کالادھن پھر سرخیوں میں ہے۔ سوئس بینکوں میں جمع ملک کا سارا کالا دھن واپس تو نہیں آ سکا، اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کے جمع کالا دھن میں کمی آرہی تھی اور 2019تک یہ رقم 89.9 کروڑ سوئس فرینک یعنی 6,625 کروڑ روپے رہ گئی تھی مگر 2020 میں اس میں اچانک اضافہ ہوگیا، یہ رقم پچھے سال کے اختتام تک بڑھ کر 2.55 ارب سوئس فرینک یعنی 20,700کروڑ روپے ہو گئی۔ کالا دھن میں اس حیرت انگیز اضافے کی وجہ کیا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو ملک کو کھوکھلا کر کے سوئس بینکوں کو مالا مال کر رہے ہیں؟ وہ لوگ جو خود کو راشٹر بھکت کہتے ہیں، وہ لوگ جو بات بات پر لوگوں سے راشٹربھکتی کے سرٹیفکیٹ مانگنے لگتے ہیں، وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ ملک مستحکم بنے، وہ اس ایشو پر خاموش کیوں ہیں؟ 20,700 کروڑ روپے اگر ملک کے پاس ہوتے، یہ روپے اگر ملک کے ان 46.2 فیصد لوگوں میں بانٹ دیے جاتے جن کی روزانہ کی آمدنی 3.20 ڈالر نہیں ہے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والے ہندوستانیوں کے حالات میں کیسی مثبت تبدیلی آتی مگر اس ملک میں ’کالادھن کی واپسی‘ نعروں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ سوئس بینکوں میں کالا دھن جمع کرنے والے لوگ ’کالا دھن ختم کرنے‘ کا نعرہ لگانے والے لیڈروں سے زیادہ ہوشیار ہیں، ورنہ اس دور میں کالا دھن میں اضافہ کی وجہ کیا ہو سکتی ہے، یہ جاننا ضروری ہے۔ اسی 2020 میں ہندوستان کے 23 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے چلے گئے اور اسی 2020 میں کالادھن 6,625 کروڑ روپے سے 20,700 کروڑ روپے ہوگیا تو یہ کوئی عام بات نہیں کہ اسے نظرانداز کر دیا جائے۔
2007 کے بعد کے 13 سال میں 2020 میں کالا دھن میں سب سے زیادہ اضافہ واقعی باعث تشویش ہے۔ کانگریس کے ترجمان گورو ولبھ نے سوال کیا ہے کہ ’یہ کون لوگ ہیں جو ’’آفت میں موقع‘‘ تلاش کر رہے ہیں؟‘ جبکہ کانگریس نے مانگ کی ہے کہ ’سرکار قرطاس ابیض جاری کر کے ملک کے شہریوں کو بتائے کہ یہ پیسہ کن کا ہے اور غیر ملکی بینکوں میں جمع کالے دھن کو واپس لانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟‘ سرکار کو اس سلسلے میں اطمینان بخش جواب دینا چاہیے۔ مودی حکومت کو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ کانگریس کے خلاف ماحول بنانے میں مہنگائی اور بدعنوانی کے علاوہ بیرونی بینکوں میں جمع ہونے والے کالا دھن نے بھی اہم رول ادا کیا تھا، لوگوں کو یہ امید بندھی تھی کہ بی جے پی سربراہی والے اتحاد کی حکومت بن جانے کے بعد ملک کا روپیہ ملک کے پاس آجائے گا مگر حالات برعکس نظر آ رہے ہیں، اس سے لوگوں کی سوچ کیا بنے گی، یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اور اس کے اثرات چند مہینوں بعد ہونے والے انتخابات پر کیا پڑیں گے، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں ہے۔
سوئس بینکوں میں دیگر ملکوں کے مقابلے ہندوستان کے لوگوں کی جمع رقم کا جہاں سوال ہے، تو یہ بہت کم ہے۔ 2019 میں مختلف ملکوں کے لوگوں کی سوئس بینکوں میں جمع رقم میں ہندوستانیوں کی جمع رقم 0.06 فیصد ہی تھی اور جمع رقم کی مناسبت سے ہندوستان 77 ویں نمبر پر تھا۔ 2018 میں وہ 74 ویں نمبر پر تھا۔ 2019 میں برطانیہ پہلے نمبر پر تھا اور 2020 میں بھی وہی نمبر ون تھا۔ 2020 میں اپنا ملک 51 ویں نمبر پر آگیا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ مختلف ملکوں کے لوگوں کا کالادھن جمع کرنے کی سوئس بینکوں کی یہ کون سی پالیسی ہے، یہ دنیا کو کس سمت لے جانے والی پالیسی ہے؟ یوں تو مغربی ممالک دنیا بھر کے ملکوں کو انسانیت کا پاٹھ پڑھاتے رہتے ہیں، بدعنوانی کو غلط مانتے ہیں، ایمانداری کو صحیح مانتے ہیں مگر کالادھن جمع کرکے سوئس بینک انسانیت کی کون سی خدمت کر رہے ہیں؟ کیا یہ بات معلوم نہیں کہ کالادھن کسی ملک کو کھوکھلا کرنے میں کیسا رول ادا کرتا ہے؟ اب وقت آگیا ہے کہ بات صرف یہ نہ کی جائے کہ اپنے ملک کا کتنا کالا دھن سوئس بینکوں میں جمع ہے، بات یہ بھی کی جائے کہ سوئس بینک یہ رقم کیوں جمع کرتے ہیں، اس طرح دنیا سے بدعنوانی کیسے ختم ہوگی اور بدعنوانی ختم کیے بغیر مفلسی کیسے ختم ہوگی اور مفلسی ختم کیے بغیر انسانوں کے تحفظ کی بات نہیں کی جا سکتی، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے،یہ عالمی برادری جانتی ہے۔
[email protected]
پھر سرخیوں میں کالا دھن
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS