مفتی محمد مقبول قاسمی
ماہ ربیع الاول میں سرورِ دو عالم حضور اقدس جناب محمد رسول اللہ ؐدنیا میں تشریف لائے اور یہ مقام کسی اور مہینے کو حاصل نہیں، اسی لیے جب آپ ؐسے پیر کے دن روزے کے بارے میں پوچھاگیا ،تو آپ ؐنے اس کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس دن میں پیدا ہوا، جب پیر کے دن روزہ کو حضورؐکی ولادت کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے، تو ماہِ ربیع الاول کوبھی آپ ؐکی ولادت کا مہینہ ہونے کی خاص حیثیت کے اعتبارسے سال بھر کے تمام مہینوں پر فضیلت وفوقیت حاصل ہے۔
حضور اقدس ؐکی ولادت باسعادت:تمام مورخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی ولادت باسعادت پیرکے دن ہوئی، جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐکی ولادت پیرکے روز ہوئی اوروفات بھی پیر کے روزہوئی۔
اسی طرح اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمؐ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کیساتھ بیت اللہ شریف پر حملہ کیا) میں پیدا ہوئے اور جمہور اہلِ علم کا مسلک یہ ہے کہ آپؐ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے۔
ماہِ ربیع الاول کے اعمال: قرآن وسنت کی روشنی میں اس مہینے سے متعلق مخصوص اعمال کا کوئی ثبوت نہیں، اس لیے اس ماہ سے متعلق اپنی طرف سے اعمال وعبادات بیان کرنا شریعت میں زیادتی ہے جو کہ درست نہیں۔ حضور اکرم ؐکا ذکر مبارک ایک اعلی ترین عبادت ہے، بلکہ روحِ ایمان ہے۔ آپ کی ولادت، آپ کا بچپن، آپ کاشباب، آپ کی بعثت، آپ کی دعوت ، آپ کا جہاد ،آپ کی عبادت ونماز، آپ کے اخلاق، آپ کی صورت وسیرت، آپ کازہدو تقوی، آپ کی صلح وجنگ ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، آپ کا اٹھنابیٹھنا ، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، الغرض آپ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون امت کے لیے اسوہ حسنہ اور اکسیر ہدایت ہے اور اس کا سیکھنا سکھانا، اس کا مذاکرہ کرنا اور دعوت دینا امت کا فرض ہے۔
آپ ؐکی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کاطریقہ: آپ ؐکی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے ہیں:
پہلاطریقہ:آپ ؐکی سیرت طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کے ظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ ؐکے ہر امتی کی صورت وسیرت، چال ڈھال، رفتارو گفتار، اخلاق وکردار آپ ؐکی سیرت طیبہ کی تصویر بن جائے اور دیکھنے والے کو نظرآئے کہ یہ محمدرسول اللہؐ کا غلام ہے۔
دوسراطریقہ: جہاں بھی موقع ملے آپؐ کے ذکر ِخیر سے ہرمجلس و محفل کو معطر کیا جائے۔ آپ ؐکے فضائل و کمالات اور آپؐ کے بابرکت اعمال اور طریقوں کا تذکرہ کیاجائے۔ سلف صالحین، صحابہ کرام و تابعین اور ائمہ کرام ان دونوں طریقوں پر عمل کرتے تھے۔ وہ آپ ؐکی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے اور ہر محفل و مجلس میں بھی آپ ؐکی سیرت طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔
چند مثالیں: ایک روایت کے مطابق حضرت عمرو بن العاص فرماتے ہیں کہ مجھ سے کوئی یہ دریافت کرے کہ جناب رسول اللہؐ کا چہرہ مبارک کیسا تھا تو میں اس سوال کا جواب نہیں دے پاؤں گا اور آپؐ کے چہرہ مبارک کی تفصیلات بیان کرنا میرے بس میں نہیں ہوگا، اس لیے کہ جب میں کافر تھا تو میرے دل میں حضرت محمدؐکے لیے اس قدر شدید نفرت تھی کہ میں ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا، لیکن جب میں مسلمان ہوا تو میرے دل میں آقائے نامدارؐ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ کے رعب کی وجہ سے میں ان کو نگاہ بھر کر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا تھا اور اسی کیفیت میں زندگی بسر ہوگئی کہ میں ایک بار بھی رسول اکرمؐ کے چہرہ مبارک کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکا اور اسی وجہ سے آنحضرتؓ کے چہر انور کی تفصیلات کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔
حضرت انس بن مالک جناب نبی اکرمؐ کے ذاتی خادموں میں سے تھے جنہیں دس سال کی عمر میں ان کی والدہ محترمہ حضرت ام سلیم نے اس مقصد کے لیے رسول اللہؓ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا کہ میرا یہ بچہ آپؐ کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی انصاری صحابی نے حضورؐ کی دعوت کی۔ بطور خادم میں بھی ساتھ تھا، صاحب خانہ نے خشک کیے ہوئے گوشت (قدید) کی بوٹیوں کے ساتھ شوربے والا کدو پکا رکھا تھا، جو آنحضرتؐ کی مرغوب غذا تھی۔ دسترخوان بچھا کر ایک بڑا پیالہ رکھ دیا گیا جس میں کدو اور شوربے والا گوشت تھا۔ انس بن مالک کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ پیالے میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھانے لگے، یہ دیکھ کر میں نے شوربے میں سے کدو کے ٹکڑے نکال کر آپؓ کے سامنے رکھنے شروع کر دیے۔ اور پھر اس کے بعد مجھے کدو سے محبت سی ہوگئی، اس لیے کہ جناب رسول اللہؐ اسے پسند فرماتے تھے، پھر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر والوں نے مجھ سے کوئی چیز پکانے کے لیے پوچھا ہو اور میں نے کدو کے علاوہ کسی اور چیز کی فرمائش کی ہو۔
حتی کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے دور حکومت میں جب بصرہ نئے شہر کے طور پر آباد ہوا اور وہاں امیر المومنین نے بہت سے دیگر صحابہ کرام کے ساتھ حضرت انس بن مالک کو بھی بصرہ میں بھیج دیا اور وہاں انہیں کچھ زمین عنایت فرمائی تو حضرت انس نے اس زمین میں کدو ہی کاشت کرنا شروع کر دیے۔ حضرت انس کی زمین میں فاصلے کے ساتھ کھجور کے درخت اور درمیان میں کدو کی بیلیں ہر طرف دکھائی دیتی تھیں۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی پسند کے ساتھ محبت اور رسالت مآبؐ کی دعا کا اثر تھا کہ باقی لوگوں کی کھیتیاں سال میں ایک بار فصل دیتی تھیں، جبکہ میری کھیت سال میں دو بار فصل دیتی تھی اور بسا اوقات اتنے بڑے بڑے کدو ہوتے تھے کہ ایک کدو کو کاٹ کر گدھے پر لاد کر گھر لے جانا پڑتا تھا۔
حضرت عبداللہ بن عمر کے شاگرد اور خادم خاص حضرت نافع کہتے ہیں کہ آخر عمر میں حضرت عبد اللہ بن عمر نابینا ہوگئے تھے، لیکن حج کے سفر پر متواتر جاتے تھے اور حج بھی اس ترتیب کے ساتھ کرتے تھے کہ جہاں رسول اللہ ؐ نے احرام باندھا، وہیں احرام باندھنا ہے، جہاں غسل کیا تھا، وہیں غسل کرنا ہے، جہاں ظہر پڑھی تھی وہیں ظہر پڑھنی ہے، جہاں پہلی رات قیام کیا تھا، وہیں پہلی رات قیام کرنا ہے اور جہاں دوسرے دن ظہر پڑھی تھی،دوسرے دن ظہر پڑھنی ہے؛ یہ حضرت عبد اللہ بن عمر کا ذوق تھا، جس پر وہ آخر عمر تک عمل کرتے رہے۔ حضرت نافع کہتے ہیں کہ ایک بار سفر حج میں حضرت عبد اللہ بن عمر نے ایک جگہ مجھ سے پوچھا کہ یہاں سے فلاں جانب اتنے فاصلے پر ایک بڑا پتھر ہوگا کیا وہ تمہیں نظر آ رہا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ مجھے وہاں لے چلو، میں انہیں اس پتھر تک لے گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر اس کے قریب ایک طرف رخ کر کے اس طرح تھوڑی دیر بیٹھے جیسے پیشاب کرنا چاہ رہے ہوں، مگر پیشاب کیے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے، میں نے پوچھا تو بتایا کہ جناب نبی اکرمؓ نے اس مقام پر بیٹھ کر پیشاب کیا تھا، مجھے پیشاب کی حاجت نہیں تھی، مگر جی چاہتا تھا کہ یہاں کچھ دیر ضرور بیٹھوں اس لیے میں یہاں بیٹھا ہوں۔
حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر جب نابینا ہوگئے تھے، ایک روز مجھ سے کہا کہ ذرا بازار تک لے چلو۔ میں نے ہاتھ پکڑا اور بازار لے آیا تھوڑی دور تک چلے اور پھر فرمایا واپس چلو۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت کام تو آپ نے کوئی بھی نہیں کیا۔ فرمایا کہ آتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ سلام جواب ہوا ہے اور واپسی پر بھی کچھ لوگوں کے ساتھ گزرتے ہوئے سلام کلام ہوگا۔ بس اسی کام کے لیے آیا تھا کہ کچھ مسلمان بھائیوں سے سلام کہنے اور سلام کا جواب دینے کی اس سنت پر عمل ہو جائے گا، جس پر کافی دنوں سے اندر بیٹھے بیٹھے عمل نہیں ہو رہا تھا۔