اس ’آباد‘ خرابے میں کوئی خیر نہیں!

0

محمد فاروق اعظمی

ہندوستان چاند پر کمند ڈال چکا ہے، کوئی دن جاتا ہے کہ چاند کی ہوا، پانی اور مٹی کے نمونے ہماری دسترس میں ہوں گے اور ان پر تحقیقات کی نئی نئی عمارتیں کھڑی کی جائیں گی۔ممکن ہے ہم یوروپ اور امریکہ سے مقابلہ کی اس دوڑ میںآگے نکل جائیں۔اسی طرح برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ہندوستان دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت بھی بن چکا ہے۔لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ترقی کے یہ ثمرات ہندوستان کے عام آدمی کی رسائی سے کوسوں دور ہیں۔نہ عام لوگوں کی فی کس آمدنی بڑھ رہی ہے اور نہ روزگار کی شرح میں ہی کوئی اضافہ دیکھنے میں آیا۔عام آدمی کیلئے آج سے 40-50سال پہلے جو حالات تھے، آج بھی بالکل ویسے ہیں۔حتیٰ کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا بنیادی مسئلہ بھی اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔
آج2023میں بھی ملک کے 15 سے 34 سال کی عمر کے 36 فیصد نوجوان بے روزگاری کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں جبکہ 16 فیصد غربت اور 13 فیصد مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔لوک نیتی اور سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز(سی ایس ڈی ایس )نے گزشتہ دنوںہندوستان میں ملازمت، تعلیم، سماجی تعلقات، طرز زندگی اور نوجوانوں کی جسمانی و ذہنی صحت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کیلئے ایک سروے کیا تھا۔اس سروے میں شامل 36 فیصد نوجوانوں نے بے روزگاری کوملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔ 16 فیصد نوجوانوں کا جواب تھا کہ غربت سب سے بڑا مسئلہ ہے جب کہ 13 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ مہنگائی ان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ سروے میں شامل 6 فیصد نوجوانوں نے بدعنوانی کو سب سے بڑا مسئلہ بتایا۔ 4 فیصد نوجوانوں کاکہناتھا کہ آن لائن تعلیم ملک کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 4 فیصد نوجوانوں کے مطابق بڑھتی ہوئی آبادی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سروے میں شامل 18 فیصد لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس نے یہ سروے اترپردیش، مہاراشٹر، بہار، مغربی بنگال، آندھرا پردیش، تلنگانہ، مدھیہ پردیش، تمل ناڈو، راجستھان، کرناٹک، گجرات، اڈیشہ، کیرالہ، جھارکھنڈ، آسام، پنجاب، چھتیس گڑھ اور دہلی میں 15 سے 34 سال کی عمر کے نوجوانوں کے درمیان کیا تھا۔ اس سروے میں نوجوانوں سے جب ملک کے سب سے بڑے مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے بے روزگاری کو سرفہرست رکھا۔
یہ تازہ صورتحال بتارہی ہے کہ بے روزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی جیسے محاذ پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مسلسل ناکام ہورہی ہے۔ جہاں تک روزگارکامعاملہ ہے، اس محاذ کو ملک کو سوائے دھوکہ کے اب تک کچھ نہیں ملا ہے۔2014میں پہلی بار حکومت سنبھالنے سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے اعلان کیاتھا کہ وہ ہر سال2کروڑ نوجوانوں کو نوکریاں فراہم کریں گے لیکن 10برس گزرنے کو آئے ہیں یہ وعدہ ایک جملہ ہی ثابت ہو١۔گزرتے دن کے ساتھ ساتھ بے روزگا ری کا مسئلہ ہولناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ بے روزگاری سے تنگ آکر نوجوان خودکشی کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔حال ہی میں جاری کردہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیوروکی رپورٹ کے مطابق 2014 کے بعد سے ہندوستانیوں کے ملازمت کرنے والے طبقہ میں خودکشی کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ خودکشی کے کل معاملات میں بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کی شرح25.6فیصد تک پہنچ گئی ہے۔سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی کے مطابق بے روزگاری کی شرح 8 فیصد کی بلندی تک پہنچ گئی ہے۔ 15سے 24 سال کی عمرکے نوجوانوں میں روزگار کی شرح 2017 میں 20.9 فیصد سے 2022 میں کم ہو کر 10.4 فیصد تک آپہنچی ہے۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کی جانب سے جاری اعداد وشمار کے مطابق عالمی سطح پر بے روزگاری6.47فیصدکے مقابلے ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح اب8فیصد تک پہنچ گئی ہے۔جب کہ بنگلہ دیش میں بے روزگاری 5.3فیصد، پاکستان میں 4.65 فیصد، سری لنکا میں 4.48 فیصد، نیپال میں 4.44فیصد اور بھوٹان میںفقط 3.74 فیصدہے۔
بے روزگاری اپنی ذات میں ملک کے شہریوں پر خود ظلم عظیم ہے، اس پر مستزادمہنگائی اور بدعنوانی جو ملک کے فاقہ کش نیم مردہ بے روزگاروں کی بوٹیاں نوچ رہی ہیں۔بے روزگاری کو ختم کرنا ریاست اور حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ ریاست کا اپنے رہنے والوں سے معاہدہ ہی اسی بات پر ہے کہ وہ ان کے جان و مال اور عزت کا تحفظ کرے گی اوراس کے بدلے حکومت کو نظم اجتماعی کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ آج کی دنیا میں جان و مال اور عزت ان تینوں کا دارومدار روزگار پررہ گیا ہے، اگر روزگار نہیں تو یہ تینوں نہیں۔ بے روزگاری اپنے ساتھ فاقہ کشی لے کر آتی ہے، جو دنیا کے تمام جرائم کی اور تمام برائیوں کی جڑ اورسب سے بڑی بیماری و لعنت ہے۔ یہ اپنے ساتھ جہالت، غربت، غیرمعاشرتی رویہ، بدتہذیبی، افراتفری اور عدم برداشت لاتی ہے جو معاشرہ میں امن و امان کو تہہ و بالا کرکے ابتری پھیلاتے ہیں۔ اگران برائیوں سے اور جرائم سے نجات کسی حکومت کا مقصد ہو تو وہ اپنے شہریوں کو روزگار فراہم کرے گی جنہیں روزگار نہیں دے پائے گی، ان کیلئے بے روزگاری بھتہ اور الائونس کا انتظام بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔لیکن ہندوستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، حکومت اپنے اختیارات کا استعمال عوام کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کے بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے کررہی ہے۔ عوام کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے، عوام کو نہ تو جان کی امان حاصل ہے اورنہ مال ہی، ان دونوں کے نہ ہونے کی وجہ سے عزت بھی دو کوڑی کی ہوکر رہ گئی ہے۔
لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس کے سروے میں شامل 36فیصد نوجونواں نے بجا طور پر جواب دیا ہے کہ ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ چاندتک رسائی کے باوجود اگر ہندوستان اپنے شہریوںکو بے روزگاری، مہنگائی اور بدعنوانی جیسے ہولناک عذاب سے نجات نہیںدلاسکتا تو پھر یہ کہنے میں کوئی باک نہیں، اس آباد خرابے میں کوئی خیر نہیں!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS