پانچ ریاستوںمیں ہونے والے انتخابات کے نتائج نے ملک میں اپوزیشن محاذ انڈیا کے امکانات پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ کئی حلقوں میں اس بات پر زور دیا جارہا تھا کہ پانچوں ریاستوں کے انتخابات کانگریس پارٹی اور مجموعی طورپر انڈیا اتحاد کے امکانات کو بہتر کرے گا۔ کئی لوگ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل منی عام انتخابات قرار دے رہے تھے اوریہ بات کسی حد تک اس لئے بھی صحیح تھی کہ جن تین ریاستوں میں الیکشن ہوئے ان میں سے وہ تینوں ریاستیں ہندی بیلٹ تصور کی جاتی ہیں۔ ہندی بیلٹ میں بی جے پی کی گرفت مضبوط ہے اور مدھیہ پردیش میں 18سال کی ان کمبینسی کے پیش نظر یہ امید ظاہر کی جارہی تھی کہ اس مرتبہ کانگریس پارٹی زبردست اکثریت کے ساتھ الیکشن جیتے گی۔ کچھ سیاسی پنڈت تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ 230 ممبران اسمبلی کے ایوان میں کانگریس پارٹی 150سیٹیں تک جیت سکتی ہے۔ لیکن ہوا اس کا بالکل الٹا۔ اسی طریقے سے چھتیس گڑھ کے بارے میں کانگریس ہی نہیں بلکہ دیگر غیرجانبدار مبصرین بھی امید ظاہر کر رہے تھے کہ بھوپیش بگھیل کی قیادت والی ریاستی سرکار دوبارہ الیکشن جیت کر اقتدار میں آئے گی لیکن اس ریاست میں بھی بالکل مختلف صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ یہ کانگریس کو بڑا جھٹکا ہے۔ چھتیس گڑھ اورمدھیہ پردیش دونوں ایک زمانے میں ایک ہی ریاستیں تھیں اور الیکشن سے قبل مدھیہ پردیش میں قبائلیوں اور دلتوں سے متعلق کچھ ایسے ناخوشگوار واقعات پیش آئے تھے جن کو لے کر کانگریس پارٹی کو شیوراج سنگھ چوہان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ ان دونوں ریاستوں میں قبائلیوںکی اچھی خاصی آبادی ہے اور چھتیس گڑھ کا قیام بھی اسی لئے کیا گیا تھا کہ اس خطے میں قبائلیوںکی تعداد زیادہ ہے اور غیرمنقسم مدھیہ پردیش کی حکومت ان قبائلیوں پر خاطرخواہ توجہ نہیں دے پارہی تھی۔ چھتیس گڑھ کے قیام کے بعد ہونا تویہ چاہئے تھا کہ اقتدار بنیادی طورپر قبائلی لیڈروں کے پاس ہوتا یا ان کی فلاح وبہبود کا ایجنڈہ پیش پیش ہوتا، مگر جب سے یہ ریاست قائم ہوئی ہے وہاں پر قبائلیوںکی بات اس قدر ز ور و شور سے نہیں اٹھائی جاتی جتنا کہ دوسرے طبقات کی بات ہوتی ہے۔ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کے انتخابات کا اثر لوک سبھا کے انتخابات پر ضرور پڑے گا۔ لوک سبھا کے انتخابات دور نہیں ہیں اور کانگریس پارٹی چھتیس گڑھ میں اپنی سرکار ڈوبنے اور مدھیہ پردیش میں سرکار نہ بننے سے اس قدر دلبرداشتہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں کے لیڈروںکی زبان سے ایک لفظ نہیں نکل رہا۔ مدھیہ پردیش کے دونوں بڑے لیڈر دگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ بہت سینئر، جہاں دیدہ لیڈر ہیں۔ کئی لوک سبھا انتخابات انہوںنے جیتے ہیںاور مرکز میں پارٹی کو اقتدار میں لانے میںکئی مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ دگ وجے سنگھ تین مرتبہ وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ تمام طبقات میں ان کی گرفت ہے مگر پچھلے الیکشن میں جس طرح بھوپال جیسی باوقار سیٹ سے پہلی دفعہ الیکشن لڑنے والی سادھوی پرگیہ سے ہارے تھے، وہ ان کے لئے کافی تکلیف دہ رہا ہوگا۔
بہرحال حالات بی جے پی کے لئے بہتر ہیں۔ کانگریس پارٹی کے لیڈروںاور ورکروںکا حوصلہ پست ہے۔ اب ان کانگریسیوں کے لئے سب سے بڑا مرحلہ دوبارہ عوام کے سامنے جانا اور لوک سبھا الیکشن سے قبل ووٹ مانگنا رہے گا۔ اسمبلی الیکشن میں ہار کے بعد لوک سبھا الیکشن کے لئے ووٹ مانگنا بہت مشکل مرحلہ ہوگا۔ اگرچہ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ بی جے پی شاندار کارکردگی کے باوجود ابھی تک وزیراعلیٰ کے عہدے کا اعلان نہیں کرسکی ہے، لیکن چند دن میں یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ کانگریس پارٹی کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس نے انتخابی مہم میں جو وعدے کئے تھے کیا ان وعدوںکو لے کر وہ دوبارہ پارلیمانی انتخابات میں جائے گی یا اس کی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ریاست میں کانگریس بہت مضبوط ہے مگر اپنی حلیف پارٹیوں خاص طورپر ان پارٹیوں جوکہ انڈیا اتحاد کا حصہ ہیں، ساتھ لے کر چلنا ہی اہم ہوتا ہے۔ کانگریس کی ریاستی قیادت اپنے زعم میں چھوٹی چھوٹی پارٹیوںکو ساتھ لے کر نہیں چلی۔ اگرچہ یہ پہلو اس کی شکست کا واحد پہلو نہیں ہے، لیکن پھر بھی قومی سطح پر کام کرنے والی کوئی بھی پارٹی ریاستی انتخابات میں اگر علامتی نمائندگی کو بھی برداشت نہیں کرپارہی تو اس کا خمیازہ اس کو بھگتنا ہی پڑتا ہے۔ مدھیہ پردیش میں لوک سبھا کی 29نشستیں ہیں اور بی جے پی نے اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد ہی لوک سبھا انتخابات کے لئے تیاری کا اعلان کردیا ہے اور اس کومشن 29قرار دیا ہے۔ 2019 میں صرف چھندواڑہ سے بی جے پی الیکشن نہیں جیت پائی تھی اور وہاں سے کانگریس کے امیدوار کے طورپر صرف کمل ناتھ اکیلے ہی الیکشن جیتے تھے۔ اس مرتبہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی نے 48.5فیصد ووٹ حاصل کیا ہے جو اب تک کا سب سے زیادہ ووٹ فیصد ہے۔
مدھیہ پردیش میں بی ایس پی، ایس پی، عام آدمی پارٹی سب موجود ہیں اور چند سیٹیں دے کر ان کی شکایات کا ازالہ کیا جاسکتا تھا۔ اس سے قومی سطح پر ایسا میسج جاتا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی زبردست گرفت ہے، اس کا فائدہ کانگریس کو دہلی میں مل جاتا۔ سماجوادی پارٹی اترپردیش میں اس کوکئی سیٹوں پر کنسیڈر کرسکتی تھی۔ اسی طرح بی ایس پی کے ساتھ اگرچہ کانگریس پارٹی کے تعلقات اس قدر خراب نہیں ہیں پھر بھی اگر ایک دو سیٹوںپر بی ایس پی کے امیدوار کے مقابلے میں کانگریس کے امیدوار کو ہٹالیاجاتا یا بی ایس پی کے ساتھ تال میل کرلیاجاتا تو شاید بی جے پی کے خلاف محاذ مضبوطی کے ساتھ سامنے آتا۔ اس کا فائدہ الیکشن میںہوتا یا نہیںہوتا یہ ایک ثانوی بات ہے، مگر آگے چل کر انڈیا اتحاد بہت مضبوط ہوتا۔
راجستھان میں کانگریس کی کارکردگی بہت اچھی تھی، مگر آج سیاسی اختلافات میں ریاست کے انتخابات کا بیانیہ ہی بدل دیا گیا۔ گوجر ووٹر شاید سچن پائلٹ کو نظرانداز کئے جانے کی وجہ سے بی جے پی کے ساتھ چلے گئے، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے تمام تر اختلافات کے باوجود شاندار کارکردگی پیش کی ہے۔ اس کا کریڈٹ تو بی جے پی کی مرکزی اور کسی حد تک ریاستی سرکار کو جاتا ہے۔ کانگریس پارٹی زیادہ تر وقت جنگ بندی میں خراب کرچکی تھی۔ اصل میں کانگریس نے ابتدا میں ہی غلطی کردی۔ سچن پائلٹ کی قیادت میں کانگریس کا برسراقتدار آنا بڑی بات تھی۔ سچن پائلٹ نے دن رات ایک کرکے پارٹی کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اوراقتدار میں لے آئے، مگر ابتدائی چند مہینوںمیں ان کو یہ احساس ہوا کہ اشوک گہلوت ان کی محنت پر وزیراعلیٰ بنے ہوئے ہیں اور ان کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اشوک گہلوت ایک اچھے منتظم ،دوراندیش سیاست داں ہیں۔ ان کی حکومت بہت اچھے طریقے سے چلی۔ فلاحی کام بڑے پیمانے پر ہوئے، مہنگائی سے نجات دلانے میں انہوں نے اہم رول اد ا کیا، مگرسیاست نام ہی ممکنات کا ہے۔ اس کا خمیازہ کانگریس کو لوک سبھا انتخابات میںبھی بھگتنا پڑے گا۔ کانگریس کے ہاتھ سے ایک ایسی ریاست نکلی ہے جو مرکز میں کسی بھی اتحاد کے امکانات میں اہم رول ادا کرسکتی تھی۔ راجستھان کی 25لوک سبھا سیٹوں پر کوئی بھی سیٹ کانگریس کو نہیں ملی اور سب پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو 59.07 فیصد اور کانگریس کو34.24فیصد ووٹ ملا تھا۔چھتیس گڑھ میں بی جے پی نے 11میںسے 10سیٹیں جیتی تھیں جبکہ کانگریس صرف ایک سیٹ پر کامیاب ہوپائی ہے۔ کانگریس کا ووٹ فیصد 40.91 اور بی جے پی کا 50.70 فیصد تھا۔
تلنگانہ میں کانگریس کی کامیابی شاندار رہی ہے، مگر حالات ایسے نہیں ہیں کہ صرف جنوبی ہندوستان کی بنیاد پر کوئی بھی ایسی پارٹی اقتدار میں آنے کا خواب دیکھ سکے۔ جو گزشتہ تقریباً 10سال سے اقتدار سے باہر ہو۔ ان تینوں شمالی ریاستوں میں کانگریس پارٹی اپنی جگہ ہی برقرارنہیں رکھ پائی تو لوک سبھا میں وہ کوئی کارنامہ انجام دے دے اس بات کا امکان کم ہے۔ان تینوں ریاستوں میں شکست کا خمیازہ کانگریس کو قومی سطح پر بھگتنا پڑے گا۔ ممتابنرجی نے آنکھ دکھانی شروع کردی ہے۔ اترپردیش میں کیا صورت بنے اس کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یوپی میں کانگریس کی کارکردگی افسوسناک حد تک خراب ہے۔ پنجاب میں پچھلے الیکشن میں کانگریس کی حکومت عام آدمی پارٹی کھا گئی۔ ہماچل کی چند سیٹوںپر کودنا ممکن نہیں ہے۔ کانگریس کو اگرمرکز میں کوئی اہم رول کی تلاش ہے تو اسے شمالی ہند میں اپنے لیڈروں، تنظیموں اور وسائل کو متحد کرنا پڑے گا۔
مشکل تر ہوتی جارہی ہیں اپوزیشن کی راہیں
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS