محمد قمر الزماں ندوی
آنحضرتؐ کا ارشاد گرامی ہے ’’مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اللہ تعالیٰ اس کے حق میں جو فیصلہ کرتا ہے، وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے، مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے، اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے، خوش حالی میسر آئے تو شکر کرتا ہے، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہوتا ہے، یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی‘‘( صحیح مسلم 7425) ۔ صبر و شکر کی یہ عظیم دولت ہے جس کے ذریعہ مومن اس دنیا میں ہر طرح کے حالات و مشکلات اور مصائب وآلام کا مقابلہ کرسکتا ہے اور خوشی و رنج تکلیف و راحت کے وقت اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے، یہ دولت اور انعام صرف اور صرف مومن کو حاصل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفتوں کو اتفاق کا نتیجہ سمجھتا اور خیال کرتا ہے یا دنیوی طاقتوں کو ان کے لانے اور روکنے میں موثر مانتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں آدمی کم ظرف ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت برداشت کر لیتا ہے لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ ہر ذلت کو قبول کر لیتا ہے۔ ہر غیر شرعی حرکت کر سکتا ہے۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا، نعوذ بااللہ ،حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے۔
اس کے برعکس جو شخص یہ جانتا اورسچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے، اسی کے حکم سے مصیبت آتی ہے اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے، اس کے دل کو اللہ تعالیٰ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے۔ اس کو عزم و ہمت، صبر و شکر اور ثبات و یقین کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت، ہمت اور حوصلہ بخشتا ہے۔ تاریک سے تاریک اور مشکل سے مشکل حالات میں اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے اور کوئی بڑی سے بڑی آفت اور پریشانی بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جائے ، باطل کے آگے سر جھکا دے یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔ اس طرح ہر مصیبت اس کے لیے مزید خیر کے دروازے کھول دیتی ہے اور مصیبت بھی حقیقت میں اس کے لیے مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجہ کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے۔ کیونکہ خواہ اس کا شکار ہوکر رہ جائے یا اس سے بعافیت گزر جائے، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہوکرنکلتا ہے۔ اسی مفہوم کو آپؐ نے مذکورہ حدیث شریف میں بیان فرمایاہے۔یہ دنیا امتحان اور آزمائش کی جگہ ہے۔ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے مصائب و مشکلات کی آماجگاہ اور آفات و بلیات کی گزر گاہ بنایا ہے اور صرف اللہ ہے جس کی ذات تنہا حاجت روا ،مشکل کشا اور پناہ گاہ ہے۔تقریبا دو سال سے موجود وبائی مرض کرونا وائرس نے بھی ہر چہار جانب دہشت و وحشت اور خوف وہراس کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔اس موقع پر اچھے اچھے لوگوں کے قدم ہل گئے ہیں۔ایک بڑی تعداد نے اسباب کو ہی سب کچھ سمجھ لیا ہے لیکن ایمان والے اس موقع پر بھی صبر و شکر کے پیکر بنے ہوئے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایمان والوں کو خاص توفیق ہے۔اس مشکل موقع پر جس سے ہم لوگ دوچار ہیں ضرورت ہے کہ ہم مذکورہ حدیث پر عمل کریں اور صبر و شکر کا اپنے کو عادی بنائیں، اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلہ پر راضی برضا رہیں۔
صبر و شکر کی یہ عظیم دولت ہے جس کے ذریعہ مومن اس دنیا میں ہر طرح کے حالات و مشکلات اور مصائب وآلام کا مقابلہ کرسکتا ہے اور خوشی و رنج تکلیف و راحت کے وقت اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے، یہ دولت اور انعام صرف اور صرف مومن کو حاصل ہے۔
اللہ تعانی نے قرآن مجید میں مشکل موقع پر ایمان والوں کو صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد اور نصرت و استعانت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد چاہو‘‘(البقرہ153-)۔ اس لئے ہم اس درد کے درماں کو نماز اور صبر میں تلاش کریں، ان شاء اللہ سارے مسائل حل ہو جائیں گے اور پریشانیاں کافور ہو جائیں گی۔آیت کے ذیل میں مفسر قرآن مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے جو کچھ لکھا ہے،غور سے پڑھئے ، اپنے ایمان کو تازہ کیجئے اور عملا اپنی زندگی میں اسے نافذ کیجئے، مولانا مرحوم لکھتے ہیں’’یعنی ہجوم مشکلات کے وقت بھی مشکل کشائے حقیقی سے تعلق برابر جوڑے رہو،اس پر بھروسہ رکھو،اسکے آگے جھکتے رہو— روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ کسی بڑی اور پر قوت ہستی سے تعلق قائم ہو جانے سے دل کو کتنی تقویت حاصل ہو جاتی ہے،خطرہ کے وقت پولیس کے پہنچ جانے سے، کسی بڑے حاکم کے آجانے سے دل کو کیسی ڈھارس بندھ جاتی ہے،شدید بیماری کے وقت کسی نامور طبیب کے آجانے سے ٹوٹی ہوئی آس کیسی جڑ جاتی ہے،پھر جب دل کا ربط ہمہ بیں و ہمہ داں،ناصر حقیقی و محافظ حقیقی سے قائم ہو جائے تو انسانِ بے بنیان کی تسکین خاطر و تقویتِ قلب کا کیا پوچھنا!دنیا میں رہ کر زندگی کی کشمکش میں پڑ کر،مشکلات و مصائب کا پیش آتے رہنا نا گزیر ہے،افراد کو بھی اور امت و جماعت کو بھی ،اور وہ دستور العمل ناقص ہے جو مشکلات کے دفاع اور مصائب سے مقابلہ کا طریقہ نہ بتائے،قرآن مجید نے بجائے غیر ضروری اور نامتناہی تفصیلات میں جانے کے یہاں اشارہ اصل اصول کی جانب کر دیا،صبر کے لفظی معنی تنگی و ناخوشگواری کی حالت میں اپنے کو روکے رکھنے کے ہیںاور اصطلاح شریعت میں اس کے معنی یہ ہیں کہ نفس کو عقل پر غالب نہ آنے دیا جائے اور قدم دائرۂ شریعت سے باہر نہ نکالا جائے۔صبر کے یہ معنی نہیں کہ جو امور طبعی اور بشری ہیں ان کے آثار کو بھی اپنے اوپر طاری نہ ہونے دیا جائے،بھوک کے وقت مضمحل اور نڈھال ہو جانا،درد کی تکلیف سے کراہنا،رنج کے وقت آہ سرد بھرنا،عزیزوں،قریبوں کی موت پر آنسؤوں سے رونا،ان میں سے کوئی شئی بھی صبر کے منافی اور بے صبری میں داخل نہیں۔قرآنی فرمان کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ ہجوم مشکلات کے وقت گھبرا نہ جاؤ،ثابت قدم رہو،دل قابو میں رکھو،خود دل کے بس میں نہ آجاؤ،صبر ایک سلبی کیفیت اور صلوٰۃ ایک ایجابی عمل ہے،ان دو کلیدی لفظوں سے اشارہ ادھر ہو گیا کہ انفرادی اصلاح اور اجتماعی فلاح دونوں کا راز صرف ان دو چیزوں میں ہے، ایک معاصی سے حفظ و احتیاط دوسرے اوامر کا اتباع…حق یہ ہے کہ اس مراقبہ سے بڑھ کر نہ روح کے لئے کوئی غذا ہے اور نہ جراحت قلب کے لئے کوئی مرہم تسکین،یہی ایک تصور ہے اہل ایمان کے لئے جو ہر ناگوار کو خوشگوار،ہر تلخ کو شیریں،ہر زہر کو قند بنا دینے کو کافی ہے‘‘۔
q qq