قدرت کا قہر اور سبق

0

اتُل کنک

جاتے مانسون نے اس مرتبہ کیرالہ اور اتراکھنڈ سمیت کئی مقامات پر جس طرح کی شدت دکھائی، اس نے عام لوگوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ یہ قدرت کا محض قہر تھا یا قیامت کے امکانات کی آہٹ؟ اتراکھنڈ اور کیرالہ جغرافیائی نقطہ نظر سے ہندوستان کی سرزمین کی دو مخالف سمتوں میں واقع ہیں۔ اگر باہمی طور پر اتنی دور واقع دو ریاستوں میں بارش افراتفری مچاتی ہے، وہ بھی آدھا اکتوبر گزر جانے کے بعد، تو یہ سوچنے پر مجبور ہونا ہی پڑے گا کہ کہیں آب و ہوا میں ایسی تبدیلیاں تو نہیں ہورہی ہیں جو آنے والے وقت میں عام لوگوں کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکل حالات پیدا کردیں؟ اس خدشہ کو اس لیے بھی تقویت ملنے لگی ہے کیوں کہ اعداد و شمار کی نظر سے پورے موسم میں جتنی بارش ہوئی ہے، اسے ہندوستانی جزیرہ نما کے لیے غیرآرام دہ یا غیرمعمولی نہیں کہا جاسکتا۔
کلائمیٹ اسٹڈیز سے وابستہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اعدادو شمار کے مطابق بارش زیادہ نہیں ہورہی ہے۔ یوں بھی اس موسم میں اچھی یا زیادہ بارش ہونے کو غیرمعمولی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ماحولیات میں بڑھی ہوئی نمی کئی مرتبہ زیادہ بارش جیسے حالات پیدا کردیتی ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ گزشتہ 130برسوں میں زمین کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 1.3ڈگری سیلسس بڑھا ہے۔ اتنا درجہ حرارت بڑھنے کے سبب جب زمین کی سطح پر موجودہ آبی ذخائر سے بخارات بنتے ہیں تو ماحولیات میں 9سے 10فیصد تک نمی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ یہ نمی ہواؤں میں موجود رہتی ہے۔ جب طویل عرصہ تک بارش نہیں ہوتی تو ہوا اس نمی کو برقرار رکھتی ہے اور بارش شروع ہونے پر تمام جمع نمی کو کچھ ہی لمحوں میں خارج کردیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دنوں بادل پھٹنے جیسے حالات بارہا بن رہے ہیں۔ کلائمیٹ اسٹڈی سے وابستہ متعدد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حقیقت میں ان دنوں ہم جس تیز برسات کو بادل پھٹنے کا نتیجہ سمجھ لیتے ہیں، حقیقتاً وہ تیز برسات ہوا میں جمع نمی بارش کے پانی میں گھل جانے کے سبب ہوتی ہے۔ پورے موسم میں ہونے والی بارش اگر کچھ ہی دنوں میں برس جائے تو اعداد و شمار بارش کی کل مقدار معمول کے مطابق دکھائیں گے ہی، لیکن جن علاقوں میں شدید بارش ہوتی ہے، ان علاقوں کے لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ان پر قدرت کا یہ قہر کیوں ٹوٹا۔
زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ کے سبب ہوا میں نمی میں اضافہ کی بنیاد کاربن کا اخراج ہے۔ ساری دنیا اب کاربن کے اخراج پر کنٹرول قائم کرنے کے لیے مثبت منصوبوں پر عمل کرنے پر زور دے رہی ہے۔ لیکن کاربن کے اخراج پر کنٹرول پانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ بجلی کے استعمال سے لے کر ٹرانسپورٹیشن تک میں انسان فطرت کے آنچل میں بے قابو کاربن چھوڑرہا ہے اور یہ کاربن کا اخراج پوری دنیا میں آب وہوا کے بحران کا سبب بن رہا ہے۔ کیا کوئی آسانی سے اس حقیقت پر یقین کرسکے گا کہ جب ہم آن لائن کسی گانے کو سنتے ہیں، تب بھی ماحولیات کو غیرمطلوبہ کاربن کے اخراج سونپ دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ سے اپنے فون پر جس فائل کو ڈاؤن لوڈ کیا جاتا ہے یا راست لیا جاتا ہے تو وہ فائل کسی سرور میں محفوظ رہتی ہے۔ سرور کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اور اسے چلانے کے لیے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے اور حد سے زیادہ بجلی کا کنزمشن بھی تو دنیا میں اس کاربن کے اخراج کے لیے ذمہ دار ہے، جس کے سبب پوری دنیا کے سائنسداں اور ماہرماحولیات تشویش میں مبتلا ہورہے ہیں۔
حال میں کیرالہ اور اس کے فوراً بعد اتراکھنڈ میں جو بارش ہوئی، اس میں لینڈسلائیڈنگ اور سیلاب جیسے واقعات نے آبادی کے ایک بڑے حصہ کو تتربتر کردیا۔ سائنسدانوں کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی کے سبب ہی گزشتہ کچھ برسوں میں لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب جیسے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کلائمیٹ چینج ریسرچ سینٹر کے سائنسداں ڈاکٹر راکسی میتھیو نے ایک جگہ کہا بھی ہے کہ مستقبل میں آب و ہوا میں تبدیلی کے سبب پیدا ہونے والے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے شہری اور رورل ڈیولپمنٹ پالیسی کو الگ الگ کرنا ہوگا۔ پہلے بھی سائنسداں اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ ہندوستان میں زمین کے استعمال کی پالیسیوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کو اپنانا ہوگا جو آب و ہوا میں تبدیلی کی غیرمستقل مزاجی/بے ضابطگیوں کا سامنا کرسکیں۔
دراصل گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں آئے سیلاب کی صورت حال کا اندازہ کیا جائے تو یہ حیران کن حقیقت سامنے آئے گی کہ آسمان سے برستے پانی نے اتنی تباہی نہیں مچائی، جتنی خوفناک صورت حال بستیوں یا سڑکوں پر پانی جمع ہونے کے سبب دیکھنے میں آئی۔ سبب واضح ہے۔ ہم نے اپنی ترقی کی اس طرح منصوبہ بندی کی ہے کہ بارش کے پانی کی نکاسی کے روایتی راستے تک بند کردیے۔ جنوب مشرقی راجستھان کے کوٹہ شہر کی مثال سے اس بات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کوٹہ شہر اس ہاڑوتی کے پٹھار کے سب سے نچلے حصہ میں بسا ہے، جو ہاڑوتی کے پٹھار دور کے کسی وقت کے مشہور گونڈوانا پٹھار کا حصہ رہا تھا۔ فطری طور پر پٹھار کے اوپری حصہ میں برسنے والا پانی تیزی سے نیچے کی جانب آتا تھا۔ اسے دیکھتے ہوئے 1346 عیسویں میں بوندی کے راج کمار دھیردیہہ نے اس پٹھار کے مختلف حصوں میں تیرہ تالاب اس طرح بنوائے کہ بستیوں کی جانب بہتے پانی کو اپنے دائرہ میں محفوظ کرسکیں۔ لیکن آزادی کے بعد ترقی کے نام پر یہ تالاب تجاوزات کے شکار ہوتے چلے گئے اور وہاں بازار، بستیاں آباد ہوتی چلی گئیں۔ اس سے برسات کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تو پانی نے بستیوں میں تباہی مچانی شروع کردی۔ یہی سب پہاڑی علاقوں میں ہوا ہے۔ اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں بادل پھٹنے کے واقعات کے بعد جو قیامت دیکھنے کو ملنے لگی ہے، اس کی بنیاد میں بھی پہاڑوں پر تجاوزات اور غیرقانونی تعمیرات ہیں۔ کیرالہ میں ندیوں کے کنارے بنی عمارتیں بھی ندی میں بہہ جانے اور ساحلی زمین دھنسنے کے واقعات بھی اسی لیے ہورہے ہیں کہ ہم قدرتی ذرائع کا راستہ روکنے لگے ہیں۔
آب و ہوا پر کام کررہے سائنسدانوں اور ماہرین ماحولیات کا ماننا ہے کہ کیرالہ یا اتراکھنڈ جیسی قدرتی آفات دنیا کے کسی بھی حصہ میں تباہی مچاسکتی ہیں، خاص طور پر ہندوستانی برصغیر کے ممالک میں جہاں کثیر آبادی ہے اور بے قابو طریقہ سے زمینوں پر قبضہ کرنے کا رجحان عام ہے۔ اس لیے پالیسی سازوں کو الرٹ رہ کر اور دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ایسے منصوبے بنانے ہوں گے جن کے سبب پانی کے بہاؤ کے راستہ میں رکاوٹ نہ ہو اور برسات میں جمع ہوئے پانی کی آسانی سے نکاسی ہوسکے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کے سبب پیدا ہونے والے ہنگامی حالات سے بچنے کے لیے ہمیں ان حالات پر بھی کنٹرول کرنا ہوگا جو آب و ہوا میں غیرمعمولی تبدیلی کے سبب ہیں۔ کاربن کا اخراج ان میں اہم ہے۔ پیرس معاہدہ کا شریک ہونے کے سبب ہندوستان کو یوں بھی اپنے کاربن کے اخراج کو صفر ہونے تک کی حالت پر لانا ہے۔ یہ قابل ذکر ہے کہ دنیا میں چین اور امریکہ کے بعد کاربن کے اخراج کی نظر سے ہندوستان تیسرے نمبر پر ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ کیرالہ یا اتراکھنڈ کے واقعات کے بہانے فطرت نے ہمیں آگاہ کیا ہے کہ ہم ماحولیات کے تئیں حساس ہوں اور آب و ہوا میں تبدیلی کے تئیں الرٹ۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS