عبدالرشید طلحہ نعمانیؔ
یوں تو حق تعالیٰ کی ان گنت نعمتیں بارش کے قطروں کی طرح مسلسل برس رہی ہیں اور زمین پر پھیلی ہوئی تمام مخلوقات ان سے برابر مستفید ہورہی ہیں؛مگرغور کیا جائے تو ہمارے سماج میں’وقت‘کے بعد جس نعمت کا سب سے زیادہ ضیاع دیکھنے میں آرہاہے،وہ ’رزق‘ ہے۔حالانکہ بروقت غذا کا حاصل ہوجانا ایسی بے بہا نعمت ہے جس سے دنیا کی تقریباً بیس فیصد آبادی محروم ہے۔افسوس صد افسوس کہ رزق کی ناقدری اور کھانے کی بے حرمتی کے اس جرم میں غیر مسلم تو غیرمسلم مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی برابر کی شریک ہے۔بہت سے لوگ اسراف و تبذیر کو اپنی شان سمجھتے ہیں، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کا موقع ہو کہ انفرادی و اجتماعی محفلوں کا ہر سطح پر کھانے کا خوب ضیاع ہوتا ہے اور یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کتنے فاقہ کش ایسے ہیں جو نان شبینہ کے محتاج اور بھکمری کا شکار ہیں، انہیں آتش شکم بجھانے کے لئے کوئی معمولی چیز بھی میسر نہیں۔
رزق اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اللہ تعالی کا ارشادہے’’بلاشبہ اللہ تعالی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے‘‘ (الذاریات:58)۔ بندوں کو یہ حکم دیاگیاہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں سے خوب فائدہ اٹھائیں؛مگر اعتدال سے تجاوز نہ کریں۔ارشادباری ہے’’اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو، بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں‘‘ (الاعراف: 31)۔اسلام نے خرچ کرنے میں اعتدال ومیانہ روی کا حکم دیا ہے اور اسراف وفضول خرچی سے منع کیا ہے۔ یہی اس کا مقرر کردہ راستہ ہے، اور اس کی پابندی انہیں لوگوں سے ممکن ہے جن کے پاس قناعت کی دولت اور جذبہ ایمانی ہے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ’’ نبیؐ میرے پاس گھر تشریف لائے، آپ ؐنے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا ہے، آپؐ نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمہاری پڑوسی بن جائیں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ(حسنِ سلوک سے پیش نہ آؤ گی تو یہ بھاگ جائیں گی) اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں، ان کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں‘‘ (ابن ماجہ)۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ’’ شیطان تمہارے پاس ہر کام کے وقت آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھالے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگ گئی ہو اسے دور کردے، پھر اسے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ جب فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے، پتہ نہیں کھانے کے کس حصے میں برکت ہے‘‘ (مسلم)۔طبقات ابنِ سعد میں ہے کہ’’ اُم المومنین حضرت میمونہ ؓ کو راستے میں چلتے ہوئے ایک انار کا دانہ ملا۔ انہوں نے جیسے ہی دیکھا اُٹھا لیا اور یوں فرمایا: اللہ پاک رزق ضائع کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ یعنی اگر میں نہ اُٹھاتی تو یہاں کسی کی نظر نہ پڑتی،اس طرح یہ چیز ضائع ہوجاتی اور رزق کا ضائع ہوجانامیرے اللہ کو پسند نہیں‘‘۔ معلوم ہوا کہ گرے ہوئے لقمے یا رکھی ہوئی چیزوں کو کھانے اور استعمال کرنے میں ہم لوگ جوعار محسوس کرتے ہیں، یہ عار صحیح نہیں ہے بلکہ تواضع کی علامت یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمت کو ضائع نہ ہونے دے،اسی سے رزق میں اضافہ ہوگا۔
رزق کی ناقدری کے اس زمانے میں بہ حیثیت مسلمان ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کی ایک ایک نعمت کی بھرپور قدر کریں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرمؐ خلاف معمول ایسے وقت گھر سے نکلے کہ جب آپؐ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپؐ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپؐ کے پاس ابوبکرؓ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسولؐ! میں اس لیے نکلا تاکہ آپؐ سے ملاقات کروں اور آپؐ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپؐ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر ؓ بھی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپؐ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے، پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاریؓ کے گھر پہنچے، ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں؛ مگر ان کا کوئی خادم نہیں تھا، ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا تو ان کی بیوی سے پوچھا: تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں، گفتگو ہو رہی تھی کہ اسی دوران! ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے، انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ سے لپٹ گئے اور کہا: میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ کے سامنے رکھ دیا۔ آپ ؐنے فرمایا: ’’ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے؟ عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں، یا یہ کہا کہ آپ حضرات پکی کھجوروں کو کچی کھجوروں میں سے خود پسند کر لیں، بہرحال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا، اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا اور وہ نعمتیں یہ ہیں: باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی‘‘(بخاری شریف)۔
نعمتوں کی قدر کے ساتھ ساتھ اپنے اخرجات میں فضول خرچی سے بچیں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم خود بھی رزق کی ناقدری نہ کریں اور اپنے زیردستوں کو بھی اس سے بچانے کی فکر کریں۔اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ ہم رزق کی قدر کریں گے توکتنے غریبوں کی بھوک کا علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ اس وقت اگر مال ودولت کی فراوانی کے زمانے میں ہم رزق کے ضیاع اور بے حرمتی کے نقوش پیش کریں گے تو خدانخواستہ وقت کے گزرنے کے ساتھ کہیں ہم کنگال، غریب اور مفلس نہ ہوجائیں۔
رزق کی قدر غریبوں کی بھوک کا علاج اور فاقوں کا مداوا ہے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS