شاہد زبیری
ہماچل پردیش کی راجدھانی شملہ کی سنجولی کی جامع مسجد کی چار منزلہ عمارت کی تعمیر پر اعتراض سے شروع ہوکر مسجد کے انہدام کے مطالبہ تک فرقہ وارانہ آگ کو جس طرح بھڑکایا گیا تھا اس نے آج پورے ہماچل کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ماہ ستمبر کے آغاز سے اب تک ہماچل کے کل ایک درجن اضلاع اس فرقہ وارانہ آگ کی زد میں ہیں۔ سنگھ پریوار، وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل ،ہندو جاگرن منچ اور بی جے پی سمیت نہ جا نے کتنی چھوٹی بڑی ہندو تنظیمیں اس میں پیش پیش ہیں، جن کے نشانہ پر ہماچل کے دو فیصد کے قریب مسلمان اور ان کی مساجد اور ان کی جان و مال ہیں۔ہر چند کہ کمشنر شملہ کی عدالت میں بنا نقشہ پاس کرائے گئے سنجولی مسجد کی بالائی منزلوں کی تعمیر کا معاملہ زیر سماعت ہے اور 5 اکتوبر کی تاریخ لگی ہے، لیکن مسجد انتظامیہ نے کمشنر کی عدالت کا فیصلہ آنے سے قبل ہی کمشنر کو تحریری طور پر یقین دہانی کرا دی تھی کہ جس حصہ پر اعتراض ہے وہ خود اس کو منہدم کرا دیں گے اور ایک حصہ کو منہدم کرابھی دیا گیا لیکن باوجود اس کے یہ معاملہ سنجولی مسجد تک ہی نہیں رکا اس کا دائرہ ہماچل کے تمام اضلاع کی مساجد تک پہنچ گیا ہے اس پر گزشتہ 9 ستمبر اور 16ستمبر کے کالموں میں تفصیل سے لکھا جا چکا ہے 16ستمبر کے دوسرے کالم میں ہم نے اس کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ سنجولی کے بعد ہماچل کی دیگر مساجد بھی فرقہ پرستوں کے نشانہ پر آسکتی ہیں اور ہمارا خدشہ صحیح نکلا آج پورے ہماچل کی مساجد کے خلاف فرقہ پرست تنظیمیں سڑکوں پر ہیں میڈیا رپورٹس کے مطابق 28ستمبر کو فرقہ پرست تنظیموں نے ہماچل کے تمام اضلاع میں ایک ساتھ اشتعال انگیز مظاہرے کیے اور آکروش ریلیاں نکالی ہیں ۔ اب فرقہ پرست تنظیموں نے کانگریس کی ہماچل سرکار کو 5اکتوبر تک کی مہلت دی ہے اور وارننگ دی ہے کہ اگر اس تاریخ تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے گئے تو پورا ہماچل سڑکوں پر ہو گا ۔ اس دھمکی کے پیش نظر کانگریس کی سکھو سرکار نے مساجد کی حفاظت کیلئے کافی تعداد میں فورس تعینات کردی ہے۔ کانگریس اعلیٰ کمان نے وکرما آدتیہ کی تو سرزنش کی ہے لیکن انیرودھ کے خلاف ہمارے علم کے مطابق ابھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے ان دو وزیروں کے علاوہ کانگریس کے شملہ کارپوریشن کے کونسلر پر بھی الزام ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ فرقہ پرست تنظیموں کے اشتعال انگیز مظاہروں میں شریک رہے ہیں، جس پر اے آئی ایم آئی ایم کے قائد اور ایم پی اسدالدین اویسی نے سخت گرفت کی اور کانگریس کو ہوشیار کیا کہ کانگریس کے ذمہ دار ہی راہل گاندھی کی محبت کی دکان کا شٹر بند کررہے ہیں، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ہماچل میں بھڑکائی گئی اس فرقہ وارانہ آگ اور اشتعال انگیز نعروں کے درمیان 27ستمبر کو شملہ سے امن اور بھائی چارہ کی آواز بلند ہوئی ہے اور ’فار پیس اینڈ ہارمنی‘نام کی تنظیم کے بینر تلے امن مارچ نکالا گیا جس میں تمام فرقوں کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق اس امن مارچ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور بودھ فرقہ کے امن پسند لوگ شامل تھے، جن میں خواتین کی بھی بڑی تعداد تھی، شملہ کے دو سابق میئروںکے علاوہ ہماچل کے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، دانشور اورریٹائرڈ فوجی شریک تھے ، مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کی ذیلی تنظیمیں مزدور وں کی تنظیم سیٹو، خواتین کی تنظیم آل انڈیا جن وادی مہیلا سنگٹھن، اسٹوڈنٹس کی تنظیم ایس آئی ایف شریک تھی اور عام آدمی پارٹی کے لیڈران اور کارکنان بھی شریک تھے ۔ اس امن مارچ کی قیادت شملہ کے سب سے پہلے میئر آدرش سود اور سابق میئر سنجے چوہان نے کی۔ریلی میں جو نعرے لگ رہے تھے ان نعروں میں ایک نعرہ یہ بھی تھا ’جو سمودھان کی بات کرے گا وہی دیش پر راج کرے گا‘، ’ہندو مسلم سکھ عیسائی آپس میں ہیں بھائی بھائی‘ اور’دیش کی رکشا کون کرے گا ہم کریں گے ہم کریں گے‘ وغیرہ وغیرہ ۔ شملہ کی یہ ریلی سیکو لرزم کی دعویدار تنظیموں ، ملک کی سول سوسائٹی اور ملّی جماعتوں کیلئے بھی ایک سبق ہے، جنہوں نے ہماچل میں بھڑکائی جارہی فرقہ وارانہ آگ کی تپش کو ابھی تک محسوس نہیں کیا ہے اور مسلمانوں اوران کی عبادت گاہوں کو فرقہ پرستوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے ۔نہ تو کانگریس نے ابھی تک اپنے دونوں وزیروں کے خلاف کوئی سخت کارروائی کی ہے، سوائے ایک وزیر کی سرزنش کے اور نہ پی ڈی اے کے فارمولہ کا ڈھنڈورا پیٹنے والی سماجوادی پارٹی نے لب کھولے ہیں۔ پارٹی کے قائد اکھلیش یادو جو پسماندہ طبقات یا دلتوں کے پھانس چبھنے پر چیخ اٹھتے ہیں وہ خاموش ہیں، دلتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر چیخ پکار کرنے والی بی ایس پی اور اس کی سپریمو بہن مایا وتی کے منھ میں بھی دہی جمی ہوئی ہے۔ ملّی جماعتوں کا شکوہ کیا کیجئے یہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔ ایک ہماچل کیا پورے ملک میں جو کچھ مسلمانوں کیساتھ ہورہا ہے اس پر ان ملی تنظیموں کی قیادت پر بھی سکوت طاری ہے۔ ملّی جماعتیں اس ڈر سے خود نہ لب کھولیں گی کیونکہ اس سے فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچ جا ئے گا یہ تنظیمیں سیکولرزم کی دعویدار تنظیموں پر تو دبائو بنا سکتی ہیں کیا وہ ایسا کرنے سے بھی قاصر ہیں ؟بھلا مسلمان ان سے اور کیا امید کرسکتے ہیں اگر آزادی کے بعد ملّی تنظیمیں خود بھی سیاسی طور پر بیدار رہتیں اور مسلمانوں میں بھی سیاسی شعور بیدار کرتیں تو مسلما نان ہندکو آج جو دن دیکھنے پڑ رہے ہیں شاید وہ دن دیکھنے نہ پڑتے ۔ آزادی کے بعد جو مہلت ملی تھی ہماری قیادت نے بعض استثناء کے ساتھ عموماً صرف اور صرف کانفرنسیں کرنے اور قرار دادیں پاس کرنے میں گزار دی جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے مسلمانان ہند کی نہ جان، نہ مال ،نہ مساجد ،نہ عید گاہیں نہ مقابر، نہ خانقاہیں اور نہ اوقاف کچھ بھی محفوظ نہیں سب کچھ فرقہ پرستوں اور سرکاروں کے نشانہ پر ہیں آئین میں دی گئیں ضمانتیں بڑی چالاکی سے بے اثر بنا دی گئی ہیں۔ مسلمانوں کیلئے عدالتوںسے انصاف حاصل کرنا محال ہو تا جا رہا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسا مسلمانوں کا مؤقر ادارہ بھی وقف ترمیمی بل کے خلاف بارکوڈ اسکین کیے جا نے کی اپیل تو کرسکتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ وہ بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ شاہ بانو کیس سے لے کر بابری مسجد اور تین طلاق تک عدالتوں میں سوائے ہزیمت کے بورڈ کے کچھ ہاتھ نہیں آیا ۔ان مایوس کن حالات میں مسلمان سڑک پر اتر کر آئین میں دیے گئے حقوق کا مطالبہ کرنے کی سکت سے بھی محروم ہیں۔ سڑک پر اتر نے اور آئین کے دائرہ میں رہ کر پُر امن طریقہ سے اور ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے اپنی بات رکھنے کا وہ سلیقہ ہی مسلمانوں میں نہیں ہے جو ملک کے دوسرے فرقوں میں ہے ہماری تنظیموں نے اس کی تربیت ہی مسلمانوں کو نہیں دی ۔ میدانوں میں بھیڑ اکھٹا کرنے سے زیا دہ ہماری تنظیمیں کچھ کر ہی نہیں سکتی اب ایسا کرنے سے بھی وہ خوف کھانے لگی ہیں ۔ اگر امّید کی کرن کہیں نظر آتی ہے تو وہ اس ملک کے انصاف پسند اور امن پسند غیر مسلم بھائی ہیں جو ہمارے حق میں آواز بلند کررہے ہیں،مسلمانوں کو ان کی آواز پر اسی طرح لبیک کہنا چاہئے جیسا کہ شملہ کے مسلمانوں نے لبیک کہا ہے ہمیں ایسی آوازوں پر دھیان دینا چاہئے ۔اس کالم میں جو کچھ کہا گیا وہ مسلمانوں کے باشعور طبقہ کی آواز ہے جو ملت کے مٹھادھیشوں کے سامنے بے بس اور لاچار ہے ۔
’کرے گی داورِ محشر کو شرمسارایک روز
کتابِ صوفی وملّاکی سادہ اوراقی‘
[email protected]