عبدالسلام عاصم
دنیا کے بعض خطوں بشمول بر صغیر کا عصری، سماجی و سیاسی منظرنامہ انسانوں کو خانوں میں بانٹنے کی کہیں کھلے عام تو کہیں درپردہ منظم کوشش کی کامیابی سے عبارت ہے۔ یہ کوشش گھر وں اور عام درس گاہوں سے(جانے انجانے میں) بالواسطہ نیزبعض نظریاتی تعلیمی اداروں کی جانب سے براہ راست کی جاتی ہے۔ اس کوشش سے متاثر ماحول میں انسانیت کی تلاش صحرا میں پانی کی جستجو میں تلوے رگڑنے جیسی ہے جو سراب کا دائرہ تو وسیع کر سکتا ہے لیکن پیاسوں کیلئے پانی مہیا نہیں کر سکتا۔
کائنات کی تخلیق کا علمی مقصدخداوندی اس کے عین برعکس ہے۔ اسے سمجھنے کیلئے ’’فرشتگی‘‘ کی نہیں ’’جویا ذہن‘‘ کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے کی تبلیغ کے ہتّھے چڑھ جانے والوں کو یہ سمجھانا مشکل ترین سے ناممکن کام بنتا جارہا ہے کہ وہ سرحدوں کی تقسیم کیلئے نہیں کائنات کی تسخیر کیلئے پیدا کیے گئے ہیں۔ علم الانسان مالم یعلم کے مفہوم کے نمایاں پیکر کی شکل میں چاروں طرف موجود سائنس داں، ڈاکٹر، انجینئر، تکنیکی، اطلاعاتی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ماہرین اپنی تمام تر موجودگی کے باوجود اُن لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں جن کی دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت ذہن سازی کے نام پر بچپن میں ہی چھین لی جاتی ہے۔ وہ صرف روایات، حکایات اور فرمودات کو سن کر اور رٹ کر جینے پر قادر رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں افسانوی روایات کے برعکس کوئی بات سمجھانے کی کوشش ایک ایسے سماج میں جان کو خطرے میں ڈالنے کے مساوی ہے، جہاں بظاہر جان لینے اور دینے تک ہی عبادت کو محدود کرنے کی کوشش عام ہوتی جا رہی ہے۔
جو لوگ مذہب بیزار ہیں ان کا رات دن پیرانِ دیر و حرم کو کوستے رہنا بھی ایک طرح سے اُن کی مذہبی وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ بصورت دیگر وہ زندگی سے اپنے طور پر معاملات کریں اور اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کو کامیاب اور بابرکت بنا کر ان لوگوں کیلئے مثال چھوڑ جائیں جو اُن کو غلط سمجھتے آئے ہیں۔ دوسری طرف مذہب کا بے ہنگم دفاع کرنے والے بھی کم مصیبت نہیں۔ وہ بھی رات دن ٹیلی مباحثے میں تلخیوں کو گالی گلوج تک لے جا کر غیر صحت مند قسم کا انٹرٹینمنٹ مہیا کرنے والوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ جو مذہبی / غیر مذہبی لوگ ایسی بحثوں کو دیکھ رہے ہیں، ان دونوں کا اپنے اپنے طور پر کیا بھلا ہو رہا ہے! اس سے نہ تو مذہب پسندوں میں اعتدال پیدا ہو رہا ہے اور نہ مذہب بیزاروں میں ایسی کوئی بیداری آ رہی ہے جو انہیں دنیا کیلئے اچھی نظیر بنا دے۔
ترقی یافتہ ملکوں کا علمی اور سائنسی حلقہ کیا رات دن کلیسہ، کنیسہ اور دیگر معبدوں کا کاروبار کرنے والوں کو کوسنے میں لگا ہوا ہے! کیا کامیاب اقوام کے ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور دوسرے پڑھے لکھے لوگ مذاہب کا مذاق اڑانے کے چینل چلا رہے ہیں!! ہر گز نہیں، حقیقی علم سے بہرہ ور لوگ کائنات کی تسخیر کے مقصد ایزدی کو کامیاب بنانے میں سرگرداں ہیں اور اپنی بعض عجلتوں، کوتاہیوں اور خامیوں کو درست کرنے میں لگے ہیں جیسے آب و ہوا میں منفی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانا اور فطری وسائل کے بے جا استعمال سے عملاً توبہ کرنا وغیرہ۔ یوکرین میں ہونے والی جنگ بھی شاید جنگوں کی تاریخ کی آخری کڑی ثابت ہو۔ اہل علم کی وجہ سے بین ممالک سرحدوں کا مفہوم بدلنے لگا ہے۔ بین سرحد اشتراک کا دائرہ راست طور پر انسانی بہبود سے جوڑنے اور اس طرح ایک نا جنگ عہد کا آغاز کرنے میں ترقی یافتہ دنیا کامیابی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے۔
ایسے میں بر صغیر سمیت پسماندہ اور ترقی پذیر معاشرے میں ردو قبول کا کوئی بھی جارحانہ دھندہ ایسے فرقوں کیلئے قطعی صحت مند نہیں جن کے پاس علم کا دائرہ محدود اور عقائد کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ کووڈ ویکسین کے نقصانات پر پھیلی افواہوں سے بھی ایک کمیونٹی مبینہ طور پر اتفاق کر بیٹھتی ہے۔ بچپن سے سنتا آیا ہوں کہ بری صحبت اچھے کو خراب کر دیتی ہے۔ وطن عزیز اس وقت کچھ اسی طرح کی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ ذمہ دار حلقوں کو چاہیے کہ وہ ملک کے دونوں بڑے فرقوں کو GPS سے ہم آہنگ کریں تاکہ نسلی اور مذہبی تصورِ حیات کو اعلیٰ ترین اخلاقی صنف سمجھنے کا سلسلہ بند ہو۔ یہ سوچ ہر عہد میں قوموں کیلئے ہلاکت خیز رہی ہے۔ افسوس قبائلی عہد سے موجودہ علمی/سائنسی عہد تک دنیا کے بعض خطے اس فکر کی گرفت میں ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ نئی نسل کو بے کم و کاست بتایا جائے کہ سماجی ظلم و جبر سے نجات کی جو تحریک دل سے زیادہ ذہن سے چلائی جاتی ہے وہ صرف ظالموں کا رنگ روپ اور بھیس بدل پاتی ہے، مظلوموں کی قسمت نہیں۔ ماضی قریب میں اس کی مثالیں روس اور ایران کے بالترتیب یساری اور یمینی انقلابات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ویسے توکثرت میں وحدت کی آسمانی اور زمینی دونوں طرح کی تعبیریں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں لیکن دونوں سے استفادہ کرنے کا دائرہ موجودہ پسماندہ اور ترقی پذیر دونوں معاشروں میں مسلسل محدود ہوتا چلا آرہا ہے۔ بدقسمتی سے ان معاشروں کے ناظمین خود تو روشن اور ترقی یافتہ ملکوں میں جاکر اپنی دنیاوی تسکین کا سامان کرلیتے ہیں لیکن اپنے تاریک معاشرے پر اُس روشنی کی کرنیں نہیں پڑنے دیتے۔ البتہ سائنسی ترقی کے حربی پہلو سے وہ خوب استفادہ کرتے ہیں۔ نیوکلیائی ہتھیاروں کا جو انبار آج ترقی پذیر اور نظریاتی محدودیت کے شکار ملکوں میں ہے وہ ترقی یافتہ اقوام کے پاس نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کو اب نیٹو اور وارسا پیکٹ سے زیادہ دلچسپی جی 7 اور جی 20 گروپوں کی تشکیل سے ہے تاکہ گاؤں میں تبدیل ہوتی دنیا میں بقائے باہم کے رخ پر امداد باہمی کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کیا جا سکے۔
خدا کرے ہندوستان جو سر دست جی 20 کا سربراہ ہے ایسی انجمنوں کی تشکیل کے اصل مقصد کو مقصد ایزدی سے ہم آہنگ کرپائے اور اس کے فطری تقاضوں کے رخ پر خود بھی آگے بڑھے اور اپنے ہمسایوں کو بھی متاثر کرے۔ آمین یا رب العالمین۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں میں ہندوستان نے حقیقی علم/سائنس کے سفر میں ایک سے زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اپنے ہمسایوں میں اس لحاظ سے ممتاز ہندوستان کو آج دنیا کی نظروں میں جو احترام حاصل ہے، اس کا سابقہ صدی میں خواب زیادہ دیکھا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عملاً آج بھی ہم گھر کی باہری دیواریں اونچی کرنے اور ہمسایوں سے دوستی کے بجائے اجنبیت بڑھانے میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔
باوجودیکہ اکیسویں صدی کے تازہ موڑ سے گزرنے والی نسل کو الحمداللہ انقلابی ضرورتوں کا عملاً ادراک ہونے لگا ہے۔ ہر چند کہ گمراہ سماج معبدوں کے جھگڑوں، ان میں دھماکوں اور بین فرقہ قتل کی وارداتوں سے اٹ گیا ہے لیکن اس صورتحال سے راست طور پر الجھنے کے بجائے اس پر بالواسطہ قابو پانے کی کوششیں اب تیزی سے پروان چڑھتی نظر آرہی ہیں۔ میڈیا کے ایک حلقے کو بھی اس تبدیلی کا احساس ہونے لگا ہے لیکن محدود مفادات والے دنیاوی کاروبار نے اس کے ذہن کو اتنا الجھا رکھا ہے کہ میڈیا کے تمام ذمہ داران ایک دم سے انقلاب آفریں تبدیلی سے گزرنے کے سردست متحمل نظر نہیں آتے۔ پھر بھی اندیشوں پر امکانات کو ترجیح دینے سے اتفاق کرنے والے کچھ ذمہ داران مسلسل کوشاں ہیں کہ شہ سرخیوں کو روزانہ خون میں ڈبو کر سامنے لانے کا معمول بدلا جائے۔ جاری دہائی اس رخ پر کتنی تبدیلی کا مظہر بن سکتی ہے، اس بابت کوئی پیشین گوئی تو نہیں کی جا سکتی لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہم تاریک رات کے پچھلے پہر سے گزر رہے ہیں جس کے بعد یقینی طور پر صبح ہو گی اور اُس پر ہم سب کا حق ہوگا۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]