شاہد افراز خان
ہم آئے روز چین کی جانب سے سامنے آنے والی نت نئی اختراعات دیکھ رہے ہوتے ہیں جو اس ملک کی ٹیکنالوجی دوستی کو ظاہر کرتی ہیں اور تکنیکی ترقی کے سازگار ماحول کو اجاگر کرتی ہیں۔اسی سلسلے کی ایک اور تازہ کڑی یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں 20 دسمبر کو چین میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور تکنیکی طور پر مشکل ترین ہائیڈرو پاور پراجیکٹ بائی حہ تان پن بجلی گھر مکمل طور پر فعال ہو چکا ہے ۔یہ مجموعی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ہائیڈرو پاور اسٹیشن ہے ، جبکہ اس فہرست میں پہلے نمبر پر چین ہی کا تھری گورجز ڈیم ہے۔ اب اس پن بجلی گھر کے تمام 16 یونٹس نے بجلی کی پیداوار شروع کر دی ہے۔اس منصوبے کی تکمیل دنیا کے سب سے بڑے شفاف توانائی کوریڈور کی تکمیل کی علامت ہے۔بائی حہ تان ہائیڈرو پاور اسٹیشن مجموعی طور پر 16 ہائیڈرو پاور جنریٹنگ یونٹس سے لیس ہے جن میں سے ہر ایک کی پیداواری صلاحیت 01 گیگا واٹ ہے ۔ یہ پاور اسٹیشن سالانہ 62،400 گیگا واٹ آورز بجلی پیدا کرسکتا ہے ، جو تقریباً 75 ملین افراد کی بجلی کی کھپت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔
بائی حہ تان ہائیڈرو پاور اسٹیشن اور اس سے قبل مکمل ہونے والے تھری گورجز پن بجلی گھر سمیت دیگر ہائیڈرو پاور اسٹیشنزکے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی شفاف توانائی کی راہداری مکمل ہو چکی ہے ۔ان میں دریائے جن شا کے نچلے دھارے کے ساتھ تین دیگر منصوبوں میں 13.86 گیگا واٹ کا شی لوڈو اسٹیشن ، 10.2 گیگا واٹ کا ووتونگ دے اسٹیشن اور 6.4 گیگا واٹ کا شیانگ جیابا اسٹیشن شامل ہیں جبکہ تھری گورجز ڈیم کی صلاحیت بھی 22.5 گیگا واٹ ہے، یوں چین نے دریائے یانگسی پر دنیا کی سب سے بڑی نیو انرجی کوریڈور تعمیر کی ہے۔
بائی حہ تان منصوبہ جدت طرازی سے بھرپور ہے کیونکہ تکنیکی ماہرین نے اس کے محفوظ آپریشن کو یقینی بنانے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجیز کی ایک صف عمدگی سے ترتیب دی ہے۔ یہ امر قابل زکر ہے کہ بائی حہ تان ہائیڈرو پاور پلانٹ سے پیدا ہونے والی بجلی سے اندازً 19.68 ملین ٹن معیاری کوئلے کی بچت ہو گی ، جو 51.6 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے کے مساوی ہے ۔غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ اس منصوبے نے جون 2021 میں پہلے دو یونٹس کے آغاز کے بعد سے اب تک 53 ارب کلو واٹ آورز سے زیادہ بجلی پیدا کی ہے۔ یوں یہ منصوبہ چین کے 2030 تک کاربن اخراج میں کمی کو چوٹی تک پہنچانے اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کے دوہرے اہداف کے حصول میں نمایاں کردار ادا کرئے گا۔تکنیکی جہتوں کی بات کی جائے تو تعمیراتی کام کی درستگی کو یقینی بنانے کے لئے سیٹلائٹ پوزیشننگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔چین کے ملکی سطح پر تیار کردہ بے دو نیویگیشن سیٹلائٹ سسٹم سے زمین سے 20،000 کلومیٹر کی بلندی سے سیمنٹنگ کے عمل کی نگرانی کی گئی ہے اور 289 میٹر اونچے اور 709 میٹر لمبائی کے ڈیم میں” 8 ملین کیوبک میٹرز لو ہیٹ سیمنٹ” ڈالنے والی مشینری کی معمولی سی بے قاعدہ حرکتوں کو بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ ڈیم کے ساتھ “تین پریشر لیس فلڈ سپل ویز “تعمیر کیے گئے ہیں تاکہ سیلاب کو روکا جاسکے اور 47 میٹرز فی سیکنڈ کی رفتار سے پانی خارج کیا جاسکے۔
اعلیٰ درستگی کی حامل ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ منصوبہ اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ زلزلے کے خلاف مزاحمت کر سکے ، کیونکہ یہ چین کے ایسے علاقے میں واقع ہے جہاں اکثر زلزلے آتے رہتے ہیں۔ تھرمل کریکنگ کے خطرے کو کم کرنے کے لئے اس منصوبے کی تعمیر میں ایک خاص قسم کا سیمنٹ استعمال کیا گیا ہے جس سے گرمی کے اثرات کو بھی کم سے کم محسوس کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح ٹربائن بھی ذہین ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہیں جبکہ منصوبے کے سارے احاطے میں ہزاروں سینسرز نصب کیے گئے ہیں ، جو حقیقی وقت میں درجہ حرارت ، دباؤ ، ماحول اور دیگر پیشرفت کی جامع عکاسی کرتے ہیں۔یہ بات اچھی ہے کہ تعمیراتی کام شروع ہونے کے بعد سے ذہین ٹیکنالوجیز کا مسلسل اطلاق کیا گیا اور ڈیجیٹل سمولیشنز اور ڈیٹا فیڈ بیک ٹیکنالوجیز اس ماحول دوست منصوبے کی صحت کی مسلسل نگرانی کرتی رہی ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کے اطلاق کا بڑا فائدہ یہ بھی رہا ہے کہ تکنیکی ماہرین نے سامنے آنے والی معلومات کی بنیاد پر پلانٹ سے متعلق اپنی ترجیحات کو ایڈجسٹ کیا ہے۔
ویسے بھی چین کی کوشش ہے کہ ملک میں سبز توانائی کی فراہمی کا جامع نظام بنایا جائے جو سبز کم کاربن صنعتی نظام کو فروغ دینے کی کلید ہے۔اس مقصد کی خاطر فوسل توانائی کے استعمال کے تناسب کو بتدریج کم کیا جا رہا ہے اور گرین ہائیڈروجن، قابل تجدید بجلی (شمسی توانائی، ہوا کی طاقت،پن بجلی وغیرہ) اور دیگر سبز توانائی کے استعمال کے تناسب کو بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ چین کی کوشش ہے کہ توانائی کی بچت والی ٹیکنالوجیز کی تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے، ساتھ ہی ساتھ اہم تکنیکی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے وسائل کو متحرک کیا جائے۔ چین کے نزدیک اہم ترجیح یہ بھی ہے کہ سبز کم کاربن ترقی کو فروغ دینے کے لیے خصوصی تکنیکی آلات کی سطح کو بہتر بنایا جائے اور بائی حہ تان پن بجلی گھر اس وژن کی ایک عملی تصویر ہے جسے چین کی ماحول دوست کوششوں کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا جا سکتا ہے۔ll