پھر چرچاؤں میں پیگاسس جاسوسی معاملہ

0

عباس دھالیوال

جاسوسی کرنا یا کروانا کوئی نیا چلن نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح سے صدیوں پرانی روایت ہے۔ مختلف حکومتوں کے رہنما مخالفین کی جاسوسی کرانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ جن لوگوں نے جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، اس حقیقت سے وہ ضرور واقف ہوں گے کہ جنگ کی اسٹرٹیجی بنانے کے لیے جاسوسی بھی ایک کردار ادا کرتی ہے۔ زمانہ قدیم میں جاسوسی کے طور طریقے بھی پرانے تھے۔ بچپن میں تقریباً ہم سبھی لوگ جاسوسی والے ناولوں کو نہایت دلچسپی و شوق سے پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح جاسوسی و تجسس سے بھری فلموں کو بھی بے حد دلچسپی سے دیکھا کرتے تھے۔ جیسے جیسے وقت بدلتا جا رہا ہے ویسے ویسے زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلیاں آتی جا رہی ہیں۔ آج جس عہد میں ہم لوگ جی رہے ہیں، اسے ٹیکنالوجی کا ایک سنہری دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ انٹرنیٹ نے پوری دنیا کو آج ایک گاؤں کی شکل میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ آج انٹرنیٹ زندگی کے ہر شعبے میں گھس پیٹھ کیے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ آج پوری دنیا کو انٹرنیٹ نے اپنے دائرۂ اثر میں لے رکھا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
رواں سال جس جاسوسی ایجنسی کی چرچائیں زوروں پر رہیں، اس کا نام پیگاسس ہے۔ پیگاسس کو اسرائیل کی سائبر حفاظتی کمپنی این ایس او کی جانب سے تیار کیا گیا ہے۔ اس سے قبل بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک کے پیگاسس اسپائی ویئر خریدنے کی خبریں آتی رہی ہیں۔ پیگاسس پہلے مختلف تنازعات میں گھری رہی۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق، میکسیکو سے لے کر سعودی عرب کی حکومتوں پر اس کے استعمال کو لے کر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ دریں اثنا واٹس ایپ اور فیس بک سمیت کئی دیگر کمپنیوں کے بھی مذکورہ جاسوسی کمپنی پر مقدمے درج کیے جانے کی خبریں وقتاً فوقتاً آ تی رہی ہیں۔ پیگاسس کی تعریف اس طرح کر سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسا پروگرام ہے جس کو اگر اسمارٹ فون میں ڈال دیا جائے تو کوئی ہیکر اس سمارٹ فون کے مائیکروفون، کیمرا، آڈیو اور ٹیکسٹ پیغامات، ای میل اور لوکیشن تک کی معلومات حاصل کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ اس سال جولائی میں ایک بین الاقوامی کنسورشیئم نے اپنی تحقیقات میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی کمپنی این ایس او گروپ کے پیگاسس سافٹ وئیر کے ذریعے بھارت کے تین سو سے زائد موبائل فون نمبرس کو ٹارگیٹ کیا گیا جن میں 40 سے زائد صحافی، مودی حکومت کے دو وزرا، اپوزیشن رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، وکلا اور کئی بزنس مین شامل ہیں۔ چنانچہ اس کولے کر جولائی میں ہی سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی اس معاملے میں 30 جولائی کو سماعت کرتے ہوئے عدالت نے پٹیشنرز کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل کے دلائل کو تسلیم کیا اور اس پر سماعت پر رضامندی ظاہر کی تھی، جس کے نتیجے میں عدالت نے حکومت کو نوٹس جاری کرکے ہدایت دی تھی کہ وہ حلف نامہ داخل کرکے اپنا موقف واضح کرے اور یہ بتائے کہ اس نے جاسوسی کروائی ہے یا نہیں۔ اس پر حکومت نے ایک مختصر مگر مبہم حلف نامہ داخل کیا تھا،جبکہ حکومت نے مذکورہ الزامات کی تردید کی اور کہا کہ اس سلسلے میں کوئی پختہ ثبوت نہیں ہیں اور ساتھ ہی اس نے اسے ایک سنسنی خیز معاملہ قرار دیا تھا اور کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی جمہوریت اور اس کے موقر اداروں کو بدنام کرنے کے لیے یہ الزام لگایا گیا ہے۔
ادھر اس سے جڑے این ایس او گروپ نے بھی جاسوسی کے الزام کی تردید کی اور کہا کہ یہ رپورٹ غلط تصورات پر مبنی ہے اور اس کے ذرائع کے بارے میں سنگین شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم اس نے اس کا اعتراف کیا تھا کہ پیگاسس اس کی ملکیت ہے اور اس کا استعمال فون ہیک کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسے صرف حکومت اور حکومتی اداروں کو ہی فروخت کرتا ہے۔ وہ کسی پرائیویٹ ادارے یا انفرادی شخص کو یہ سافٹ وئیر فروخت نہیں کرتا۔ گزشتہ دنوں مذکورہ معاملہ کہ ضمن میں سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا کہ جب شہریوں کے آئینی حقوق داؤ پر لگے ہوں تو حکومت قومی سلامتی کی خلاف ورزی کے نام پر ’فری پاس‘ حاصل نہیں کر سکتی۔ اس ضمن میں چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے کہا کہ حکومت قومی سلامتی کے نام پر عدالت کو اس معاملے کی جانچ سے نہیں روک سکتی۔ جج نے کہا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے، کیونکہ اس میں غیر ملکی ایجنسی کے ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔ عدالت نے اس معاملے کی جانچ کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج آر وی رویندرن کی قیادت میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ کمیٹی میں تین تکنیکی ماہرین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ عدالت نے کمیٹی کو اپنی رپورٹ دینے کے لیے دو ماہ کا وقت دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ پیگاسس معاملے میں 12 پٹیشنز پر سماعت کر رہی تھی۔ پٹیشن داخل کرنے والوں میں ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا، سینئر صحافی این رام، سابق وزیر مالیات یشونت سنہا اور سینئر صحافی پرنجے گہا ٹھاکر شامل ہیں۔عدالت نے ’پرائیویسی اور ٹیکنالوجی‘دونوں کی اہمیت کا ذکر کیا اور کہا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال عوامی زندگی کو بہتر بنانے اور اس کے ساتھ ہی پرائیویسی میں دخل اندازی کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اطلاعات کی فراہمی اور شہریوں کی پرائیویسی کے حق میں توازن برقرار رہنا چاہیے۔چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ حکومت نے جاسوسی کے الزام میں اپنی پوزیشن صاف نہیں کی ہے اور اس نے انتہائی مختصر حلف نامہ داخل کیا، حالانکہ اس کو اس کے لیے کئی مواقع دیے گئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کو روکنے سے کبھی پرہیز نہیں کیا۔ پرائیویسی کا حق صرف صحافیوں اور سیاست دانوں کا نہیں بلکہ عام شہریوں کا بھی ہے۔ عدالت کے مطابق صحافیوں کا تحفظ بھی ضروری ہے۔ ادھر اپوزیشن جماعت کانگریس نے اس معاملے کی جانچ کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ عدالت نے قومی سلامتی کے نام پر حکومت کا خود کو بچانے اور اس معاملے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ اس ضمن میں کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے ایک ٹوئٹ میں الزام عائد کیا کہ فسطائی طاقتیں نقلی قوم پرستی میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہیں۔
دوسری طرف انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سابق ڈائریکٹر آکار پٹیل کا بیان ایک نیوز رپورٹ میں کوڈ کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ عدالت کمیٹی بنانے کے بجائے حکومت سے پوچھتی کہ وہ یہ بتائے کہ اس نے پیگاسس سافٹ ویئر کے ذریعے سویلین، صحافیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کی جاسوسی کی ہے یا نہیں۔ وہ ہاں یا نہیں میں جواب دے۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے جب سپریم کورٹ نے حکومت کو اس بارے میں حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی تھی تو حکومت نے حلف نامہ داخل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے مطابق سپریم کورٹ کو اسی وقت حکومت کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس دینا چاہیے تھا اور حکومت کو مجبور کرنا چاہیے تھا کہ وہ بتائے کہ اس نے جاسوسی کی ہے یا نہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی سوال کھڑا کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی جانچ کے لیے ایک کمیٹی بنا دی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت نے چیف جسٹس آف انڈیا کو جس کے بارے میں نہیں بتایا تو وہ کمیٹی کو کیسے بتائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو کمیٹی بنائی ہے اس سے ان کو کسی نتیجے تک پہنچنے کی امید نہیں ہے۔کل ملا کر پیگاسس معاملے میں چلنے والی جانچ کے حوالے سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ:
بہت کٹھِن ہے ڈَگر پنگھٹ کی..
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS