ہرگزرتے دن کے ساتھ مغربی ایشیا اور ارض فلسطین میں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ اسپتالوں ، مساجد ،گرجا گھروں، اسکولوں اورد یگر عوامی خدمات کے مراکز کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے ، اگرچہ یہ وطیرہ نیا نہیں ہے ۔ اسرائیل ماضی میں چار مرتبہ غزہ پر حملہ کرچکا ہے اس کے حملوں میں مذکورہ بالا تمام مقامات اور مراکز ، ادارے بطور خاص نشانہ بنتے ہیں، جن سے عوامی خدمات ہوتی ہیں، اس کا مقصد جنگ یا حملہ ختم ہونے کے بعد طویل عرصے تک خطے کے مظلوموں کو اذیتوں اور پریشانی دوچار کرنا ہوتا ہے۔ اسرائیل موجودہ بحران میں ماضی کے سفاکی کے تمام ریکارڈ توڑ رہاہے۔ صحافیوں کو نشانہ بنانا اس کی سرشت میں شامل ہیں۔ الجزیرہ کی صحافی کا قتل جس سفاکی ، بربریت کو ذرائع ابلاغ کی براہ راست نشریہ میں دیکھا گیا وہ ابھی تک یاد داشت میں زندہ ہے ۔آج اسرائیل نے الجزیرا کے ایک اور صحافی کے خاندان کو ختم کردیا۔ الوائل الحدیدح کے بیٹے، بیٹی اور بیوی کو ہوائی حملے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس دوران روس کے صدر بلادیمیر پوتین نے واضح کردیا ہے کہ حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں ۔ کسی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دوسرے لوگوں (حماس) کے جرائم کے لیے شیر خوار بچوں ، حاملہ عورتوں،ضعیفوں اور بے گناہوں مریضوں کو نشانہ بنائیں۔ انہوں نے بالکل بے باکی کے ساتھ کہا کہ آج ہمارا کام اس خون خرابے اور تشدد کو روکنا ہے۔ یہ با ت انہوںنے کریملین میں مذہبی گروپوں کے ساتھ ملاقات میں کہی۔ خیال رہے کہ ان کا یہ بیان ایسے وقت میںآیاہے جب گزشتہ روز اور اس سے قبل سیکورٹی کونسل میں کسی بھی قسم کی قرار داد پاس نہیں ہونے دی گئی جس کا مقصد غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو روکنا تھا اور جارحیت کے متاثرین کو مدد پہنچانا ہو۔ اس سے قبل پوری مغربی دنیا کریملین پر یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ وہ یوکرین میں جنگی جرائم مرتکب ہورہا ہے اور اسی کے پاداش میں روس کے صدر کو کسی بھی ملک کے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ یا یہ کہیے کہ ان کی گرفتاری کے وارنٹ ہیں اور وہ مطلوبہ شخص ہیں روس کے صدر نئی دہلی میںہونے والے گروپ 20 کے سربراہ اجلاس میں شریک نہیں ہوپائے تھے۔ اس سے قبل جنوبی افریقہ میں جی -7ممالک کی سربراہ کانفرنس میں وہ انہی پابندیوں کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے تھے۔ مغربی دنیا ان کو جنگی جرائم کا مجرم قرار دیتی ہے۔ اہل مغرب کا کہنا ہے کہ بلادیمر پوتین یوکرین میں حملہ کرکے اس خطے کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتے ہیں اور وہاں کی منتخب حکومت کو گرا کر اپنے غاصبانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کررہے ہیں۔ یہ الزامات درست ہیں ان سے کوئی انکار کرسکتا۔ بہر کیف گزشتہ روز چین اور روس نے مغربی ممالک کی قرار داد وں پاس نہیں ہونے دیا۔ یہ صور تحال غیر معمولی ہے ۔ روس کی افواج مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں سرگرم ہیں۔ عراق اور شام ودیگر خطوں میں روس کی فوج یا روس کے ارباب اقتدار کی حمایت یافتہ فوج ویگنر کے لڑاکے دنیا کی مختلف حصوں میں امریکہ کی اور اس کی حواریوں کی فوج اور حمایت یافتہ گروپوں سے برسرپیکار ہیں اس میں سینٹرل افریقہ کے کئی ممالک بشمول مالے ، برکینا فاسو ، لیبیا، الجیریا،نائجیریا، مورٹینا گپن وغیرہ میں روس کے جنگی ماہرین موجود ہیں۔
خیال رہے کہ مغربی ایشیا میں 2011سے لے کر اب تک کئی ممالک میں روس کے فوجی یا دفاعی ماہرین اپنے پیر جماچکے ہیں جو امریکی مفادات کے خلاف کام کررہے ہیں وہ ممالک جو کہ اپنے داخلی امور میں مغربی ممالک کی مداخلت سے پریشان ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ مغربی ممالک کی افواج ان کے روز مرہ کے امور میں مداخلت کرے اور دہشت گردی کے نام پر اپنے قیام کو موخر کرنے کی کوشش کرے۔ ان مغربی ممالک کا الزام ہے کہ دہشت گردی کی سرکوبی کے بہانے مغربی ممالک ان کے معدنی اور قدرتی وسائل کو لوٹ کھسوٹ مچائے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ساحل کے ممالک میں ان افواج کے خلاف خاص طور پر فرانس کی فوج کے خلاف شدید جذبات پائے جاتے ہیں، مگران ملکوں میں امریکی، برطانیہ اور نیدر لینڈ بیلجیم جیسی ممالک کی فوجیں بھی تعینات ہیں، یہ تعیناتی اقوام متحدہ کے نگرانی اور چارٹر کی روشنی میں ہوئی ہے مگر کئی ممالک نے بطور خاص گبن، الجیریا، فرانس ، امریکہ اور برطانیہ ایسے کٹھ پتلی حکمرانوں کو سرپرستی فراہم کررہا ہے جو کہ جمہوری نظام کو یرغمال بنا کر منمانے ڈھنگ سے ان ممالک کی اقتدار پر قابض ہیں۔ ان ممالک کی افواج بعض اوقات غیر ملکی اور مغربی افواج کی منمانی اور لوٹ کھسوٹ سے تنگ آکر بغاوت کرچکی ہیں۔ پچھلے دو سال میں ساحل کے علاقے میں بغاوتوں کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ بڑی تعداد میں افریقی عوام خاص طورپر فوجی حکمراں مفاد پرست مغربی کمانڈوں سے نالاں ہیں۔ افریقہ کے علاوہ مغربی ایشیا اس وقت شام میں بڑی تعداد میں امریکی فوجی ہیں شام کے علاوہ عراق میں امریکی افواج اورجنگی ماہرین ملک کے جغرافیہ ، معیشت، خارجہ پالیسی اور یہاں تک کہ داخلی امور میں بھی مداخلت کررہے ہیں۔ عراق میں بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کا قیام وہاں کی منتخب حکومت کے لیے دردسر بنا ہواہے۔ اصل میں امریکہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے حکمت عملی وضع کرے۔ اس معاملے میں کرد باغیوں کو مسلسل پناہ دی جا رہی ہے۔ ان کو اسلحہ، اخلاقیاور قومی مدد فراہم کی جارہی ہے، ان کو شام اور عراق میں مسلح تربیت فراہم کرا کر امریکہ اور مغربی ممالک ایک کردستان بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ عراق ہمسایہ ایران کی مدد سے امریکہ کے ان ناپاک عزائم کا مقابلہ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ مگر غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد حالات ایک دم مختلف ہوگئے ہیں۔ امریکہ مسلسل اپنے مفادات اور اس کے حواری اسرائیل کو فوجی ، اقتصادی، سیاسی، اخلاقی اور سفارتی مدد پہنچا رہاہے۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ 6000 افراد کی ہلاکت کے باوجودبھی امریکہ کے زبان سے اسرائیل کے لیے ایک لفظ بھی نہیں پھوٹا ہے۔ ایسے حالات میں روس کے صدر کا یہ بیان کہ غزہ کی لڑائی مغربی ایشیا کے علاوہ دوسرے خطوں میں بھی پھیل سکتی ہے یہ اپنے آپ میں دھمکی ہی نہیں بلکہ خطرہ کی گھنٹی ہے، کیونکہ ایشیا پیسفک میں فلپائن کے آبی حدود میں چین کی کارروائی نے امریکہ کے کان کھڑے کردیے ہیں۔ اس خطے میں امریکہ کا کافی اثر ہے۔ تائیوان میں امریکی مداخلت چین کو اکسانے والی کارروائی بتا یا جا رہا ہے۔ چین لگاتار امریکہ کو آگاہ کررہا ہے۔ وہ اس خطے میں مداخلت سے باز آئے، مگر تائیوان کو امریکہ کی مستقل سرپرستی اور اکسانے کی کارروائی حالات کو خراب سے خراب تر کررہی ہے۔ n
عالمی نظام بدلنے والا معرکۂ غزہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS