خواجہ عبدالمنتقم
کتاب ہدیٰ کا یہ پہلا سبق ہے کہ پوری کی پوری دنیا اس کا کنبہ ہے(جسے اب گلوبل ولیج کا نام دیا جا رہا ہے) اور ظاہر سی بات ہے کہ خدائے برترنے رب العالمین ہونے کے ناطے یہ ضرور چاہا ہوگا کہ اس کے کنبے کے افراد اس دنیا میں اچھے اور نیک کام کریں۔اسی لیے جہاں اس نے کائنات میں صرف اولاد آدم کو اپنی خلافت و نیابت سے سرفراز کیا اور یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ وہ اس سرزمین پر احکام الٰہی جاری کرے اور اس عالم کو ظلم و ستم، شرو فساد سے پاک و صاف رکھے اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے، اسی غرض سے اس نے ہر ملک، ہر خطے اور ہر قوم میں ہادی و نبی بھیجے اور کتابیں اتاریںتاکہ خدا کے بندے رب العالمین کے احکام کے مطابق صحیح راستے پر چلتے ہوئے اچھی زندگی گزاریں۔ اگر انسانوں نے حقیقتاً یہ راستہ اپنایا ہوتا، تو آج یہ دنیا جنت نظیر بن جاتی، چاروں طرف امن و امان ہوتا، نہ یوکرین بارود کے ڈھیر پر ہوتا،نہ شمال مشرقی ہندوستان پر چین کی ناپاک نظر ہوتی، نہ فلسطین کے لوگوں پر مظالم ڈھائے جاتے، نہ میانمار سے بے گنا ہ لوگوں کو اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا، نہ ہندوستان کو سرجیکل اسٹرائک کرنے کی ضرورت پڑتی غرض یہ کہ موجودہ صدی اور گزشتہ صدیوں میں ایسے لا تعداد انسان مخالف واقعات پیش نہ آتے، انسانیت پھلتی پھولتی، لیکن اولاد آدم نے بندہ ہونے کے بجائے مالک و خالق بننے اور فرمان الٰہی سے رو گردانی کرنے کی کوشش کی اور اس نے خود کو دو زمروں میں بانٹ لیا۔ طاقتور اور کمزور۔ پہلی جنگ عظیم، دوسری جنگ عظیم، ویتنام اور حال میں افغانستان میں جو کچھ ہوا،اس سے کسی نے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی۔
بڑے اور طاقتور ممالک نے چھوٹے ا ورکمزور ممالک کو مغلوب کرنا اپنی خارجہ پالیسی کا کلیدی نکتہ بنا لیا ہے اور جو ملک ان کے کہنے پر نہیں چلتا یا سفارتی امور میں ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا، اسے ہر طرح سے پریشان کرنا انہوں نے اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ ان بڑی طاقتوں نے عالمی فورموں میں بہ بانگ دہل ہمیشہ عالمی امن، انسانی حقوق کے تحفظ،عالمی اخوت اور مساوات کی بات کی لیکن ’الف‘ اور ’ب ‘ یعنی حلیف اور حریف کے معاملے میں دوہرے پیمانے اپنا ئے۔ ایک ملک کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکا اور اقتصادی پابندیاں لگائیں تو دوسرے ملک کو بے لگام آزادی دی۔ اپنے حلیف کی بڑی سے بڑی قابل مذمت حرکت پر خاموش رہے اور ہر ظالمانہ حرکت کو نظر انداز کیا مگر اپنے حریف کی چھوٹی سی بات کا بھی نوٹس لیا۔مشرق وسطیٰ کے واحد سیکولر رہنما صدام حسین کو یہ بے بنیاد الزام لگا کر کہ عراق کے پاس جوہری ہتھیاروں کا خزانہ ہے تختۂ دار پر چڑھوا دیا تو دوسری جانب اپنے مفادات کی خاطر یا بغض معاویہ کی شکل میں ان ممالک کی یا تو مذمت نہیں کی اور اگر کی بھی تو صرف علامتی نوعیت کی جنہوں نے فلسطین یا میانمار میںجمہوری اقدار کو بالائے طاق رکھ کے مجبور اور کمزور انسانوں پر ہر طرح کے ظلم ڈھائے۔اب جب رنج دیا بتوں نے تو خدا یاد آیا اور آج انہیں ایسی صورت حال کا سامنا ہے جس کے بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا ’لو آج اپنے دام میں صیاد آگیا‘۔ یہی وہ ممالک ہیں جنہوں نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے منشور اور انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کی حمایت و وکالت کی لیکن پس پردہ ایک ملک کو دوسرے ملک سے کبھی خفیہ طور پر اور کبھی کھلم کھلا لڑانے کی کوشش کی۔دراصل یہ لڑائی صرف انا کی لڑائی ہے۔ ایک ملک کو دوسرے ملک کو زیر کرنے کی لڑائی ہے۔ لڑنے وا لوں اور لڑانے والوں کی نیت صاف نہیں،ہر ایک کا اپنا اپنا سیاسی ایجنڈا ہے۔
اقوام متحدہ کا قیام آنے والی نسلوں کو جنگ وجدل سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا تاکہ تیسری جنگ سے بچا جاسکے، طاقتور ممالک چھوٹے وکمزور ممالک کو مغلوب کرنے کی کوشش نہ کریں،تمام اقوام کو خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی برابر کا درجہ حاصل ہو،انسانی عظمت کا تحفظ ہواور تمام بین الاقوامی تنازعات کو پرامن طریقے سے طے کیا جائے، تمام ممالک کو اچھے پڑوسیوں کی طرح رہنے کا موقع ملے اور کوئی ملک بلا ضرورت طاقت کا استعمال نہ کرے، نہ کہ دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر لے جانے کے لیے۔
مغربی طاقتوں، دیگر ممالک و ناٹوسے وابستہ ممالک کو چاہیے تھا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صرف بات کرنے کے بجا ئے روس سے کہتے ’کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا ‘اور اسے سمجھاتے کہ وہ ایسا نہ کرے۔ مگر انہوں نے بھی اسے اپنی انا کا مدعا بنا لیا اور یوکرین کو ہر طرح کی امداد دینے اور اسے یوروپی یونین اور ناٹو کا رکن بنانے کی بات کرکے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔ کچھ بھی ہو برق تو یوکرین والوں پر ہی گرے گی۔ رہی بات تیسری جنگ عظیم کی، اس کا امکان نہ کے برابر ہے۔ چیونٹی کتنی ہی بہادر کیوں نہ ہو، اس کا اور ہاتھی کا کیا مقابلہ؟ بے چاری چیونٹی ہاتھی کے پاؤں کے نیچے آچکی ہے اور آپ بڑے بڑے وعدے کرکے اسے پستے ہوتے دیکھ رہے ہیں۔جب یوکرین میں ناٹو سے وابستہ ممالک اور یوروپی ممالک کو روس سے براہ راست ٹکر لینے کی ہمت نہیں ہوئی تو کیا کبھی یہ ممالک تیسری جنگ جیسی حماقت کر پائیں گے۔ویسے بھی اس قسم کا فیصلہ کوئی خبط الحواس حکمراںہی کرسکتا ہے۔ یوکرین جیسا ملک،کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو اور وہاں کے لوگ کتنے ہی بہادر اور جانباز کیوں نہ ہوں دوسروں کی امداد کے سہارے اپنے سے کئی گنا اور چھ گنے سے زیادہ طاقتور اور چھ سو سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک سے کب تک لوہا لے سکتا ہے۔ رہی بات کسی بڑی طاقت کی پشت پناہی یا ہر طرح کی امداد کی تو اسرائیل جیسے چند ممالک ہیں جن کے آقاؤں نے ان کا ساتھ دیا ہوورنہ:
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کے موجودہ سربراہا ن ٹرمپ جیسے جذباتی نہیں جو پل میں ماشہ تو پل میں رتی،کبھی روس کی تعریف تو کبھی تنقید، کی طرح جذبات کی رو میں بہہ کر خود کو آتش تاب کے حوالے کر دیں۔بڑی مشکل سے تو انہیں افغانستان سے نجات ملی ہے۔ یوکرین کے حکمراں یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس طرح کے مسئلے کا حل میدان جنگ میں نہیں میز پر ہوتا ہے۔اپنے کندھوں پر دوسروں کے ہاتھ رکھواکر کسی کی مستقل حمایت کے مبالغہ میں مت رہیے۔ سیاہ بختی میں کون کس کا ساتھ دیتا ہے، تاریکی میں تو سایہ بھی جدا ہوتا ہے، انساں سے۔دنیا نے کتنے ہی حکمرانوں کو بلی کا بکرا بنتے ہوئے دیکھا ہے مگر نادان پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔امید کی جانی چاہیے کہ یوکرین کے عوام اور اس کے حکمراں یوکرین کو فلسطین نہیں بننے دیں گے۔کبھی کبھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ حملہ آورفریق غلطی پر ہے کمزور فریق کو مصلحتاً نرم رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔یوکرین کو بھی آج اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے۔ یوکرین کے بہادر عوام اور ان کی فوج روس کی فوجی طاقت کا کس طرح مقابلہ کریں گے؟
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]