سال بھر کے بند سے کشمیری اقتصادیت کو چالیس ہزار کروڑ کا نقصان،پانچ لاکھ نوکریاں چلی گئیں

    0

    سرینگر:صریرخالد، ایس این بی
    گذشتہ سال 5اگست کو دفعہ  370اور جموں کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرکے اسے دو یونین ٹریٹریز میں تقسیم کردینے اور پھر کووِڈ19- کے بعد کے حالات میں سابق ریاست،باالخصوص وادیٔ کشمیر،کو بھاری اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (کے سی سی آئی) کی جانب سے لگائے گئے ایک سرسری اندازے کے مطابق یہاں کے کاروبار کو زائد از چالیس ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے جبکہ قریب پانچ لاکھ لوگوں کی نوکری چھِن گئی ہے۔
    حالانکہ کووِڈ19-   کی وجہ سے ہندوستان بھر میں کئی مہینوں تک لاک ڈاون رہا تاہم وادیٔ کشمیر میں مجموعی طور ایک سال سے زائد عرصۃ سے لاک ڈاون جاری ہے۔5 اگست  2019 کو مرکزی سرکار کی مہم جوئی کے وقت وادیٔ کشمیر میں مہینوں کرفیو اور پھر احتجاجی ہڑتال رہی اور پھر جب مہینوں کے بعد معمولاتِ زندگی دھیرے دھیرے بحال ہونے ہی والی تھیں کہ کووِڈ19- کی وجہ سے لاک ڈاون ہوگیا جو ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوسکا ہے۔ کے سی سی آئی اس ایک سال کے دوران کشمیر میں مختلف شعبوں کو پہنچے نقصان کا تخمینہ لگانے میں مصروف ہے اور اسکا ابھی تک کا مشاہدہ چونکا دینے والا ہے۔
    چیمبر کے صدر عاشق شیخ کے مطابق ابھی تک کے اندازے میں انہوں نے پایا ہے کہ ٹرانسپورٹ،تعلیم،تجارت اور دیگر اہم شعبوں کو زائد از چالیس ہزار کروڑ روپے کی مالیت کا نقصان پہنچا ہے اور اس دوران قریب پانچ لاکھ افراد روزگار سے گئے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ سیاحت اور دستکاری کے شعبہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔واضح رہے کہ سیاحتی شعبہ پوری طرح ٹھپ پڑا ہے جسکی وجہ سے ہوٹل وغیرہ پوری طرح خالی ہیں اور اس سے منسلک دستکاری شعبہ غیر متعلق سا ہوکے رہ گیا ہے۔قابلِ ذکر ہے کہ کشمیر کے دستکاری شعبہ کا بڑی حد تک سیاحتی صنعت پر انحصار ہے ۔
    کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ ایک ’’ریسرچ بیسڈ رپورٹ‘‘ مرتب کر رہے ہیں جسے نہ صرف عوام کے سامنے لایا جائے گا بلکہ اسے باضابطہ طور امداد کی درخواست کے ساتھ مرکزی سرکار کو بھی روانہ کیا جائے گا۔ چیمبر کے صدر کا کہنا ہے ’’جب تک سرکار امداد لیکر سامنے نہ آٗے یہاں کے بازار کا بحال ہونا مشکل ہے۔ہم جلد ہی ایک مفصل رپورٹ مرکز کو پیش کرنے والے ہیں تاکہ مشکل حالات سے گذر رہے تاجروں کی مالی امداد کی کوشش ہو‘‘۔
    لالچوک میں ایک دکاندار نے اس بارے میں بتایا ’’میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ مجموعی طور کتنے ہزار یا لاکھ کروڑ کا نقصان ہوا ہے لیکن اتنا وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں خود ایک سال سے بےکار ہوں اور تباہ حال ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی دکان بیچنے تک کی سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’میرے یہاں پانچ لڑکے (سیلز مین) کام کرتے تھے لیکن اب جب میں اپنا گھر چلانے میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہوں انکی تنخواہ کہاں سے لاؤں گا،میں نے ان سبھی کی چھٹی کردی ہے‘‘۔ انکے ایک ساتھی دکاندار بشیر احمد نے بتایا ’’جب تک سرکار کوئی بڑا اقتصادی پیکیج لیکر سامنے نہیں آئے گی ہمارے حالات نہیں بدل سکتے ہیں‘‘۔

     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS