چندر بھوشن
کیا ہم زمین کے سائز والے ایک علیحدہ ٹائیٹنک جہاز پر سوار ہیں جو سمندر کے بیچ میں گلوبل وارمنگ نام کے پہاڑ سے ٹکرا چکا ہے اور اب اس کا ڈوبنا ہی باقی رہ گیا ہے؟ کیا اس جہاز کا انتظام دیکھنے والے حکمراں سیاستداں، کاروباری اور افسران مسئلہ کی نفی کرنے اور لمبی لمبی چھوڑتے ہوئے بغلیں جھانکنے کے سوائے اور کچھ نہیں کرسکتے؟ ماحولیاتی تبدیلی کا حساب لگانے والی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم انٹرگورنمنٹل پینل آن کلائمیٹ چینج(آئی پی سی سی) کی حالیہ رپورٹ دیکھیں تو بات کچھ ایسی ہی لگ رہی ہے۔
آئی پی سی سی کے تین ورکنگ گروپ اس سلسلہ میں 2016سے کام کررہے ہیں۔ ان میں پہلے ورکنگ گروپ کی 22,000ورلڈ وائڈ اسٹڈی کی بنیاد پر کہنا ہے کہ ماحولیات میں جو تبدیلیاں ہم دیکھ رہے ہیں، انہیں اب پلٹا نہیں جاسکتا، صرف ان کی رفتار کم کی جاسکتی ہے۔ یہ تبدیلیاں کیا ہیں؟ آرکٹک سمندر کی برف ابھی گزشتہ 1000برسوں کی نچلی سطح پر ہے۔ کچھ وقت پہلے آئے ایک مطالعہ سے معلوم ہوا تھا کہ وسطی سائبیریا سے ملحق آرکٹک کے حصے کارا سمندر میں سال کا زیادہ حصہ بغیر برف کا ہوجانے کے سبب ہندوستان میں ربیع کی بوائی سے ٹھیک پہلے بارش زیادہ ہونے لگی ہے۔ اس سے گیہوں-جو، چنا-مٹر اور سرسوں کی پیداوار کم ہوتی ہے۔
گلیشیروں کے سکڑنے کی رفتار گزشتہ 2000 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اس کا دیسی پہلو یہ ہے کہ گومکھ گلیشیر(گنگوتری کا ماخذ) کا سکڑنا موجودہ صدی کے ہی کسی سال میں گنگا کو ایک برساتی ندی بنادے گا۔ سمندری سطح گزشتہ 100برسوں میں جتنی اوپر جاچکی ہے، اتنی یہ گزشتہ 3000برسوں میں نہیں گئی تھی۔ اس سے ساحلی علاقوں کے ڈوب جانے کے واقعات 1960کی دہائی سے دوگنے ہوگئے ہیں۔ ہمارے یہاں یہ آفت سندربن کے ویران ہونے میں نظر آرہی ہے۔ اگلی دہائی میں شاید وہاں کوئی مقامی بستی نظر نہ آئے۔
دنیا کو انتظار ہے 2035 تک فیوزن انرجی کی پیداوار کا، جس کے لیے انٹرنیشنل تھرمونیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ریئیکٹر(ایٹیر) کا بیسک انفرااسٹرکچر 2020 میں کھڑا ہوا اور 2024 میں یہ بن کر تیار ہوجائے گا۔ ۔۔۔تو کاربن اخراج میں 2050 تک تیکھی کٹوتی ناممکن نہیں ہے۔ اگلا کام ہر سال اربوں پیڑ لگانے اور کیمیائی طریقوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا ہے۔ بائیڈن حکومت فی ٹن کاربن ری سائیکلنگ پر 85 ڈالر سبسڈی دے رہی ہے۔ باقی حکومتوں کو بھی دینا چاہیے۔
ایسے میں ایک ہی سوال باقی ہے کہ جلد سے جلد کیا کیا جاسکتا ہے۔ حکومتوں کا کام گال بجانے کا ہے، وہ بجاتی رہیں گی۔ گلوبل وارمنگ روکنے کے نام پر کوئی ووٹ نہیں دیتا۔ کچھ کرنے نکلیں تو کاروباریوں کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے، پارٹی کی فنڈنگ کم ہوسکتی ہے۔ کسی نے خرچ بڑھ جانے کی دلیل دے کر فیکٹری بند کردی تو بے روزگاری بڑھانے کا الزام لگے گا، الیکشن میں ہار پکی ہوجائے گی۔ تو ہوتا یہ ہے کہ ماحولیات اور وائلڈ لائف ریزرو میں مصروف محکموں کو کنارے لے جاکر بتادیا جاتا ہے کہ کسی پروجیکٹ میں رکاوٹ تو وہ ڈالیں نہیں۔ ووٹ ملتے ہیں شہروں کا دائرہ وسیع کرنے، سڑک، ریلوے اور بندرگاہ بنوانے سے۔ ٹرک چلتے ہیں، نئی کاریں نکلتی ہیں، کارخانے خوب دھواں چھوڑتے ہیں تو ترقی نظر آتی ہے۔
یہ ٹائیٹنک مینجمنٹ ہے۔ اس کا کچھ کیا نہیں جاسکتا۔ لیکن آئی پی سی سی کی رپورٹ اس پر بالکل واضح ہے۔ صدی گزر جانے تک دنیا کا اوسط درجہ حرارت 1850کے مقابلہ میں ڈیڑھ ڈگری یا اس سے کم بڑھا تو کچھ امید ہے، دو ڈگری بڑھ گیا تو کوئی امید نہیں ہے۔ کچھ آزاد رپورٹوں کے مطابق درجہ حرارت میں اضافہ کو ڈیڑھ ڈگری تک سمیٹ پانے کی اب کوئی بات ہی نہیں رہ گئی ہے۔ اسے 2ڈگری سے نیچے رکھنے کے ہی طریقے سوچے جائیں۔ لیکن آئی پی سی سی 195حکومتوں کے ذریعہ بنائی گئی ایک سرکاری تنظیم ہے۔ ناامیدی پھیلانے کے لیے اس کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔ اس کا صاف کہنا ہے-2050 تک نیٹ کاربن اخراج صفر پر لائیں۔ نیٹ اخراج یعنی تھوڑی بہت کاربن ڈائی آکسائیڈ نکلے بھی تو اسے جذب کرنے کی کوشش کریں۔
اقتدار اور منافع کے لالچ سے مجبور حکومتوں اور کاروباریوں سے اس سلسلہ میں کوئی امید کرنا بیکار ہے۔ کوئی حسن اتفاق ہو کہ کاربن اخراج کم کرنے سے منافع بڑھ جائے جیسے سولر پاور پلانٹ لگانا ابھی منافع کا کاروبار بن گیا ہے، یا لوگ اتنے پریشان ہوجائیں کہ ذات، مذہب اور باقی بکواسوں کے بجائے دھواں کم کرنے اور جنگل میں اضافہ کے لیے ووٹ دینے لگیں تو حکومتیں اور کاروباری بھی گلوبل وارمنگ روکنے کا ایجنڈا اپنا لیں گے۔ لیکن اس سلسلہ میں ایک ہی اچھی بات گزشتہ بیس برسوں میں ہوئی ہے کہ کاربن کے اخراج کا متبادل کھڑا کرنے والی تکنیکیں کافی مضبوط اور سستی ہوئی ہیں۔ ان کا کچھ اثر بھی نظر آنے لگا ہے اور امید ہے کہ اگلی دہائی کے وسط تک ہم ان کے چمتکار دیکھیں گے۔
ایسی تکنیکوں میں شمسی، ہوا اور جوار توانائی (ٹائیڈل انرجی) پر روزانہ کچھ نہ کچھ نیا کام پڑھنے کو ملتا ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں جنوبی دیہی علاقوں میں کالی چھتوں والے علاقے نظر آنے لگے ہیں۔ یہ چھتیں ایسے سولر پینلوں سے بنی ہیں جو سورج کی روشنی کو 20فیصد تک بجلی میں بدل دیتے ہیں اور ایک مرتبہ لگادینے پر 20سال کام کرتے رہتے ہیں۔ برطانیہ اور چین کے شمال-مشرقی چھچھلے سمندروں(کم گہرائی والے سمندر) میں ونڈ پاور اور جوار توانائی(ٹائیڈل انرجی) سے منسلک تکنیکوں کے نتائج کافی اچھے آرہے ہیں۔ دوچار سال میں نہ صرف یہاں بلکہ ان کے پڑوسی علاقوں میں بھی بجلی کے لیے کوئلہ یا گیس جلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
کاروباری نقطہ نظر سے سب سے بڑا کام نظر آرہا ہے بیٹری سے چلنے والے ٹرکوں اور کاروں میں، جن پر ابھی ٹیسلا کی اجارہ داری ہے۔ اس کے مالک ایلان مسک ہائیڈروجن فیول کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لیکن سمندری پانی اور شمسی توانائی سے بننے والی گرین ہائیڈروجن اب بازار میں آنے ہی والی ہے۔ اس کی مقدار میں اضافہ ہوتے ہی مذاق خود مسک پر آئے گا۔ دنیا کو انتظار ہے 2035تک فیوزن انرجی کی پیداوار کا، جس کے لیے انٹرنیشنل تھرمونیوکلیئر ایکسپیریمینٹل ریئیکٹر(ایٹیر) کا بیسک انفرااسٹرکچر 2020میں کھڑا ہوا اور 2024میں یہ بن کر تیار ہوجائے گا۔
تو کاربن اخراج میں 2050تک تیکھی کٹوتی ناممکن نہیں ہے۔ اگلا کام ہر سال اربوں پیڑ لگانے اور کیمیائی طریقوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کا ہے۔ بائیڈن حکومت فی ٹن کاربن ری سائیکلنگ پر 85ڈالر سبسڈی دے رہی ہے۔ باقی حکومتوں کو بھی دینا چاہیے۔
(بشکریہ: نوبھارت ٹائمس)