ایم اے کنول جعفری
اسرائیل کے ذریعہ ایران کے جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کے ساتھ ہی نہ صرف جنگ کا ایک نیا محاذ کھل گیا ہے، بلکہ اس نے مغربی ایشیا کو بھی ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔یہ تنازع پہلے سے غیرمستحکم مغربی ایشیا کو مزید عدم استحکام کا شکاربنائے گاہی، عالمی جغرافیائی،سیاسی اور اقتصادی منظر نامے کو بھی متاثر کرے گا۔دنیا نے تاریخ میں پہلی مرتبہ 2152کلومیٹر کے بڑے زمینی فاصلے پر واقع دو ملکوں کو ایک دوسرے پرزبردست فضائی حملے کرتے دیکھا۔ اسرائیل کے ایران پر حملے کا کوئی جواز نہیں ہے۔وہ بھی تب،جب15جون کو امریکہ اور ایران کے درمیان تہران کے جوہری پروگرام پر ممکنہ معاہدے سے متعلق عمان میں مذاکرات کے چھٹے دور کا انعقاد ہونا تھا۔ خفیہ جانکاری کہ ایران کچھ ہی مہینوں میں جوہری ہتھیار تیار کراسرائیل کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، کے مدنظراسرائیل نے ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بناتے ہوئے اسے فوجی ا ور سائنسی میدان میں زبردست نقصان پہنچایا۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہوکا کہنا ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔اس نے اتنا یورینیم جمع کر لیا ہے کہ ایٹم بم بناسکتا ہے۔ اگر اس وقت کارروائی نہیں کی جاتی تواس کے لیے نئی نسلیں نہیں آتیں۔ایران اسرائیل کے وجود کو مٹانا چاہتا ہے،اس لیے وہ اس کے پاس ایٹمی صلاحیت پیدا نہیں ہونے دے گا۔13جون کی شب سے شروع آپریشن ’رائزنگ لائن‘ تب تک جاری رہے گا،جب تک اسرائیل کو اپنی بقا کا یقین نہیں ہو جاتا۔ اسرائیل نے اپنے تمام سفارت خانے بند کر دیے اور ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیا۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اﷲ علی خامنہ ای نے کہا کہ ا سرائیل نے ایران کے خلاف جرائم میں اپنا خونیں ہاتھ دکھایا ہے،اسے اس بے وقوفی بھرے قدم کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔جنگ اسرائیل نے شروع کی ہے،لیکن اسے جوابی آپریشن ’وعدہ صادق3-‘ کے تحت ختم ایران کرے گا۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ بڑھنے کی شروعات غزہ حملوں کے دوران تب ہوچکی تھی، جب ایران نے فلسطینیوں کی حمایت میں غزہ میں حماس، یمن میں حوثی اور لبنان میں حزب اﷲ کو مدد فراہم کی۔ اسرائیل اور امریکہ انہیںدہشت گرد، تخریب کاری،قتل و خون اور دھماکوں میں شامل ہونے کا ذمہ دار مانتاہے۔اسرائیل گزشتہ 2 دہائیوں سے ایران پرجوہری ہتھیار بنانے کا الزام لگارہاہے۔یہ سہ فریقی تناؤ تازہ حملوں کی صورت میںسامنے آیا۔ یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے امریکہ بھی ایران کے خلاف ہے۔ اس نے اسرائیل سے ایران پر حملہ کرنے کااشارہ ملتے ہی مغربی ایشیا کے سفارت خانوںسے،حملے سے ایک روز قبل ہی، غیر ضروری اہلکاروں کو واپس بلا لیاتھا۔ اسرائیل نے بڑی پلاننگ کے ساتھ حملہ کیا۔پہلے اسرائیلی جاسوس ایجنسی ’موساد‘ نے انتہائی خفیہ طریقے سے خطرناک ڈرونز اور ہتھیاراسمگل کرکے تہران پہنچا ئے۔پھر انہیں فضائی حملوں کے ساتھ لانچ کیا۔حالاں کہ امریکہ نے حملے میں ہاتھ ہونے سے انکار کیا،لیکن دنیا جانتی ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر اسرائیل ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ایران ’ایٹمی معاہدہ‘ کے لیے تیار ہوجائے،ورنہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ ادھر ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے اسرائیل کے حملے کے بعد مذاکرات کو بے معنی قراردیتے ہوئے اسے منسوخ کر دیا۔چین نے ایران پر حملے کی سخت مذمت کی ہے۔اقوام متحدہ میں چین کے سفیر فوکانگ نے اسے ایران کی خود مختاری،سلامتی اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا۔ روس،پاکستان اور سعودی عرب نے بھی اسرائیلی حملے کی مذمت کی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے ایرانی ہم منصب مسعود پزشکیان اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے رابطہ کرکے جنگ روکنے میں ثالثی کی پیش کش کی اور جوہری پروگرام سے متعلق مسائل کا حل سفارت کاری بتایا۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں اشتعال انگیز، علاقائی اور عالمی استحکام کو خطرے میں ڈالنے کی خطرناک چال بتایا۔ اسرائیل نے ایران کے نتانز، تہران، اصفہان، اراک، تبریز اور کرمان شاہ کو نشانہ بنایا۔ایٹمی سہولت مرکز ’نتانز‘ میں 9ایٹم بم بنانے جتنا یورینیم موجود ہونے کے امکان ہیں۔ ایٹمی ریسرچ سینٹر ’تہران‘ میں کئی اہم ملٹری ٹھکانے اور ایئرپورٹس ہیں۔ ایرانی سپریمو آیت اﷲ خامنہ ای بھی یہیں رہتے ہیں۔ ایٹمی ٹیکنالوجی سینٹر اصفہان میں خام یورینیم کو گیس میں تبدیل کرنے کی سہولت اور ہتھیار بنانے کی فیکٹریاں ہیں۔’اراک‘ میں ہیوی واٹر ری ایکٹر ہیں،جن سے پلوٹونیم بن سکتا ہے، جو ایٹمی ہتھیار بنانے کا دوسرا طریقہ ہے۔’تبریز‘ میں ملٹری ویئر ہاؤس،میزائل پروڈکشن یونٹ کے ٹھکانے ہیں،جو بیلسٹک میزائل اور ڈرونز تیار کرتے ہیں۔ ’کرمن شاہ‘ میں ایران کے میزائل اڈے، صنعتی کمپلیکس اور کئی اہم سرحدی کراسنگ پوائنٹس ہیں۔ان مقامات پر حملے کرکے اسرائیل یہ جتانا چاہتا ہے کہ اس کے حملے سے ایران کامحفوظ سے محفوظ تر ٹھکانہ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیلی حملوں کا مقصد ایرانی فضائیہ اور دفاعی نظام کو کمزور کرنا، حزب اﷲ تک ہتھیارپہنچنے پر قدغن لگانا،ایٹمی پروگرام کے دوسرے راستے بند کرنا، فوجی، اقتصادی ڈھانچے اور تیل کی صلاحیت کو کمزور کرنا اور ہر ممکنہ جوابی حملے کو روکنا ہے۔
اسرائیلی اخبار ’اسرائیل ٹائمز‘ اور دیگر ذرائع کے مطابق اسرائیلی ڈیفنس فورسز(آئی ڈی ایف) نے پہلے ہی روز 200سے زیادہ جنگی طیاروں سے ایران کے نیوکلیائی،فوجی اور مواصلاتی ٹھکانوں پر 330 سے زیادہ بم گراکر ایران کے دفاعی نظام، میزائل پروگرام اور کمانڈ اسٹرکچر کو کمزور کیا۔ ایرانی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی(آئی آر سی ایس) کے مطابق اسرائیل نے8ریاستوں کے 60 مقامات پر حملے کیے۔ ان حملوں میں شہید ہونے والے ایران کے مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری، پاسداران انقلاب کے سربراہ میجر جنرل حسین سلامی، بیلسٹک میزائل پروگرام کے چیف بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ،اہم کمانڈر جنرل غلام علی راشد،غلام رضا محرابی اور جنرل مہدی ربانی سمیت فوج کے20کمانڈر اورنیوکلیائی پروگرام میں کلیدی کردار ادا کر نے والے9معروف نیوکلیائی سائنس داں عبدالحمید منوچہر، احمد رضا ذوالفقاری دریانی، سید امیر حسن فقہی، اکبر متلبی زادہ، محمد مہدی تہرانچی، فریدون عباسی، سعید برجی،منصور اصغری اور علی بخوئی کاتیریمی شامل ہیں۔ ایران کی جانب سے اسرائیلی حملوں کا فوری جواب دیتے ہوئے100 سے زیادہ ڈرونز اور میزائل داغے گئے۔ اسرائیلی فوجی ترجمان بریگیڈیئر جنرل ایفی ڈیفرن نے ایرانی حملوں کے دوران اس کے ڈرونز روکنے کی کوشش کی تصدیق کی۔اسرائیل نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کے علاوہ دارالحکومت تل ابیب اور حیفہ جیسے بڑے شہروں کے اسپتالوں میں زیر زمین طبی سہولتیں فعال کردیں۔شہری جنگی حالات کے پیش نظر خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ جمع کررہے ہیں۔تل ابیب، حیفہ،پیٹہ ٹکوا اور دیگر مقامات کے کامیاب حملوں میںاسرائیل کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔ حملوں میں دونوں ممالک کی سیکڑوں عمارتیں تباہ ہوکر ملبے کے ڈھیر اورکھنڈروں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔اسرائیل کے کئی فوجی ٹھکانوں، فیکٹریوں اور ریفائنری کو نشانہ بنایا گیا ہے۔کل تک غزہ میں بھوک سے بے حال معصوم بچوں کے قتل پرہنسنے والے اسرائیلی آج خود بنکروں میں چھپے بیٹھے ہیں۔پہلے چار روز میں ایران میں 224 افراد ہلاک اور 1,277 زخمی اور اسرائیل میں 18لوگ ہلاک اور390 زخمی ہوچکے ہیں۔اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایران کو دھمکی دی کہ اگر شہریوں پرمزید میزائل فائر کیے گئے، تو تہران جلادیا جائے گا۔ایران نے زبردست حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے ’آئرن ڈوم‘ ،’ایئر ڈیفنس سسٹم اور ’تھاڈ‘کی ہوا نکالتے ہوئے انہیں بونا ثابت کر دیا۔ درجنوں بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیلی وزارت دفاع اوروزیراعظم کے گھر کو نشانہ بنایاگیا۔ایران نے امریکہ،برطانیہ اور فرانس کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے اسرائیل پر داغی جانے والی میزائلیں روکنے کی کوشش کی تو ان کے فوجی اڈوں پر بھی حملے کیے جائیں گے۔ نیتن یاہو جانتے ہیں کہ ایران کے پاس 2,500 کلومیٹر تک مارکرنے والی سیجل اور عماد میزائل ہیں اور اسرائیل ان میزائلوں کے دائرے میں آتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]