محمد ثاقب نظامی
وہ لوگ جنہوں نے خوں دے کر اس چمن کو زینت بخشی ہے
دوچار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں
نی دہلی :
مجھے اپنے آزاد وطن ہندوستان ، اپنے سیکولر جمہوری آئین اور اپنی گنگا جمنی مشترکہ تہذیب پر ناز ہے ، ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہے جو کثرت میں وحدت اور سیکولر جمہوری قدروں کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ ہمارا آئین ہر مذہب و عقیدہ کے ہندوستانی کی شخصی آزادی ،ہر فرد کی مذہبی، سماجی ،روایتی قدروں کے تحفظ کا ضامن ہے ،ہر قوم ہر فرقہ ہر قبیلہ اور ہر عقیدہ کے ہندوستانیوں کے حقوق مساوی ہیں ۔ مقدس ہندوستانی آئین کی رو سے ہندو،مسلم ،سکھ عیسائی
سب کے حقوق برابر ہیں ،کسی کو کسی پر فوقیت نہیں، کوئی برتر اور کوئی کمتر نہیں۔ اور یہ اس لئے ہے کیونکہ ہندوستان کی حریت کا دیپ شہیدوں کے لہو سے ہی روشن ہوا ہے ،انہی کی عظیم اور لا زوال قربانیوں کے بدولت ہم آج شان سے کہتے ہیں کہ ہم آزاد ہندوستان کے آزاد باسی ہیں ، ملک ہندوستان کی آزادی ہندو مسلم سکھ عیسائی کے اتحاد سے پوری ہوئی ،ملک کے سبھی طبقات نے جنگ آزادی میں برابر کا حصہ لیا
مگر یہ بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان مجاہدین آزادی کو نظر انداز کر دیا گیا ان کو تایخ کے صفحات سے لے کر عجائب گھروں تک سے ان کی نشانیاں مٹائی جاچکی ہیں ۔
ہزاروں ایسے مجاہدین آزادی تھے جنہوں نے اپنی جانیں قربان کی تھی مگر آج انکا ذکر نہیں ملتا ہے ۔ بہادر شاہ ظفر پہلی جنگ آزادی کے پیشواتھے اور ان کی قیادت میں ملک کے سبھی طبقات نے انگریزوں سے لوہا لیا تھا ،جنرل بخت خاں آخری مغل تاجدار کے سپہ سالار تھے جن کی فوجی قیادت نے انگریزوں کے قدم لرزا دیئے تھے ۔ مولانا فضل حق خیرا بادی جنہوں نے انگریزوں کے خلاف فتوی جہاد مرتب کیا تھا ۔ لکھنو کی بیگم حضرت محل جو اخیر تک اودھ کو غیر ملکی قابضوں سے بچانے کی کوشش میں لگی رہیں ۔ آج ان سبھی لوگوں کو فراموش کیا جاچکا ہے جو یقینا اس دیس کے محسن ہیں ۔
اج مولوی باقر کو کوئی نہیں جانتا جو پہلے صحافی تھے جنہیں حق گوئی کی پاداش میں پھانسی پر چڑھایا گیا تھا آج تاریخ کے صفحات میں ان علماء کرام کا نام نہیں ملتا جنہوں نے 1857ء کے انقلاب میں بڑی بڑی قربانیاں دیں اور ان میں سے سکیڑوں کو کالا پانی کی سزا ہوئی یہاں موجود ان کی قبریں آج بھی بہت کچھ بتانے کے لئے کافی ہے ۔ ان سبھی جانباز شہداءکو فراموش کیا جا چکا ہے اور مشکل ہی سے کسی کتاب میں ان کا تذکرہ ملتا ہے ۔ مولانا محمود الحسن نے ہندووں اور مسلمانوں کی طرف سے انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے کا پیغام پورے ملک میں پھیلانے کا ایک پلان تیار کیا تھا جیسے ''ریشمی رومال تحریک ''کہا جاتا ہے ان کے علاوہ دوسرے علماء نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ۔ مولانا حسرت موہانی انہوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا اور بہت سی تکلیفوں اور مشکلات سے دوچار ہوئے الغرض بہت شہداءکے لہو سے ہند کی آزادی کا دیپ روشن ہوا ہے
اور یقینا اس ملک میں حریت کا دیپ روشن نہ ہو پاتا اگر ہندو مسلم سکھ عیسائی مل کر اتحاد کے ساتھ وطن کی محبت ، غلامی سے نفرت اور جانوں کے پروا کے بغیر جہد مسلسل کا علم ہاتھ میں لے کر ظالم کے خلاف اپنے سے کئی گنا بڑے طاقتور سے نبردآزما ہو کر جام شہادت نوش نہ فرماتے تو یہ ملک غلامی کے زنجیر سے کبھی نہ آزاد ہوتا۔
ہندوستان وہ خوش قسمت ماں ہے جس کے ہزاروں فرزند مادر وطن پر مرمٹے لیکن
وہ لوگ جنہوں نے خوں دے کر اس دیش کو زینت بخشی ہے
دو چار سے دنیا واقف ہے گمنام نہ جانے کتنے ہیں،