انتخابی موسم کی آہٹ کے ساتھ سیاست دانوں کے لہجے میں خیرخواہی کی شیرینی گھل جاتی ہے اوران کا ہر فیصلہ عوامی مفاد کے عنوان سے سرفہرست آتا ہے۔ کچھ ایسا ہی منظرآج 8 جولائی 2025 کو بہار کی راجدھانی پٹنہ میں دیکھنے کو ملا۔وزیراعلیٰ نتیش کمار کی زیر صدارت ہوئی کابینہ کی میٹنگ میں ایک چونکانے والا فیصلہ سامنے آیاہے کہ سرکاری ملازمتوں میں 35 فیصد ریزرویشن صرف بہار کی مقامی خواتین کو دیا جائے گا۔ یہ اعلان بہ ظاہر خواتین کو بااختیار بنانے کا نعرہ ہے،مگر اس کے پس پردہ سیاسی مفاد کی ایک مکمل بساط بچھی نظرآتی ہے،جس کا اصل ہدف اگلے مہینوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی نتیش کمار 2016 میں تمام خواتین کیلئے 35 فیصد ریزرویشن کی منظوری دے چکے تھے،جس میں ریاست سے باہر کی خواتین بھی شامل تھیں۔ مگر اب آٹھ سال بعد،عین انتخابی برس میں،اس ریزرویشن کو ’’مقامی خواتین‘‘ تک محدود کر دینا دراصل ڈومیسائل پالیسی کو مزید سخت اور سیاسی طور پر مخصوص بنانا ہے، جو بظاہر خواتین کے حق میں مگر درحقیقت سیاسی بازی گری کا نیا روپ ہے۔نتیش حکومت کی پالیسی میں تضاد کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جب ریاست کا ہر نوجوان روزگار کی تلاش میں دہلی، ممبئی، گجرات اور پنجاب کی خاک چھان رہا ہے تو ایسے میں ملازمتوں کو مقامی خواتین تک محدود کرنا ایک نئی تقسیم کا بیج بو رہا ہے۔
اسی اجلاس میں حکومت نے بہار یوتھ کمیشن کی تشکیل کی بھی منظوری دی ہے۔ اس کمیشن کا مقصد نوجوانوں کو تعلیم، روزگار، تربیت اور نشہ مخالف سرگرمیوں کے ذریعے نئی سمت دینا بتایا گیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب ریاست کے لاکھوں نوجوان گزشتہ دہائی سے روزگار کے منتظر ہیں،بہار پے در پے تعلیمی بدحالی،اساتذہ کی قلت اور نقل کے کلچر کا سامنا کر رہا ہے تو کیا ایک کمیشن ان زخموں پر مرہم رکھ سکے گا؟
2025 کے مئی میں شائع ہونے والے پری پول سروے کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) کو ووٹ دینے کی خواہاں نظر آئی،جبکہ مرد ووٹروں میں مہاگٹھ بندھن کی طرف جھکائو نمایاں تھا۔ اس سروے کے نتائج کو نتیش کمار نے ایک فیصلہ کن موقع سمجھ کر خواتین کو ریزرویشن کے نئے وعدے سے نواز دیا تاکہ ان کے حق میں خواتین ووٹوں کی جھولی بھر جائے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بہار میں خواتین ووٹروں کی تعداد مرد ووٹروں کے برابر،بلکہ بعض حلقوں میں زیادہ ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں خواتین ووٹر ٹرن آئوٹ 59.7 فیصد رہا جبکہ مرد ووٹروں کا تناسب54.7 فیصد رہا۔ یہی رجحان خواتین کو سب سے مؤثر اور فیصلہ کن ووٹر بلاک بناتا ہے،جسے لبھانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم سوالات کی ایک طویل فہرست اس فیصلے کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ کیا ریزرویشن کے اس دائرے میں واقعی کوئی شفاف اور مؤثر نظام ہوگا؟ کیا ان خواتین کو ملازمتیں دینے کا کوئی ٹھوس خاکہ بھی ہے یا صرف کاغذی اعلان؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیا یہ فیصلہ آئینی برابری کے اصولوں کے مطابق ہے یا یہ بہار میں مقامی بمقابلہ غیرمقامی کی خلیج کو مزید گہرا کرے گا؟ یہ بھی طے ہے کہ اس ریزرویشن سے مرد امیدواروں میں ناراضی بڑھے گی، خاص طور پر ان طبقوں میں جو پہلے ہی ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن سے ناخوش ہیں۔ اپوزیشن اس غصے کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بہار میں سرکاری ملازمتیں ویسے ہی محدود ہیں اور ان میں بھی ریزرویشن در ریزرویشن کی تہیں،نوجوانوں کے مستقبل پر دبائو ڈال رہی ہیں۔ پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا یہ 35 فیصد ریزرویشن آنے والے مہینوں میں عملی جامہ پہن سکے گا یا یہ محض انتخابی اعلان بن کر رہ جائے گا؟ تاریخ بتاتی ہے کہ اعلان اور عمل کے درمیان حکومتوں کے قدم اکثر ڈگمگا جاتے ہیں۔
یہ انتخابی چال کس حد تک کامیاب ہوتی ہے،اس کا فیصلہ تو آنے والے مہینوں میں ووٹ کی پرچی کرے گی، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عوام کو بار بار بیوقوف بنانا اب پہلے جتنا آسان نہیں رہا۔ عوام پوچھیںگے،سوال کریں گے کہ ان اعلانات کے بعد کتنی خواتین کو واقعی ملازمت ملی اور کیا یہ محض ووٹ کا جال تھا،یا بہار کی بیٹیوں کیلئے کوئی دیرپا سبیل؟