اب غزہ کا تنازع اورمغربی ایشیا کی صورت حال اس قدر پیچیدہ ہوگئی ہے کہ ایک شخص کے رہنے یانہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جنگ کادائرہ مسلسل وسیع ہوتا جارہا ہے۔ مستقبل قریب میں یہ جنگ ختم ہو،اس کا امکان بہت محدود ہے۔ بلکہ یہ جنگ تیسری عالمی جنگ کا روپ اختیار نہ کرلے اس کا بھی ڈر ہے۔ لبنان میں اسرائیل کی فوجی نالش نے بے گناہوں کے قتل عام کا ایک اور بڑامحاذ کھول دیا ہے۔ لبنان کے ایک شہرکی میونسپل عمارت میں بمباری سے اسرائیل نے کئی درجن لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا ہے۔ ایران نے دھمکی آمیزانداز میں کہا ہے کہ اب مفاہمت اور قیام امن کے راستہ بند ہوگئے ہیں۔ ایران اور اسرائیل میں براہ راست جنگ چھڑی ہوئی ہے اور اب بس اس بات کا انتظار ہے کہ کب یہ جنگ شدید روپ اختیارکرلے گی۔
اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ وہ ایران کے نیوکلیائی تنصیبات اور پیٹرولیم کارخانوں پرحملہ کرے گا۔ امریکہ نے اس کو ایسا نہ کرنے کی صلاح دی ہے۔ اسرائیل کا ارادہ کچھ اور لگتا ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات سے قبل وہاں جنگ ممکن نہیں ہے۔ امریکہ چاہتاہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی معاہدے سے کچھ فائدہ حاصل کرلے گی۔ اسرائیل اس سے پہلے ہی کہتا رہاہے کہ امریکی انتظامیہ الیکشن میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہرحال میں سمجھوتہ کرناچاہتی ہے، مگرامریکہ نے اس بات کی تردید کی ہے۔ بہرکیف اب دیکھنا یہ ہے کہ جوبائیڈن کے منظورنظر ان کے لیے کیا کرکے دکھائیں گے۔ اسرائیل کو بالکل جلدی نہیں ہے، نتن یاہو کو امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کا انتظار ہے۔ وہ کسی بھی سمجھوتہ کے لیے نئی انتظامیہ یا نئی صورت حال کا انتظار کریں گے۔ کملاہیرس سے ان کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ جیت گئے تووہ اپنے ایجنڈے کو اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھائیں گے۔ اس کے لیے وہ تیاری کرچکے ہیں ۔ مغربی کنارے کو وہ مکمل طورپراپنے کنٹرول میں لے کر اپنے مکمل اقتداراعلیٰ میں لے آئیں گے۔ اس طرح آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ بالکل بند ہوجائے گا۔ یہی وہ صورت حال ہے جوخطہ کو تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر لے جائے گی۔ روس پہلے ہی اسرائیل کو کہہ چکاہے کہ وہ ایران پرحملہ کرنے کی غلطی نہ کرے۔ روس اور ایران ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ دونوں طاقتوں میں اسلحہ، گولہ باردو، ٹیکنالوجی کا تبادلہ خوب ہو رہا ہے۔ یوکرین کے خلاف ایرانی اسلحہ اور اعلیٰ ٹیکنالوجی والے جدید ترین ڈرون استعمال ہورہے ہیں۔
کئی مبصرین کا کہناہے کہ یحییٰ السنوار کی موت جنگ بندی کے امکانات کھولنے والی بھی ہوسکتی ہے اور بند کرنے والی بھی۔ نتن یاہو نے حماس سے کہاہے کہ اس کا لیڈرمارا گیا ہے اوراب وہ خودسپردگی کردیں۔ دوسری جانب القاسم بریگیڈنے تصادم کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ کمانڈر کی موت مزاحمت کاخاتمہ نہیں۔ یہ بات خود اسرائیل کے ماہرین کہہ رہے ہیں۔ جذبہ حریت کوختم نہیں کیاجاسکتا۔ اسرائیل حوصلوں کو توڑنے کے لیے حماس اور فلسطینی عوام پر اوربے رحمی سے کارروائی کرے گا۔ کیونکہ ابھی نہ توحماس نے ہتھیار ڈالے ہیں اور نہ یرغمالیوں کو آزاد کرایاجاسکاہے۔ اسرائیل کے سامنے اولین ترجیح یرغمالیوں کو آزاد کرانے کی ہے۔ ابھی بھی 97یرغمالی حماس کے قبضہ میں ہیں۔