صبیح احمد
غزہ میں جنگ آخر کب تک جاری رہے گی؟ کب تک بے قصور فلسطینی مرد و خواتین اور معصوم بچوں کے خون کی ہولی کھیلی جائے گی؟ حماس کے حملوں کا بدلہ عام فلسطینی شہریوں سے کب تک لیا جائے گا؟ اور کیوں؟ اگر بدلہ ہی لینا ہے تو اس کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔ اس بظاہر لا متناہی سلسلہ کا کہیں نہ کہیں تو خاتمہ ہونا چاہیے۔
جنوبی اسرائیلی شہروں پر 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں 42 روزہ سیز فائر (عارضی جنگ بندی) کو توڑ کر 18 مارچ کو اسرائیل نے غزہ پٹی میں اپنی فوجی کارروائی دوبارہ شروع کر دی ہے۔ اسرائیل نئے سرے سے جاری اپنے حملوں میں جارحانہ حکمت اپناتے ہوئے فوجی طاقت کو پھر سے بحال کرنے کی حماس کی کوششوں پر روک لگانے کے ساتھ ساتھ غزہ پر حکومت کرنے کے لیے اس گروپ کی صلاحیت کو چھیننے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے لیے وہ غزہ کے اعلیٰ عمومی انتظامیہ (پہلے فوکس فوجی اور سیاسی رہنماؤں پر تھا) اور خطہ کے عوامی بنیادی ڈھانچہ (انفرااسٹرکچر) کو نشانہ بنا رہا ہے۔ فضائی حملے اور انخلا کے احکامات غزہ کے 2.2 ملین باشندوں کو ساحلی پٹی کے تنگ حصوں میں سمٹنے پر مجبور کر رہے ہیں، جس سے پٹی کا زیادہ تر علاقہ ’نو گو زون‘ میں تبدیل ہو رہا ہے۔ فلسطینیوں کی ہلاکتوں میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ اکتوبر 2023 میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 50,000 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ مرنے والوں کی اکثریت- یہاں تک کہ اسرائیل کے اعداد و شمار کے مطابق بھی – عام شہری ہیں۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگ ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں اور اب بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ بالواسطہ وجوہات جیسے کہ طبی علاج کی کمی کی وجہ سے، مر رہے ہیں۔ غزہ میں انسانی تباہی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسرائیل کے ذریعہ یکم مارچ سے غزہ پٹی کے مکمل محاصرے کی وجہ سے تباہی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ جنگ کے ابتدائی دنوں کے بعد سے پہلی بار تمام امدادی ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔
آخر اسرائیل کیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ اپنی کابینہ سے بات کرتے ہوئے 30 مارچ کو وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ کا کھیل ختم کرنے کے بارے میں اپنا نقطہ نظر پیش کیا تھا کہ ’حماس ہتھیار ڈال دے گی، اس کے رہنماؤں کو جانے کی اجازت دی جائے گی۔ ہم غزہ پٹی کی عمومی سلامتی کو دیکھیں گے اور رضاکارانہ نقل مکانی کے ٹرمپ کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت دیں گے۔ منصوبہ یہ ہے۔ ہم اس پر پردہ نہیں ڈال رہے ہیں اور ہم اس پر کسی بھی وقت بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘ان تبصروںکے ساتھ ساتھ دیگر بیانات اور زمینی سطح پر مشاہدات کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل 3 اہم مقاصد کا تعاقب کررہا ہے۔ اول، اسرائیل حماس کی ’فوجی اور حکومتی صلاحیتوں‘ کو تباہ کرنے اور 7 اکتوبر 2023 سے یرغمال بنائے گئے تمام بقیہ یرغمالیوں کو رہا کرنے کے اپنے اصل اہداف پر مصر ہے۔ یہ اہداف حماس کے ہتھیار ڈالنے اور اس کے لیڈروں کی جلاوطنی کے حوالے سے طے کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی رہنماؤں کا اصرارہے کہ یہ گروپ بنیادی طور پر کمزور ہوچکا ہے اور اسے جنوری کے جنگ بندی معاہدے میں طے شدہ ’معمولی اسرائیلی رعایتوں‘ کے مقابلے باقی تمام یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیے جانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ حماس پر اسرائیل کے مطالبات کو ماننے کے لیے دباؤ ڈالنے کی خاطر خوراک، ادویات اور درحقیقت غزہ کی آبادی کو دی جانے والی تمام امداد کو روکنے کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ حالانکہ اجتماعی سزا کے طور پر کیے جانے والے ان اقدامات کی وسیع پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے۔
دوم، اسرائیل حماس کے بغیر غزہ کی آبادی، جغرافیہ اور سلامتی کے نظام کو مستقل طور پر دوبارہ ترتیب دینے کیلئے کوشاں ہے۔ اسرائیل اب غزہ کے کم از کم 50 فیصد علاقے پر براہ راست کنٹرول رکھتا ہے۔ فوجیوں نے بفر زون کو بڑھا دیا ہے اور غزہ پٹی کے جنوبی حصے میں خان یونس اور دیر البلاح کے ارد گرد چھوٹے ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ شمال میں غزہ شہر کے ارد گرد شہریوں کو مرتکز کر دیا ہے۔ تقریباً 400,000 لوگ دوبارہ بے گھر ہوگئے ہیں۔ سوم، اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت اسے غزہ اور مغربی کنارہ کے تمام مقبوضہ علاقوں پر اپنے کنٹرول کو مزید گہرا کرنے اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے کسی بھی ممکنہ امکان کو فیصلہ کن دھچکا لگانے کے تاریخی موقع کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا آغاز 4 مارچ کو قاہرہ میں ہونے والے عرب لیگ کے اس سربراہ اجلاس کے محض 2 ہفتوں کے بعد کیا گیا تھا جس میں غزہ پٹی کی تعمیر نو کے منصوبے کی توثیق کی گئی تھی اور فلسطینی اتھارٹی کی اقتدار میں واپسی اور دونوں مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی ریاست کے مستقبل کے قیام کے بارے میں پیش گوئی کی گئی تھی۔
جیسا کہ اسرائیل غزہ میں ان مقاصد کا تعاقب کر رہا ہے، اس نے مغربی کنارہ میں بھی اسی طرح کی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ جیسے ہی غزہ میں جنوری میں جنگ بندی نافذ ہوئی، اسرائیل نے ’آپریشن آئرن وال‘ شروع کرنے کے لیے اپنی افواج کو دوبارہ تعینات کر دیا۔ بظاہر تو یہ فلسطینی مسلح گروہوں کو ختم کرنے کے مقصد سے شروع کی گئی لیکن اس کارروائی نے پورے مغربی کنارہ میں تباہی مچا دی ہے، لیکن خاص طور پر شمالی پناہ گزین کیمپوں میں 40,000 سے زیادہ باشندوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ فوجی لحاظ سے حماس نے بڑی حد تک مسلح تصادم سے گریز کرتے ہوئے ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ اس کے ہتھیاروں کے ذخیرے میں کمی ہوسکتی ہے یا ہو سکتا ہے کہ اس گروپ نے ایک طویل گوریلا جنگ کے لیے اپنی طاقت بچانے کا فیصلہ کیا ہو۔ سیاسی لحاظ سے حماس نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے لیے راستے کھلے رکھے ہیں، لیکن اس گروپ نے اب تک اسرائیل کی جانب سے مذاکرات کو صرف یرغمالیوں کے معاملے تک محدود رکھنے کی کوشش کی مزاحمت کی ہے۔ اس کے بجائے حماس اصل مرحلہ وار جنگ بندی کے معاہدے پر قائم رہنے پر اصرار کرتی ہے، جس نے غزہ کے مستقبل کے بارے میں وسیع تر مذاکرات سے یرغمالیوں کی رہائی کو جوڑ دیا ہے۔ حماس کے عہدیداروں نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ غزہ پر اپنی حکمرانی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں جو ایک اہم اسرائیلی مطالبہ ہے مگر شرط یہ ہے کہ ایک متحدہ فلسطینی انتظامیہ اقتدار سنبھالے۔
دراصل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی سیاسی ضرورت ہے کہ جنگ جاری رہے، اور دوسری جانب اگر جنگ بندی کا مطلب فوجی صلاحیت سے دستبردار ہونا ہو تو حماس بھی جنگ ختم کرنے پر راضی نہیں ہوسکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریق جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ حماس کی فوجی صلاحیت کا خاتمہ جنگ کے خاتمہ کے کسی بھی معاہدہ کے لیے اسرائیل کی شرط ہے۔ متوقع طور پر حماس نے پہلے ہی اس خیال کو مسترد کر دیا ہے۔ اس کا واضح طورپر کہنا ہے کہ ’یہ شکست ہے۔۔۔ ہم مذاکرات کے جز کے طور پر غیر مسلح ہونے سے انکار کرتے ہیں۔‘ اگر حماس اس موقف پر قائم رہتی ہے تو بلاشبہ اور ناگزیر طور پر جنگ جاری رہے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ دونوں فریق ’فتح‘ کی تعریف کیسے کرتے ہیں۔ اسرائیل کے لیے حماس کی مکمل تباہی اور اقتدار سے مستقل ہٹانے سے کم کوئی بھی چیز فتح تصور نہیں کی جائے گی، قطع نظر اس کے کہ مقامی طبی حکام کے مطابق گزشتہ 18 ماہ میں 50,000 سے زائد فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں اور غزہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ حماس نے اسرائیل پر تاریخی حملہ کیا۔ اس نے بلاشبہ اسے ایک اپنی جیت سمجھی۔ لیکن سیاسی طور پر وہ ’فتح‘ کی تعریف جنگ کے خاتمہ کے بعد ایک شخص کے کھڑے ہو کر جھنڈا لہرانے کے طور پر کرتے ہیں۔ اسرائیل کا حماس کو تباہ کرنے کے علاوہ کوئی واضح اور جان بوجھ کر سیاسی ہدف نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ جاری ہے اور یہ کب تک جاری رہے گی، کسی کو نہیں معلوم!
[email protected]