پروفیسر اسلم جمشید پوری
افریقہ کو جس مرد مجاہد کی ضرورت تھی،وہ اب حرکت میں آ چکا ہے۔افریقہ وہ سر زمین ہے جس نے اسلام کا ہیرو حضرت بلال حبشی جیسا ہیرا دیا۔جن کی آواز میں وہ درد اور کشش تھی کہ حضور پاکؐ نے پوری زندگی ان کو اذان دینے پر مامور کیا تھا۔جنہوں نے فتح مکہ کے وقت کعبہ کی چھت پر چڑھ کر بہ آواز بلند اذان پڑھی تھی۔نیلسن منڈیلا جیسا عدم تشدد کا حامی لیڈر دیا۔آج پھر اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ پوری دنیا وہیں کے ایک لیڈر کے کارناموں سے ہل گئی ہے۔وہ حکمراں اور رہنما کوئی اور نہیںجرنل ابراہیم تروڑے ہے،جس نے مغربی ممالک خاص کر یوروپ اور امریکہ کی نیندیں حرا م کر دی ہیں،جس نے فلسطین کے عوام کے بے دریغ قتل پر امریکہ اور اسرائیل کو خوب لتاڑا ہے۔
کون ہے ابراہیم تروڑے ؟ کیوں آج ہر نو جوان اسے جاننا چاہتا ہے؟ کون سے کارنامے ہیں جو اس نے کیے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر تیزی سے ابھرا؟ برکینیا فاسو افریقی ملک کا نیاصدرجرنل ابراہیم تروڑے ہے۔ 14مارچ1988 میں پیدا ہونے والے ابراہیم تروڑے نے 2010 میںفوج میں داخلہ لیا اور تعلیم بھی جاری رکھی۔فوج میںاس نے جارجس نامونو ملٹری اکادمی میں ٹریننگ لی۔اس نے یہاں رہتے ہوئے ہر قسم کی فوجی تربیت حاصل کی۔ 2012میں اس نے لیفٹیننٹ دوم کے طور پر گریجویشن کی۔ 2014میں ملٹری میں لیفٹیننٹ کا چارج سنبھالا،جس کے بعد یوروپ کے آگے دم ہلانے والے صدر کے خلاف 2022میں ملٹری بغاو ت ہوئی اور بر کینیا فاسو کی ملٹری نے کول ہینزی کو عبوری حکمراں بنادیا۔جو حکومت سنبھال نہ سکے۔2024میں ابراہیم تروڑے نے صدارتی انتخابات میں فتح حاصل کی اور صدرِ مملکت بنے۔
حکمراں بننے کے بعد اس نے الگ خطوط پر سوچنا اور عمل کر نا شروع کیا۔اس نے غور کیا کہ افریقہ دنیا میں سب سے غریب،پچھڑا،بھوکااور پیاسا کیوں ہے؟ جب کہ افریقہ کے پاس معدنیات کی کمی نہیں ہے۔سونے سے لے کر ہیرے، تیل،یورینیم، کوبالٹ اور دوسرے ذخائر کی بہتات ہے۔ اس کی سمجھ میں اس کی اصل وجہ آئی کہ امریکہ اور یوروپی ممالک خاص کر فرانس یہاں کی بیش قیمت چیزوں کو نکال لے جاتے ہیں اور یہاں کے لوگوں کا استحصال کرتے ہیں۔ انہیں مزدور اور غلام بنا کر رکھتے ہیں۔انہیں روٹی، کپڑا اور مکان بھی نہیں دیتے۔ان کا خون چوستے ہیں اور بدلے میں دو وقت کی روٹی بھی ڈھنگ سے نہیں دیتے۔ افریقی لوگوں کو ہنر اور تعلیم سے بے بہرہ رکھ کران پر من مانی حکومت کرتے ہیں۔
برکینیا فاسو افریقہ کا ایک ملک ہے۔یہاں کی آبادی 2 کروڑ 25 لاکھ ہے۔اس کا رقبہ 2لاکھ 47 ہزار 223مربع کلومیٹر ہے۔یہاں کے لوگ مور، پیسا، تیولا اور فیولا زبانیں بو لتے ہیں۔یہ چاروں زبانیں یہاں کی سرکاری زبانیں ہیں۔مگر اس کے بیشتر اداروں اور تعلیم گاہوں میں انگریزی اور فرینچ زبانیں استعمال ہوتی ہیں۔یہ ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔یہاں کی کل آبادی کا63.8 فیصد مسلمان ہیں۔26فی صدکرسچین اور باقی دوسرے مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ اس کی راجدھانی واگہ ڈوگاہے۔ اس ملک میں غریبی بہت ہے۔کھانے کو تین وقت کھانا نہیں، پینے کی پانی کی قلت ہے۔زیادہ تر نوجوان فرانسیسی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ابراہیم تروڑے نے یوروپ کے سفارت خانے بند کر دیے۔روس کی فوج کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔معدنیات کے ذخائر کو تحفظ فراہم کر نے کے لیے تمام لائسنس رد کر دیے۔پورے یوروپ اور امریکہ میں زلزلہ آگیا۔
برکینیا فاسو کے صدر ابراہیم تروڑے نے اپنے ایک بیان میں جو باتیں کیں،وہ دل کو چھوتی ہیں۔ساتھ ہی وہ تمام باتیں آج نہیں تو کل افریقہ اتحاد کے لیے بنیاد کا پتھر ثابت ہوں گی۔ویسے بہت سے افریقی ممالک ابھی سے متحد افریقہ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
انہوں نے یوروپ کے بیشتر ممالک اور امریکہ کے میڈ یا کو للکارتے ہوئے کہا کہ سی این این،بی بی سی،فرانس-24،میں تم سب کو دیکھ رہا ہوں۔میں تمہارا ہرجھوٹ ریکارڈ کر رہا ہوں۔میں تمہارے ذریعہ بتائی گئی توڑی مروڑی باتوں کو جمع کر رہا ہوں۔میں ابراہیم تروڑے ہوں اور آج میں تمہارا نقاب اتار رہا ہوں۔ میں،جسے تم ایک نو جوان فوجی حکمراں کہتے ہو،جسے تم ایک خطرناک دہشت گرد کہتے ہو،جسے تم مغرب مخالف تانا شاہ کہتے ہو،آج میں تمہیں سچائی بتا رہا ہوں اور اس بار تم مائک بند نہیں کر سکتے۔اس بار تم اپنے کیمرے نہیں ہٹا سکتے،اس بار تمہارے ایڈیٹرز اس تقریر کی ایڈیٹنگ نہیں کر سکتے کیوں کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا،اب کروڑوں لوگ یہ باتیں سنیں گے،بغیر تمہارے فلٹر سے گزرے،بنا تمہاری جھوٹ میں لپٹی،گندگی میں سنی۔میں اتنا بڑا ہوگیا۔میں نے اپنی زندگی کے دن تمہارے جھوٹ میں گزارے،بچپن میں،میں ٹی وی پر افریقہ دیکھا کرتا تھا۔ہمیشہ وہی تصویریں، مکھیاں بھنبھناتے بچے، بھوک سے بلبلاتے لوگ،پانی کے لیے ترستی عورتیں، سوکھی کھیتیاں، بنجر زمینیں، بے بس مزدور، کالے سیاہ دھوپ میں تپتے جلتے لوگ،چوری چماری کرتے نوجوان۔۔۔یہی افریقہ ہے،تم نے بتایا۔ہمیں خود پر شرم آنے لگی۔پھر میں بڑا ہوا۔میں نے تعلیم حاصل کی،ریسرچ کی اور سوال قائم کیے تو مجھے اچھی طرح سمجھ میںآگیا کہ جو افریقہ تم نے ہمیں دکھایا، بتایا،جو کہانی تم نے ہمیں سنائی وہ جھوٹی تھی۔
جو قسمت تم نے طے کی تھی،وہ پہلے سے لکھی ہوئی ایک اسکرپٹ تھی۔تم نے افریقہ کو ایسے پیش کیا جیسے یہاں انسان نہیں،جانور بستے ہوں۔ہر دن یہی کہانی تمہاری اسکرین پر ہوتی۔جب کوئی افریقہ کہتا تو تمہاری لغت میں صرف بھوک، جنگ، بیماری، بدعنوانیاں،دہشت گردی، لاقانونیت کا ہی ذکر ہوتا۔نہ امید،نہ کامیابی،نہ فروغ،نہ مزاحمت،نہ عزت و احترام،نہ فخر،نہ فتح۔ تو میں تم سے پوچھتا ہوں، نیویارک ٹائمس، واشنگٹن پوسٹ، گارجین، لے مونڈے وغیرہ نے کبھی افریقہ کی کامیابیوں کو سرخی بنایا؟ کتنی بار تم نے روانڈا کی ٹیکنالوجی انقلاب کے بارے میں لکھا؟ کتنی بار تم نے ایتھوپیا کی نشاط ثانیہ کو دکھایا؟کتنی بار تم نے بوتسوانا کی جمہوری کامیابی کی تعریف کی ؟ کتنی بار تم نے کینیا کی انٹرپرینیو شپ کی داستان سنائی ؟نہیں۔۔۔ کیوں کہ یہ سب تمہاری تحریر کردہ اسکرپٹ میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ تمہاری افریقہ کی کہانی میں افریقہ تو کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ اگر افریقہ کو مدد کی ضرورت نہیں، وہ پچھڑے بھی نہیں، تو تمہاری مداخلت کیسے ہو؟کیا کبھی تمہارے کسی ایڈیٹر یا رپورٹر نے سوچا کہ دنیا کی سب سے امیرزمینوں میں بسے لوگ غریب کیوں ہیں؟دنیا کا 70فیصد کو بالٹ،90 فیصد پلیٹینیم،30 فیصد سونا،65فیصد ہیرے،35 فیصد یورینیم وغیرہ افریقی ممالک میں ملتا ہے،پھر بھی افریقہ انتہائی غریب ہے۔امریکہ،یوروپ اور خاص کر فرانس یہ سب یہاں سے لے جاتا ہے اور بیچارہ افریقہ غریب کا غریب ہی ہے۔مگر اب حالات بدل گئے ہیں۔
برکینیا کے صدر ابراہیم تروڑے کے اس بیان نے پوری دنیا خاص کر امریکہ اور یوروپ میں کھلبلی مچا دی ہے۔وہاں کے حکمراں اب ابراہیم کو صفحہ ہستی سے ہٹانے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ابراہیم نے روس اورچین کے ساتھ مل کر اپنے ملک میں انقلابی تبدیلیاں لانی شروع کر دی ہیں۔ اسپتال، اسکول، کالج، یونیورسٹیز، بازار، کشادہ سڑکیں، بڑی بڑی عمارتیں، معدنیات کی ترقی یافتہ کھانیں،بڑے بڑے کارخانے، صنعتیں،جنگ میں استعمال ہونے والے ہتھیار،جنگی جہاز،ٹینک،توپ بنانے اور لینے کے طریقے استعمال کیے جارہے ہیں۔ نئے نئے پرو جیکٹ لگائے جا رہے ہیں۔ نیوکلیئر پلانٹ کی تیاری چل رہی ہے۔ معاہدے ہو رہے ہیں۔ معدنیات سے حاصل ہو نے والی رقم کا بڑا حصہ ملک کے فروغ میں اور فوج کے شعبے میں خرچ ہو رہا ہے۔ فرانس کا عمل دخل بالکل ختم ہو رہا ہے۔ ابراہیم نے فلسطین اور ایران میں بھی اپنی افواج بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
ایک نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔افریقہ کے لوگوں کو ابراہیم سے بہت ساری امیدیں ہیں۔توقع ہے کہ اسی سیاہ مطلع سے ایک ستارہ طلوع ہو گاجو افریقہ کو نئی راہ دکھائے گا۔