لیبیا میں جمہوری نظام کے قیام کا راستہ ہموار

0

یوکرین فلسطین کی ہنگامہ آرائیوں سے دور افریقہ کے اہم مسلم عرب ملک لیبیا میں 2001سے جاری خانہ جنگی اور انتشار کے ختم ہونے کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔ یہ پہلا عرب مسلم لیگ ہے جہاں پچھلے دنوں انتشار اور برادری کشی کے خاتمہ کی کوششوں کے خاتمہ کے لیے متحارب طاقتیں اور فوجیں راضی ہوئی ہیں۔ خاص بات یہ رہی کہ تمام گروپوں میں فائربندی کا اطلاق ہوگیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام بڑی طاقتوں امریکہ، روس، ترکی اور دیگر فریقوں کے پروردہ گروپوں اور افواج نے اس معاہدے کو قاہرہ اعلامیہ نام دیا ہے۔ یہ سمجھوتہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں کیاگیا ہے۔ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ تیل، قدرتی گیس کی دولت سے مالامال اس ملک میں جنگ بندی پرنظر رکھنے اور اس کی نگرانی کرنے کے لیے ایک مشترکہ فوجی کمیٹی وضع کی گئی ہے۔ جو پانچ سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممالک کے علاوہ دیگر اور پانچ ممالک پرمشتمل ہوگی اس لیے اس کمیٹی کو پانچ+پانچ یعنی (5+5)قرار دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ لیبیا میں بالادستی کی جنگ، قدرتی وسائل کے حصول اور چھین جھپٹ کی جنگ کو روکنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔
عالمی اداروں کے مطابق تیل مصنوعات کی تقسیم خریدوفروخت، کرنسی وغیرہ کے امور میں شفافیت لانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کسی فریق کو یہ نہ لگے کہ دوسرے متحارب فریق کوزیادہ مواقع مل رہے ہیں اور وسائل چند ہاتھوں یا فلاں ملک کے کنٹرول میں جارہاہے۔ ظاہر ہے کہ اگر عالمی برادری اس عظیم ملک میں شفافیت لانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اپنے آپ میں بڑی کامیابی ہوگی کیونکہ لیبیا میں اقتدار اعلیٰ پر کنٹرول اور وسائل کی تقسیم سب سے اہم امور ہیں اور مختلف فریق خارجی طاقتوں اور یہاں تک کہ بھاڑے کے ٹٹوؤں کی فوجی خدمات حاصل کرنے سے بھی تامل نہیں کررہے تھے۔
اس سے قبل ان صفحات میں لیبیا کی اندرونی صورت حال کی بابت بتایاگیاتھا کہ وہاں فوج بالکل الگ نہج پر کام کررہی ہے اور لیبیا کئی قومی فوجی (ایل این اے) کے سربراہ خلیفہ ہفتر ایک بڑی طاقت بن گئے ہیں اور لیبیا کے اہم خطے Sirteمیں انہوں نے اپنی حکمرانی قائم کرلی ہے۔ اس سمجھوتہ کی رو سے اس حساس خطے میں متحارب گروپوں کی فائربندی کرانا سب سے اہم کام ہے۔
قاہرہ سمجھوتے کے ذریعہ فائربندی کے ساتھ ساتھ سیاسی مصالحت کے لیے مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔ لیبیا میں بدگمانیوں اور معتبریت کا بحران اس درجہ گہرا ہوگیاتھا کہ اقوام متحدہ کے ذریعہ نامزد کیے جانے والے اداروں کے سربراہان اور حکام کو تقرری کو لے کر جوتم پیزار ہورہی تھی۔ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والی مصالحتی کوششوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سفارتی کوشش شروع ہوگئی ہیں اور جرمنی جو کہ ان مذاکرات کا میزبان اور اہم مصالحتی ملک ہے، اس نے یواے ای کا دورہ کیا ہے اور یواے ای جو کہ مغربی ایشیا، عرب اور مسلم ملکوں میں پرزور طریقہ سے سرگرم ہے۔ لیبیا میں اثرورسوخ رکھتاہے اور اس کی حمایت خلیفہ ہفتر کوحاصل ہے۔ ظاہرہے کہ یواے ای پردباؤ ڈال کر خلیفہ ہفتر کو مستقل فائربندی اور سیاسی مذاکرات میں شامل کرنے کی کوشش جائے گی۔ خلیفہ ہفتر لیبیا میں بڑی فوجی طاقت ہیں اور کسی حد تک غیرملکی فوجی مدد اور شہ پر شتربے مہار ہوچکے ہیں۔ ان کا کنٹرول پیٹرول کے کنوؤں اور دیگر قدرتی وسائل پر ہے۔ مغربی ممالک کا شکوہ ہے کہ غیر ملکی طاقتوں اور بھاڑے کے فوجیوں کو سب سے پہلے لیبیا سے نکالاجائے۔ ان ممالک کا اشارہ روس کی طر ف ہے۔روس نے افریقہ میں فوجی اڈے بنالیے ہیں۔ لیبیا میں اس کے کنٹرول میں کئی فوجی ہوئی اڈے ہیں جہاں سے وہ نہ صرف لیبیا کے حالات پرکنٹرول کررہاہے، ساتھ ہی ساتھ کئی افریقی ممالک میں اس کا کنٹرول اور اثر و رسوخ ہوگیا ہے۔ یہی صورت حال مغرب کو فکرمند کیے ہوئے ہے۔ پچھلے دنوں سوڈان نے بحراحمر میں روس کے بحری بیٹرے کی مدد لے کر مغرب کو چراغ پاکردیاہے۔
اب مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ غیرملکی افواج کا وہاں سے اخراج ہو۔ جنرل ہفتر کی فوج میں افریقی ممالک چاڈ، سوڈان، نائیجیریا اور روس ویگنر گروپ کے فوجی ہیں۔ ان کا کنٹرول سب سے زیادہ قدرتی معدنیات سے مالامال مشرقی علاقے پر ہے۔ اس سے وہ وہاں مغربی طاقتوں کی آنکھ کا کانٹابنے ہوئے ہیں۔
ترکی، مصر، یواے ای، امریکہ، روس، یوروپی ممالک اس تنازع اور سمجھوتے میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ پڑوسی ملک مصرروس اور اس کی حمایت یافتہ فوجی کمپنی ویگنرسے زیادہ فکرمند ہیں اس نے روس اور اس گروپ کو تنبیہ کی ہے کہ اس سے لگی ہوئی لیبیائی سرحد پراپنے فوجی اور کارندے نہ تعینات کرے۔
اس بابت ایک اوراہم فریق افریقی یونین African Unionکی حالیہ عدیس آبابا کانفرنس میں لیبیا میں خانہ جنگی کی کوششوں میں اپنا تعاون دینے کا اعلان کیا ہے۔ اندرون لیبیا امن اور مصالحتی مذاکرات کے انعقاد میں افریقہ یونین اہم رول ادا کرسکتی ہے۔ لیبیا کے معزول اور مرحوم حکمراں کرنل معمرقذافی نے افریقی یونین کو جواہمیت، طاقت اور اثرورسوخ دینے کی کوشش کی تھی، وہ تاریخ کا حصہ ہے اور افریقی یونین آج عالمی سیاست میں جو رول ادا کررہی ہے، اس میں کرنل قذافی کی ناقابل فراموش خدمات ہیں۔ اس نقطہ نظر سے یونین تمام لیبیائی فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بہترین رول ادا کرسکتی ہے۔ کانگوں کے صدر ڈینس ساسو نگیسو(Denis Sassou Nguesso)کو مرکزی حیثیت دے دی گئی ہے۔
حالیہ تنازع میں لیبیا کے جغرافیائی اتحاد اور یک جہتی کو برقرار رکھنے کا بھی چیلنج ہے، کیونکہ مشرقی لیبیا کی فوج کا مکمل غلبہ ہے۔ روس اور مصر اس علاقے کے اہم لیڈر خلیفہ ہفتر کوحمایت دے رہے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے وزیراعظم عبدالحمید کو ترکی حمایت دے رہا ہے۔ اس بدترین خانہ جنگی کی وجہ سے لیبیا میں جمہوری نظام کے قیام کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ اقوام متحدہ اور دیگر طاقتیں چاہتی ہیں کہ وہاں عام انتخابات ہوجائیں اور سول نظام حکومت قائم ہوجائے۔ اقوام متحدہ نے انتخابات کے انعقاد کے لیے دسمبر 2021کی تاریخ طے کی تھی مگر مختلف فریقوں کے عدم تعاون کی وجہ سے انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکا۔ لیبیا کے اندرونی حالات کی پیچیدگی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ وہاں وہ پڑوسی ملک جو خود سیاسی عدم استحکام، خانہ جنگی کا شکارہیں، لیبیا کے امور میں دخل اندازی کررہے ہیں۔ ان میں سوڈان اورنائیجیریا بھی شامل ہیں۔ مصر نے لیبیا میں قیام امن کے لیے کئی ممالک کی کانفرنس طلب کی تھی۔ قاہرہ میں ہونے والی اس کانفرنس میں کئی ممالک شامل ہوئے تھے، اس وقت لیبیا میں تقریباً 20ہزار غیرملکی فوجی اور نیم فوجی اہلکار اورکرائے کے فوجی ہیں۔ یہ اعدادوشمار اقوام متحدہ کے ہیں اور 2021کے ہیں۔ لگاتار خراب ہوتے حالات میں غیرملکی فوجی گروپوں اور کمپنیوں کے کارندوں میں اضافہ ہوا ہے۔ماہرین کاکہنا ہے کہ خانہ جنگی اورچاروں طرف سے مداخلتوں کے حالات میں یہ کہنا مشکل ہے کہ غیرملکوں کی کتنی تعداد وہاں ہیں۔ ہم صرف محفوظ اندازہی لگاسکتے ہیں۔
ترکی کی اقوام متحدہ کی حمایت والے وزیر اعظم عبدالحمید کوحمایت مل رہی ہے۔ خیال رہے کہ خلیفہ ہفتر کی فوج طرابلس کی عبدالحمید کی طاقت سے متحارب ہے۔ لیبیا کی حکومت جو کہ طرابلس کے علاقوں تک محدود ہے۔ اس حکومت کی کوئی اپنی فوج نہیں ہے اور لیبیا ایک مضبوط فوج کو تربیت دینے میں مصروف ہے۔n

 

ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش

لیبیا میںموجودہ خانہ جنگی، سیاسی عدم استحکام اورغیریقینی صورت حال کو ختم کرنے کی غرض سے عالمی سیاسی طاقتوں، فوجی گروپوں اور مختلف قبائل کے لیڈروں کو مذاکرات کی میز پر لانے اور خانہ جنگی کے شکار اس ملک کو ایک مستحکم سیاسی نظام سے آراستہ کرنے کی غرض سے حال ہی میں ایک سمجھوتے کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع کی گئی ہیں۔اگرچہ اس سمجھوتے کا مرکزی مقصد مشرقی خطے سرت میں جنگی بندی کو ختم کرنا ہے مگرحقیقت یہ ہے کہ مغربی طاقتوں کی مشترکہ حکمت عملی جوان لیڈروںکے بیانات سے سامنے آئی ہے، ان سے لگتاہے کہ لیبیائی فوج کے سربراہ جنرل ہفتر کو کمزور کرنا اور ان کے کنٹرول والے علاقوں میں جنگ بندی لاگو کرناہے۔ یہ علاقے پیٹرول اوردوسری معدنیات سے مالا مال ہیں اورجنرل ہفتر اپنے دیگرحریفوں مثلاً چارڈ، سوڈان کے فوجی غیرسرکاری فوجی یعنی دفاعی کمپنیوںکے اہل کاروں کے ساتھ روس اور اس کے حمایت یافتہ ویگنرگروپ کے ساتھ مستحکم اورمقتدر ہیں۔ قاہرہ اعلامیہ پرجومغربی ممالک کا ردعمل سامنے آیاہے،اس کا لب لباب یہی ہے کہ لیبیا سے غیرملکی فوجیں واپس جائیں اور لیبیا کے اندر جو دیگر جنگجوعناصر گروہ اور قبائل مسلح ہوئے ہیں، ان کو غیرمسلح کیاجائے۔ خیال رہے کہ طرابلس اور سرت میں دوالگ الگ نظام حکومت قائم ہیں۔ طرابلس میں جونظام حکومت چل رہاہے، اس کو اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے، ترکی جواس پورے تنازع میں انتہائی اہم رول ادا کررہاہے، وہ بھی چاہتاہے کہ عبدالحمید الدبیہ کی سرکار کی پوزیشن مستحکم ہو اور پورے ملک پر طرابلس یعنی عبدالحمید الدبیہ کا اقتدار کام کرے۔ یہ طاقتیں خلیفہ ہفتر کو کمزور کرنا چاہتی ہیں جب کہ خلیفہ ہفتر فوجی طاقت کے ساتھ غیرملکی حمایت کی وجہ سے کافی مضبوط ہیں اور وہ لیبیا کے صدر کے عہدے کے لیے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں اگرچہ وہ کافی عمردراز ہیں مگراس کے باوجود لیبیا کے مشرقی علاقے میں ان کی زبردست گرفت ہے۔ فوج جو ان کے تحت کام کرتی ہے، وہ جدید ترین اسلحہ سے آراستہ ہے۔ ویگنرگروپ نے ان کو تمام لاجسٹک حمایت دے رکھی ہے۔ روس نے خود بھی اپنی سرکاری افواج کے کئی فوجی اڈے ان کی خدمت میں تعینات کررکھے ہیں۔ یہ فوجی اڈے لیبیا کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً سوڈان، مالے،برکینافاسو وغیرہ علاقوں میں بھی حکمراں کو مدد فراہم کررہے ہیں۔ ہفتر بڑے عہدے کے خواہش مندہیں۔وہ کسی طور پر مغربی ممالک کو کامیاب نہیں ہونے دیاچاہتے جبکہ مغربی ممالک کا پورا فوکس روس کو خطے سے باہر کرنے کا ہے۔ اس صورت حال کا ایک اور سبب یہ ہے کہ خلیفہ ہفتر تیل کے کنوؤں پر پورا کنٹرول رکھتے ہیں۔ سپلائی ان کے ہاتھ میں ہے۔ فوجی طاقت کی وجہ سے طرابلس کانظام حکومت ان کو کمزورنہیں کر پارہاہے۔ اس دوران یہ بھی خبرآئی ہے کہ لیبیا کے وزیراعظم عبدالحمید الدبیہ نے کرنل معمر قذافی کے دور کے ایک اہم لیڈر البغدادی المحمودی کو رہاکردیاہے۔ اس سے قبل وزیراعظم عبدالحمید نے امریکہ کے دباؤ میں لاکبیرطیارہ دھماکہ میں ملوث ایک مشتبہ ملزم محمد سعود الخیر کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا تھا۔ اس وقت یہ قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ وزیراعظم پرامریکہ کا ہاتھ ہے۔ لیبیا کے کئی اداروں نے محمد سعود الخیرکی رہائی پر سخت ردعمل ظاہر کیاتھا اوران کی گرفتاری کو اغوار قرار دیا تھا۔ خیال رہے کہ 1988میں لندن سے نیویارک جانے والی پان اینم ایئرلائنس کے طیارے بوئنگ 747میں دھماکہ ہوگیاتھا،جس میں 259مسافر اور طیارہ عملے کے لوگوں کے علاوہ زمین پر 11افسوس ناک موت واقع ہوگئی تھی۔ امریکہ اور مغربی ممالک کا الزام ہے کہ اس حادثے میں لیبیا کے کرنل معمر قذافی کا انتظامیہ ملوث تھا۔ امریکہ اور لیبیا کے معزول اور مرحوم صدرکرنل معمرقذافی کے درمیان یہی تنازع تھا جو 2011میں ناٹو کی لیبیا میں فوجی کارروائی کا سبب بتایاجاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ افہام وتفہیم کے اس دور میں اس طرح کے افراد کی رہائی اور حوالگی کس طرح خانہ جنگی کے شکار اس ملک میں قیام امن کو یقینی بنائے گی؟n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS