محمدجمیل اخترجلیلی ندوی
اس کارگہ حیات کاایک اہم اصول’عروج وزوال‘ ہے، ابتدائے آفرینش سے آپ تاریخ کامطالعہ کیجئے، کوئی عروج ایسانہیںنظرآئے گا، جس کوزوال نہ ہوا ہو، وجہ صاف ہے کہ دنیاکی ہرچیزفانی ہے، خواہ ہم اس کوکتناہی سمجھ لیںلاثانی، لیکن یہاںبقااوردوام کسی شئی کونہیں ہے، اگرہم قوموں کاتذکرہ کریں توقرآنی اطلاع کے مطابق کئی قومیں اسی اس دنیا میں آئیں، جوطاقت وقوت، شان وشوکت اور جسم وجثہ کے لحاظ سے اپنی نظیرآپ تھیں، روئے زمین پران کادبدبہ تھا، وہ پرشکون عمارتوں میں رہاکرتے تھے، لیکن ان کوبھی زوال آیااورایساآیا کہ بس اب وہ تاریخ کی زینت ہیں۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے ایسی سلطنت عطاکی تھی، جیسی نہ توان سے پہلے کبھی کسی کودی گئی اورنہ ہی ان کے بعدکسی کوعطا کی گئی، ان کی حکومت انسانوں اورحیوانوں سے لے کرہواؤں پرتھی، لیکن ان کی سلطنت کوبھی زوال آیا،نمرود، فرعون ، قارون، شداد آئے اورانھوں نے انا ربکم الأعلیٰ‘(میںتمہارا سب سے بڑا رب ہوں) کا نعرہ لگایا، ظلم وستم کی بھٹی کوشعلہ زن کرکے اس میں ہزارہا ہزارافراد کوراکھ بنادیا، لیکن پھرانھیں بھی زوال آیا،مشرق سے مغرب تک حکومت کرنے والے حاکم آئے، داراآیا، سکندرآیا، لیکن انھیں زوال کامنھ دیکھنا پڑا۔ نبی کریمؐ کی بعثت کے وقت دوقوتیں سپرپاورکہلاتی تھیں، ایک روم اوردوسری ایران، ساری دنیاپراس وقت ان کاطنطنہ تھا، ان کی طرف نگاہ اٹھاکردیکھنے کی کوئی جرأت نہیں کرتا تھا،لیکن انھیں بھی زوال آیا، پھراگرغورکیاجائے توزوال کے ’’اہم اسباب‘‘: ظلم وزیادتی، ناانصافی وحق تلفی، عیش وعشرت اورغروروتکبرنظرآئیںگے، جسے بھی عروج حاصل ہوا، اس نے ان اوصاف کواختیارکرلیا، رفتہ رفتہ اس کی بنیادیںکھوکھلی ہوتی چلی گئی، پھرایک دن ڈھ گئی، کیونکہ یہ وہ صفتیں ہیں، جواللہ تعالیٰ کوللکارنے، اس کوبھلانے اوراس کی غیرت کوچوٹ پہنچانے والی ہیں، جس کانتیجہ ’’زوال ‘‘ہے، اس تعلق سے نبی کریمؐ نے بھی بڑی اہم بات کہی ہے، یہ بات اس وقت کہی، جب ایک اعرابی اونٹ پرسوار ہوکرآیااوراس نے نبی کریم ؐکی اونٹنی’’العضباء‘‘ سے مسابقہ جیت گیا؛ حالانکہ اب تک کوئی اونٹ رسول اللہ ؐکے العضباء سے مسابقہ نہیں جیت سکتاتھا؛ چنانچہ یہ مسلمانوں پر گراں گزرا کہ ایک اعرابی کااونٹ کیسے رسول اللہ ؐ کے ’’العضباء‘‘ سے آگے بڑھ گیا؟ جب رسول اللہؐ نے اپنے اصحاب کی اس کیفیت کودیکھا تو ارشاد فرمایا: حق علی اللہ أن لایرتفع شئیٔ من الدنیا؛ إلاوضعہ اللہ(صحیح البخاری، حدیث نمبر:2872 ) ’اللہ کویہ حق ہے کہ دنیامیں جوبھی چیزبلندی کوپہنچے، اسے وہ گرادے‘، یعنی اللہ تعالیٰ، جواس کائنات کا خالق ومالک ہے، اس کااصول ہے کہ جب بھی کوئی چیز ایسی رفعت کواختیارکرے، جس میں کبرکاعمل دخل ہو، تووہ اسے اپنی قدرت کانمونہ دکھا کریہ جتادیتا ہے کہ تمہارے اندرجوبھی قابلیت اورصلاحیت ہے، وہ ذاتی نہیںہے، وہ عطائی ہے، لہٰذا اترانے کی ضرورت نہیں۔
نبی کریمؐ کی بعثت کے بعدجوحالات پیش آئے، اس پرغورکیا جاسکتا ہے؛ بلکہ ہمیں غورکرناچاہئے، خودنبی کریم ؐکوکس طرح اورکتنازیادہ ستایاگیا،پھرآپ کے اصحاب پرجوجور وجفاکئے گئے، وہ تاریخ کے اوراق میں مذکورہیں، حتی کہ جب تابِ ضبط نہ رہاتومدینہ ہجرت کرگئے، ظالموں نے وہاں بھی چین کی سانس نہیں لینے دیا، یہ ظالمین کادورعروج تھا، پھرآسمان نے دیکھاکہ آٹھ ہجری میں وہی مکہ زیرنگیںآگیا، جہاںسے نکلنے پرمجبورہوناپڑا تھا، یہ ظالمین کازوال تھا۔
تاتاری کاعروج وہ تھا، جب اس قوم کا ایک بچہ سیکڑوں کی گردن اڑادیتا تھا، لیکن زوال آیا، ہمارے ملک میں انگریزوں کابھی دورعروج رہا ہے، لیکن پھرایک وقت ایساآیا، جب انھیں بوریابسترسمیٹ کریہاں سے جانا پڑا، یہی عروج وزوال کی کہانی اسلامی سلطنتوں کے ساتھ بھی لگی ہوئی ہے، ایک زمانہ تھا، جب عثمانی سلطنت کاڈنکاچہاردانگ عالم میں بجتا تھا، پھراس ڈنکے کی آواز بندہوگئی، ملک ہندوستان میں آٹھ سوسال ان کی حکومت رہی، پھرانھیں بھی زوال آیا، تویہ عروج وزوال ہرایک کے ساتھ لگا ہواہے، لہٰذا ہمیں ملک کے موجودہ حالات اورموجودہ حکومت سے ہرگزہرگز گھبرانا نہیں چاہئے، یہ اس کادورعروج ہے؛ لیکن ایک دن اسے بھی زوال آئے گا۔
چندسال پہلے تک افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی، کیاکوئی کہہ سکتا تھاکہ یہاںکبھی دوبارہ ان لوگوں کی حکومت بحال ہوسکے گی، جن کایہ ملک ہے؟ لیکن دنیا نے دیکھا کہ ان کی حکومت بنی اوردنیانے اسے تسلیم کیا، یہ عروج وزوال کی زندہ مثال ہے، لیکن ہاں اس میں وقت لگ سکتا ہے، فی الفور عروج کاسفرنہ زوال کی طرف جاتا ہے اورنہ زوال عروج میں بدلتا ہے، تاہم انسان کواپنے اپنے حصہ کاکام کرتے رہنا چاہئے، تھک کربیٹھنا نہیں چاہئے۔
اس وقت پوری دنیاکی نظرملک شام پرہے، جہاںاب تک بشارالاسدکی حکومت تھی، ان کے ہاتھوں میں تقریباً 50 سال تک حکومت رہی، اپنے دورعروج میں انھوں نے کیا کیا گل نہیں کھلائے؟ کتنے ایسے صعوبت خانے بنوائے، جہاںبے گناہوں کوبھی ایسی سزادی گئی، جیسی سزا گنہگارکوبھی نہیں دی جاتی، گوانتاناموبے کاقیدخانہ بدنام زمانہ تھا، جہاںنئی دنیاکے لوگوں نے نئی نئی اورگھناؤنی گھناؤنی سزائیںقیدیوں کودیں، لیکن بشاری قیدخانے اس سے سوقدم آگے نکل گئے، اتنے آگے کہ سوچ کرہی روح تک کانپ اٹھتی ہے، وہ کیسے جیالے ہوں گے، جنھوں نے ایسی مصیبتوں کوجھیلا؟!لیکن یہ سب اس وقت باتیں ہیں، جب بشارکادورعروج تھا، آج پچاس سالوں بعداس کازوال ہوچکا ہے، عروج وزوال کی یہ کہانیاں ہمیںدرس دیتی ہیںکہ :
بڑے بڑوں کی طرح داریاں نہیں چلتیں
عروج تیری خبر جب زوال لیتا ہے
اس وقت دنیاکے اندرجتنی حکومتیںہیں، جواپنی رعایاپرظلم وستم برپاکئے ہوئی ہیں، حق بولنے والے کوپس دیوارزنداںکررکھی ہیں، جوعیش وعشرت میں ڈوبی ہوئی ہیں، جن کے غرورکاتسمہ ہواکے دوش پراڑرہا ہے، انھیںسبق لیناچاہئے اوریہ یادرکھناچاہئے کہ یہ حکومت وسلطنت ہمیشہ ہمیش کے لئے نہیں ہے، ایک دن ختم ہوکررہے گی،رات آتی ہے، گزارجاتی ہے، اندھیراچھاتا ہے، پھراجالاہوجاتا ہے، شام آتی ہے، پھرسحرہوجاتی ہے، ایسی کوئی شام نہیں، جس کی سحرنہ ہو، لہٰذا غرور وگھمنڈ ، حقی تلفی وناانصافی، ظلم وزیادتی اورعیش وعشرت کی بجائے فروتنی، حقوق کی ادائے گی اور عدل وانصاف سے کام لیناچاہئے، جب تک اس طرح کی صفات کواپنایاجاتا رہے گا، اس وقت تک زوال نہیں آئے گا، جیسے ہی ان صفات سے منھ موڑا جائے گا، زوال کاآغاز ہوجائے گا، یہی تاریخ بتاتی ہے اوریہی حال کامشاہدہ بھی ہے۔