شاہنواز احمد صدیقی
یوروپ کے ترقی یافتہ اور روشن خیال ملکوں میں نسل پرستی شباب پر ہے۔مغربی ایشیا میں جمہوریت کاخواب دکھا کر کئی ملکوں کو غیر مستحکم کردیاگیاتھا اور وہاں خانہ جنگی کی وجہ سے بڑی تعداد میں عوام نے یوروپ اور امریکہ کارخ کیاتھا ،مگر یوروپی ملک جو انسانیت پرستی کی دہائی دیتے ہیں مسلم دشمنی میں بہت آگے بڑھ گئے اور سوئڈین اور ڈنمارک میں شدت پسند عناصر قرآن کی بے حرمتی کرکے اپنی وحشیانہ جبلت کامظاہرہ کررہے ہیں۔سوئڈن میں اس سال ستمبرمیں پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں۔سوئڈن اور ڈنمارک جیسے ممالک جہاں پر دیگر پسماندہ ممالک کی طرح بجلی، پانی اور روزگار انتخابی ایشونہیں ہوسکتے ہیں۔لہٰذا اقتدار حاصل کرنے کے لئے کئی یوروپی ملکوں میں شدت پسند طبقہ سراٹھارہا ہے اور مسلمانوں کو آسان نوالہ سمجھ کر ان کے ایشوز کو اچھال رہاہے۔ان ممالک میں سوئڈن ، ڈنمارک ،ہینگری،پولینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ ڈنمارک میں قابل اعتراض کارٹونوں کی اشاعت اظہار خیال کی آزادی پراصرار سے زیادہ شرپسندی اور اشتعال انگیزی لگتی ہے۔
چند روزقبل سوئڈن میں قرآن سوزی کی واردات سوئڈ پولیس کی نگرانی میں ہوئی تھی۔ڈنمارک میں شدت پسندوں نے مسلمانوں کی قریبی بستی میں اس طرح کی شرمناک حرکت کرنے کی اجازت پولیس سے دوبارہ طلب کی تھی جس کی پولیس نے اجازت نہیں دی۔ خیال رہے کہ ڈنمارک یوروپ کا ملک ہے اور اس کو اسکینڈیوین Scandinavianملک کہاجاتاہے۔ اسکینڈیوین ڈنمارک بہت ترقی یافتہ ملک ہے یہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بہت اعلیٰ تھا ۔صحت ، تعلیم، شہری حقوق، شخصی آزادی، جمہوری انداز کی طرز حکومت کے علاوہ ایل جی بی ٹی کے معاملات میں بھی ڈنمارک کا شمار صف اول کے ممالک میں ہوتاہے۔ ناٹو کا ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈنمارک کئی علاقائی ،یوروپی اور عالمی اداروں کا سرگرم ممبر ہے۔ ڈنمارک کا پارلیمانی نظام دنیا کے قدیم تریم جمہوری ڈھانچوں میں شمارہوتاہے۔ڈنمارک میں شاہی حاندان ہے، وہاں کے شاہی خاندان کو آئینی شاہی خاندان کے زمرے میں رکھ سکتے ہیں یعنی جس طرح کا شاہی خاندان برطانیہ کا ہے اور وہاں کے شاہی خاندان کو آئینی اور قانونی درجہ حاصل ہے، اسی طرح ڈنمارک میں موجودہ یا رائج آئین 1849میں سے وضع کرلیاگیاتھا ۔ماہرین اس آئین کی جڑیں 1660سے ہی مربوط بتاتے ہیں۔
ڈنمارک سوئڈن اور ناروے ایک سمجھوتے Kalmer Unionکے تحت ایک شاہی خاندان کے اقتدار میں تھے۔یہ نظام 1397سے 1523تک چلتا رہا۔ مگر سترہویں صدی تک ان علاقوں الحاق Swoedin Enpireسے ہوگیاتھا۔بعد میں آپسی جنگوں اوربالا دستی جنگوں کے بعد ناروے بھی سویڈن میں شامل ہوگیاتھااور ڈنمارک علیحدہ ہوگیاتھااور ڈنمارک کا فروئی جزائرFaroe Irlandکے ساتھ الحاق ہوگیاتھا۔
پہلی جنگ عظیم میں ڈنمارک ناوابستہ اور غیر جانبداررہامگر 1940میں دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے اس پر حملہ اورپھر قبضہ کرلیاتھا، اس دوران مقامی آبادی نے جرمنی نے قبضہ کے خلاف تحریک چلائی،آئس لینڈ نے اپنی خودمحتاری اور آزادی کا اعلان کردیا، اسی طرح مئی1943 کوڈنمارک نے بھی آزادی کا اعلان کردیا۔
سوئڈن ڈنمارک اور ناورے کی ملی جلی تہذیب ہے اور اس خطے کے ان تینوں ممالک کی تقریباً مشترکہ تاریخ ہے۔ ان کے درمیان 1643سے لے کر 1645تک کئی جنگیں ہوئیں۔ یہ علاقہ جنگوں اور تصادموں کے لئے جاناجاتا ہے۔ یوروپ کی تاریخ میں سب سے زیادہ تخریبی جنگیں یہیں Holy Romani Empireمیں ہوئی تھیں۔ اس خطے کی سب سے خونخوار جنگ تھی Three Year War جس میں اس خطے میں ساڑھے چار سے لے کر 8ملین اموات ہوئی تھیں۔اس لڑائی کا دور1618سے 1648 قرار دیاجاتاہے۔
جزائراسکنڈیوین یاScandinavian Penirulaیہ مجموعی طور پر تین ممالک ڈنمارک ، ناروے اور سوئڈن پر مشتمل ہے۔اس خطے کے لوگوںکے رہن سہن میںکافی یکسانیت اور کچھ مشترکہ اقدار ہیں۔ ایک زمانے میں ڈنمارک اور ناروے ایک اکائی تھے اس وقت اس اکائی میں فن لینڈ بھی آ گیا اور ناروے جزائر بھی اس کا حصہ تھے ۔آج کے اس خطے میں جو ممالک شامل ہیں ان میں ناروے، سوئڈن اورڈنمارک اور کچھ ماہرین آئس لینڈ فن لینڈکو بھی اس زمرے کے ممالک میں شامل کرتے ہیں۔ شمالی یوروپ کا یہ حصہ جرمنی کی تہذیب زبان بودوباش اور طرزفکر سے متاثر ہے۔
سوئڈن ڈنمارک اور ناروے بہت ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک ہیں اور اب وہاں دیگر یوروپی ممالک کی طرح شدت پسند عیسائیوں نے اقتدار پر قبضہ کرکے مسلم مخالف جذبات کو ہوادینی شروع کردی ہے۔سوئڈن میں پولیس اور شدت پسندوں میں اس معاملہ کو لے کر کافی جھڑپ بھی ہوئی مگر اقتداراور عوامی حمایت کے نشے میں شدت پسندوں نے قرآن سوزی (نعوذ باللہ) کے مذموم عمل کوانجام دے دیا۔ڈنمارک سوئڈن میں مسلم مخالف جذبات کی جڑمہاجرین مخالف جذبات ہیں، ا ن دونوں ملکوں کی ایک بڑی آبادی نہیں چاہتی کہ دنیا کے مختلف ممالک سے بھا گ کر آنے والے مسلمان ، مہاجرین ان کے ملکوں میں آکرپناہ لیں۔
اس جذبہ رقابت کا اظہاران دونوں ملکوں کے ایک شدت پسند گروپ اسٹرام کرسStram Kursکے لیڈر راس مس پالودانRasmus Paludanنے اپنے فیس بک پوسٹ میں کیاہے کہ انہوں نے اپنے ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنا دیاہے۔انہوں نے اس فیس بک پوسٹ میں اعلان کیاتھا کہ ’’بہت سے جرائم پیشہ افراد نے کہاتھاکہ ہم ایسا نہیں کرسکیںگے، مگر ہم نے کرکے دکھادیا۔انہوں نے مزید اشتعال انگیزی کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ۔۔(ناقابل بیان الفاظ) ہے اور ابتدائی دنوں کا مذہب ہے اور آج کے ڈنمارک ، سوئڈن اور کسی بھی مہذب سماج میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اس شدت پسندگروپ نے مسلم اکثریتی علاقے رنکینبی Rinkenbyمیں اس ناپاک حرکت کو انجام دیاتھا۔اپنے سیاسی اور ناپاک منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے یہ گروپ اس طرح کے پروگرام کئی دیگر علاقوں میں کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ یوروپ اور مغرب کا روشن خیال سماج کس طرح اس قسم کے شرپسند اور شدت پسند عناصر کو روک پائے گا۔
سوئیڈن میں اسلاموفوبیاکی بدترین روایت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS