض کو پورا کیا جاسکے اور قانونی کارروائی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔
جہاں تک کسی ملک کے نظام قانون کا سوال ہے،اس میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہاں انصاف رسانی کا معیار کیا ہے۔جس ملک کا قانونی نظام چست وچوبند ہوگا،وہاںاتنا ہی بہتر نظم ونسق ہوگا چونکہ بروقت انصاف عوام کے لیے اطمینان کا باعث ہوتا ہے اور ناانصافی بہت سی جائز وناجائز تحریکوں کو جنم دیتی ہے۔ ہندوستان کا قانونی وعدلیاتی نظام دنیا کے قدیم ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ یہ اپنی ہزارہا سال کی تاریخ میں دنیا کے لیے ایک مثالی نظام بنارہا۔ یہ تاریخ کے مختلف ادوار میں بدلتا رہا مگر اس پر کبھی قدغن نہیں لگا اور یہ ہمیشہ رواں دواں رہا۔دریں صورت یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی قانونی نظام کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے یا اپنے ذاتی مفاد یا کسی کو ناواجب فائدہ اٹھانے کے لیے اس کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔
عدلیہ اور اقلیتوںکے مابین ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ جب جب اقلیتوں کو انتظامیہ سے انصاف نہیں ملا ہے تب تب انہوں نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور انہیں وہاں سے خاص طور سے عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ سے فوری یا تاخیر سے انصاف ضرور ملا ہے خواہ اقلیتی اداروں کے کردار کا معاملہ ہو، اقلیتی ادارے قائم کرنے کی آزادی سے متعلق معاملات ہوں، پولیس کی زیادتی یا بے گناہ لوگوں کے گرفتار کیے جانے جیسے معاملے ہوں، اقلیتوں کے ساتھ انتظامیہ یا پولیس کے ناروا یا تعصبانہ رویے کی بات ہو۔ یہاں اقلیتوں سے مراد صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ سکھوں، عیسائیوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے بھی انسانی حقوق کی ہے جب جب خلاف ورزی ہوئی ہے تب تب انہوں نے بھی عدلیہ سے رجوع کیا ہے اور انہیں وہاں سے انصاف ملا ہے۔ دریں صورت عدلیہ کی آزادی برقرار رکھنا اقلیتوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔آ زاد ی سے مراد صرف عدلیہ کے کا م کاج میں مداخلت سے احتراز ہی نہیں بلکہ اس میں ایسے ججوں کا انتخاب بھی شامل ہے جو غیر جانبدارانہ فیصلہ دے سکیں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]