ڈاکٹر ابوسحبان روح القدس ندوی
قدیم مونگیرمیں دریائے گنگاکے کنارے سادات کی ایک بستی لکھمنیا ہے جہاں کاروان جہاد کا والہانہ استقبال ہوا، لکھمنیاسے ملی ہوئی ایک چھوٹی سی آبادی ’’ سانہہ‘‘ ہے، مولانا یحییٰ اسی بستی کے چشم چراغ ہیں اور سادات بارگانواںسے ان کا خاندانی تعلق ہے، مولانا عبداللطیف رحمانی ، مولانا سید مناظر احسن گیلانی ، سید فضل اللہ جیلانی اور عبدالعزیز میمن جیسی شخصیات کی صحبت انہیں ملی اور ان سے فیضیاب ہوئے ۔مولانا سیدمحمد علی مونگیری کے صاحبزادے مولانا سید لطف اللہ رحمانی کی صاحبزادی محترمہ عائشہ رحمانی مولانا یحییٰ سے منسوب ہیں اور مولانا لطف اللہ کی اہلیہ محترمہ مولانا گیلانی کی حقیقی بہن تھیں، مولانا لطف اللہ کے صاحبزادے مولانا شاہد روح اللہ رحمانی ہمارے عم زاد بہنوئی ہیں اس طرح خانوادۂ مولانا مونگیری سے ہمارے خاندان کے گہرے مراسم ہیں۔ مولانا یحییٰ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے قدیم فارغ التحصیل ہیں ، ۱۹۴۴ء میں وہ دارالعلوم میں داخل ہوئے اور ۱۹۴۸ء میں فارغ ہوئے ، جہاں ان کو مولانا محبوب الرحمن ازہری ، مولانا محمد مصطفی ندوی ، مولانا ابولحسن علی ندوی ، مولانا محمد عمران خاں ازہری اور مولانا شاہ حلیم عطا سلونوی وغیرہم سے پڑھنے کا موقع ملا ۔وسیع مطالعہ کے ساتھ حدیث ، رجال حدیث اور عربی ادبیات پر ان کی گہری نظر تھی، مطالعہ اور کتب بینی ان کا خاص مشغلہ تھا، لکھنے کی عادت نہیں تھی، مجلسی آدمی تھے، معلومات کا خزانہ رکھتے تھے، زبان میں معمولی رطانت(لکنت) کی وجہ سے تقریر نہیں کرتے تھے، الغرض تحریر وتقریر دونوں میدانوں کی کمی اپنی علمی مجالس میں معلومات کی فراہمی سے پورا کرتے رہے، یہ حقیقت ہے اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہیں ۔علامہ معصومی اور محدث کبیر مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہمااللہ سے ان کے بڑے گہرے مراسم تھے، وہ دونوں حضرات ان کی آمد کے منتظر رہتے ، اور تشریف آوری پر زبردست استقبال کرتے اور زیادہ سے زیادہ قیام پر اصرار کرتے ، مولانا اعظمی کے یہاں تو ہفتوں قیام رہتا اور بحث و تحقیق کے مسائل میں خوب تبادلہ خیال ہوتا ، مولانا اعظمی کے نواسے ڈاکٹر مسعود احمدا عظمی ان باتوں کے شاہد عدل ہیں۔دراصل مولانا یحییٰ اکیڈمک انسان تھے ، یورپ میں ایسے لوگوں کی بڑی قدر ہوتی ہے اور ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے، مشرقی ممالک میں ایسے افراد کی قدر کم ہے،اب تو علم و معرفت کا پیمانہ اور زاویہ ہی بدل گیا ہے ،گو مرحوم شجر پھلدار ضرور تھے لیکن ! ثمردار شجر اہل ثروت اور خود ساختہ منصب و عزو شرف کے سامنے جھکنا نہیں جانتا ، یہ روش بہت پرانی ہے ، ہماری اسلامی تاریخ اس سے بھری پڑی ہے ، بالخصوص ائمۂ عظام کے یہاں ایسے واقعات تاریخ کی کتابوں میں ایک سنہرے باب کی حیثیت رکھتے ہیں، مولانا یحییٰ بھی ایسے ہی ’’ افذاذالرجال ‘‘ میں شمار ہوتے ہیں ، انہوں نے فراغت کے بعد کسی مدرسہ، کالج میں ملازمت نہیں کی ، چونکہ یہ خود بھی زمیندا رتھے ، زمینداری نے ان کی بے نیازی کو اور بڑھا دی تھی ، طبعیتاً بڑے منکسر المزاج تھے ، اپنی ذات اور پوشاک پر دھیان نہیں دیتے تھے ہمارے گھر مونگیر میں ایک تقریب تھی میں خانقاہ رحمانی انہیں لینے آیاجس کپڑے میں تھے اسی میں چلنے کو تیار ہوگئے ، روح اللہ بھائی کی بچیوں نے زبردستی ان کا کپڑا تبدیل کرایا ۔ بڑے بھولے بھالے شخص تھے ، باتیں بڑی محبت اور اپنائیت سے کرتے تھے ، جو ان سے ملتا ہے وہ ان کا گرویدہ ہوجاتا۔کئی سالوں سے لکھنؤ تشریف لاتے اور کتب خانہ علامہ شبلی نعمانی میں وقت گزارتے ، دارالعلوم کے مہمان خانہ میں ان کا قیام ہوتا ، طلبہ اور اساتذہ ان کی علمی مجالس سے فیض یاب ہوتے، عزیز گرامی فیصل بھٹکلی کو موصوف سے بڑی مناسبت تھی اور اُن سے کافی استفادہ کرتے ، وہ ان کے وطن سانہہ بھی جا چکے ہیں ۔کافی عرصہ قبل سناتھا کہ وہ ’’شرح الکشاف ‘‘للطیبی کے رضالائبریری رامپور اور ایشاٹک سوسائٹی کلکتہ کے نسخوں کو حاصل کرکے کام کررہے ہیں۔پھر سننے میں آیا کہ حافظ ا بن حجر کی ’’ اتحاف المہرہ بأطراف العشرۃ ‘‘ کے قلمی اور مطبوعہ نسخوں کو جمع کررہے ہیں، اس پر کچھ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل معلوم ہوا کہ وہ خطیب بغدادی کی ’’ تاریخ بغداد‘‘میں و اردشدہ احادیث اکٹھاکرکے تخریج کررہے ہیں۔ادھر چند سالوں سے عربوں کو سندحدیث سے نواز رہے تھے، وہ ان کو کویت قطر اور حرمین شریفین بلاتے اور سندحدیث فراہم کرتے، کم پڑھے لکھے عربوں میں سند حدیث حاصل کرنے کا فیشن عام ہوگیا ہے ، سند کی حصولیابی کے لئے وہ کافی جتن کرتے ہیں اور کبھی کبھی ناچیز کو بھی مجیزین تک پہنچنے کا ذریعہ بناتے ہیں ۔ واللہ المستعان۔مولانا یحییٰ بڑے نادر اور قیمتی انسان تھے ، ۱۶؍رمضان المبارک ۱۴۴۴ھ مطابق ۸؍اپریل ۲۰۲۳ کو راہی ملک بقا ہوئے اور اپنے ساتھ معلومات کا گنج گراں مایہ لے گئے ۔غفراللہ لہ وادخلہ فسیح جناتہ۔