مفتی محمد احمد ورنگلی
قرآن مجید نے سورئہ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ سبا کا ایک واقعہ قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے جو اپنے اور جزوی واقعات کے لحاظ سے بہت دلچسپ اور پیداشدہ نتائج وبصائر کے پیشِ نظر بہت اہم تاریخی واقعہ ہے ۔اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت سلیمان ؑکے عظیم الشان اور بے مثال دربار میں انسانوں کے علاوہ جن اور حیوانات بھی درباری خدمات کے لئے فوج درفوج حاضررہتے تھے اور اپنے اپنے مراتب اور مقررہ خدمات پر بغیرچوں چراتابع فرمان تھے ایک مرتبہ دربانِ سلیمانی اپنے پورے جاہ وچشم کے ساتھ منعقدتھا حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ ہدہداپنی جگہ سے غیر حاضر ہے تو اس کی یہ بے وجہ غیر حاضری سخت قابل سزاہے اس لئے میں یا تو اس کو سخت سزادوںگایاپھر ذبح کرڈالوںگاورنہ یاپھر وہ اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ بتائے ابھی زیادہ وقفہ نہیں ہوا تھا کہ ہدہد حاضرہوگیا اور حضرت سلیما نؑ کی بازپرس پر کہنے لگاکہ میں ایک ایسی یقینی اطلاع لایاہوں جس کی خبر آپ کو پہلے سے نہیں ہے وہ یہ کہ یمن کے علاقے میں سبا کی ایک ملکہ رہتی ہے اور خدانے اس کو سب کچھ دے رکھا ہے اور اس کا تخت سلطنت اپنی خاص خوبیوں کے اعتبارسے عظیم الشان ہے ۔ملکہ اور اس کی قوم آفتاب پرست ہے اور شیطان نے ان کو گمراہ کررکھا ہے اور وہ مالک کائنات پروردگار وحدہ ٗلاشریک لہٗ کی پرستش نہیں کرتے ۔
حضرت سلیمانؑ نے فرمایا ۔اچھا تیرے سچ اور جھوٹ کا امتحان بھی اب ہوجائیگااگر تو سچاہے تو میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان تک پہنچادے اور انتظار کر کہ وہ اس کے متعلق کیا گفتگوکرتے ہیں ۔ملکہ کی گود میں جب خط گرا تو اس نے اس کو پڑھا اور پھر اپنے درباریوں سے کہنے لگی کہ ابھی میرے پاس ایک معزز مکتوب آیا ہے جس میں یہ درج ہے ۔
یہ خط سلیمانؑ کی جانب سے اور اللہ کے نام سے شروع ہے جو بڑا مہربان رحم والا ہے تم کو ہم پر سرکشی اور سربلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے اور تم میرے پاس خدا کے فرمابردار (مسلم ) ہوکر آئو
ملکہ سبا نے خط کی عبارت پڑھ کر کہا ۔ اے میرے ارکان دولت تم جانتے ہو کہ میں اہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں کرتی اس لئے اب تم مشورہ دوکہ مجھ کو کیا کرنا چاہیئے ؟ ارکان دولت نے کہا کہ جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے تو اس کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں رہا مشورہ کا معاملہ تو فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جو مناسب ہو اس کے لئے حکم کیجئے۔ملکہ نے کہا ۔ بے شک ہم طاقتور اور صاحب شوکت ضرورہیں لیکن سلیمان کے معاملہ میں ہم کو عجلت کرنی چاہئے پہلے ہم کو اس کی قوت اور طاقت کا اندازہ کرنا ضروری ہے کیونکہ جس عجیب طریقہ سے ہم تک یہ پیغام پہنچا ہے وہ سبق دیتا ہے کہ سلیمانؑ کے معاملہ میں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا مناسب ہے میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ کروں اور وہ سلیمان کے لئے عمدہ اور بیش بہا تحائف لے جائیں اس بہانہ سے وہ اس کی شوکت وعظمت کا اندازہ لگاسکیںگے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا وہ ہم سے کیا چاہتاہے اگر واقعی وہ زبردست قوت وشوکت کا مالک اور بادشاہ ہے تو پھر اس سے ہمارا لڑنا فضول ہے اس لئے کہ صاحب شوکت وطاقت بادشاہوں کا یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی بستی میں فاتحانہ غلبہ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور باعزت شہریوں کو ذلیل وخوار کردیتے ہیں اس لئے بے وجہ بربادی مول لینی کیا ضروری ہے ؟جب ملکہ سبا کے قاصد تحفہ تحالف لے کر حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا ۔ تم نے اور تمہاری ملکہ نے میرے پیغام کا مقصد غلط سمجھاکیا تم یہ چاہتے ہوکہ ان ہدایا کے ذریعہ جن کو تم بیش بہاسمجھ کر بہت مسرورہو میں انہیں دیکھ کر پھنس جائونگا۔
حالانکہ تم دیکھ رہے ہو کہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو جو کچھ مرحمت فرمایا ہے اس کے مقابلہ میں تمہاری یہ بیش بہا دولت قطعا ًہیچ ہے لہٰذا تم اپنے ہدایا واپس لے جائو اور اپنی ملکہ سے کہوکہ اگر اس نے میرے پیغام کی تعمیل نہ کی تو میں ایسے عظیم الشان لشکر کے ساتھ سباوالوں تک پہنچوں گا کہ تم اس کی مدافعت اور مقابلہ سے عاجز رہوگے اور پھر میں تم کو ذلیل ورسواکرکے شہر بدرکردوںگا۔قاصدوں نے واپس جاکر ملکہ سبا کے سامنے تمام روداد سنائی اور حضرت سلیمانؑ کی شوکت وعظمت کا جو کچھ مشاہدہ کیا تھا وہ حرف بحرف کہہ سنایا اور بتایا کہ ان کی حکومت صرف انسانوں ہی پر نہیں ہے بلکہ جن اور حیوانات بھی ان کے تابع فرمان اور مسخّرہیں ۔ملکہ سبا نے جب یہ سنا توطے کرلیا کہ حضرت سلیمان سے لڑائی اپنی ہلاکت کو دعوت دینا ہے بہتریہی ہے کہ ان کی دعوت پر لبیک کہاجائے ۔
پھر سلیمان کے مکتوب گرامی میں یہ جملہ بھی تھا واٰتونی مسلمین چونکہ ملکہ سبا حضرت سلیمان کے دین ومذہب سے ناواقف تھی اس لئے اس نے لفظ مسلم کو لغوی معنیٰ پر محمول کرتے ہوئے یہ سمجھا کہ قاہر بادشاہوں کی طرح سلیمان کا مقصدبھی یہ ہے کہ میں ان کی فرماں برداری اور شان وشوکت کا اعتراف کرتے ہوئے ان کے ماتحت ہوجانا قبول کرلوں لہٰذااس نے یہ طے کرکر سفر شروع کردیا اور حضرت سلیمانؑ کی خدمت میں روانہ ہو گئی ۔حضرت سلیمان ؑکو وحی کے ذریعہ معلوم ہوگیا کہ ملکہ سبا حاضر خدمت ہورہی ہے تب آپ نے اپنے درباریوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں چاہتاہوںکہ ملکہ سبا کے یہاں آنے سے پہلے اس کا تخت شاہی اٹھا کر یہاں لے آیا جائے تم میں سے کون اس خدمت کو انجام دے سکتا ہے ؟ یہ سن کر ایک دیوپیکر جن نے کہا کہ آپ کے دربار برخاست کرنے سے پہلے میں تخت کو لاسکتاہوں مجھ کو یہ طاقت خاص ہے اور یہ کہ میں اس کے بیش بہا سامان کے لئے امین ہوں ہرگز خیانت نہیں کروںگا ۔ دیوپیکر کا یہ دعوی سن کر حضرت سلیمان کے وزیر نے کیا کہ میں آنکھ جھپکتے ہی اس کو آپ کی خدمت میں پیش کرسکتاہوں حضرت سلیمان نے رخ پھیرکردیکھا تو ملکہ سبا کر شاہی تخت موجود پایا فرمانے لگے ۔ یہ میرے پروردگار کا فضل وکرم ہے مجھ کو آزماتا ہے کہ میں اس کا شکرگزاربنتاہوں یا نافرمان اور حقیقت تو یہ ہے کہ جو شخص اس کا شکر گزارہوتا ہے وہ دراصل اپنی ذات ہی کو نفع پہنچاتاہے اور جو نافرمانی کرتا ہے تو خدا اس کی نافرمانی سے بے پرواہ اور بزرگ ترہے اور اس کا وبال خودنافرمانی کرنے والے ہی پرپڑتاہے ۔خداتعالیٰ کے شکر اداکرنے کے بعد حضرت سلیمان ؑنے حکم دیا کہ اس تخت کی ہئیت میں کچھ تبدیلی کردی جائے میں دیکھناچاہتاہوں کہ ملکہ سبا یہ دیکھ کر حقیقت کی طرف مائل ہوتی ہے یا نہیں ۔
کچھ عرصہ بعد ملک سبا حضرت سلیمان ؑکی خدمت میں پہنچ گئی اور جب دربان میں حاضر ہوئی تو اس سے دریافت کیاگیا کیاتمہاراتخت ایساہی ہے ؟ عقلمند ملکہ نے جواب دیا ایسامعلوم ہوتا ہے گویاوہی ہے یعنی تخت کی ساخت اور مجموعی حیثیت تو یہ بتارہی ہے کہ یہ میراہی تخت اور قدرے ہئیت کی تبدیلی اس یقین میں ترددپیداکررہی ہے اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ یقینامیرا ہی تخت ہے ۔ملکہ سبا نے ساتھ ہی یہ بھی کہا مجھ کو آپ کی بے نظیر اور عدیم المثال قوت وطاقت کا پہلے سے علم ہوچکاہے اسی لئے میں مطیع اور فرمابردار بن کر حاضرخدمت ہوئی ہوں اور اب تخت کا یہ معاملہ تو آپ کی لاثانی طاقت کا تازہ مظاہرہ ہے اور ہماری اطاعت وانقیاد کیلئے مزیدتازیانہ اس لئے ہم پھر ایک مرتبہ آپ کی خدمت اظہار وفاداری و فرمابرداری کرتے ہیں ۔ملکہ نے یقین کرلیا کہ کنامسلمین (ہم فرمابردارہیں )کہہ کہ ہم نے سلیمان کے پیغام کی تعمیل کردی اور اس کے مقصد کو پورا کردیا اور ملکہ کی مشرکانہ زندگی اور آفتاب پرستی مانع آئی کہ وہ حضرت سلیمان کے پیغام کی حقیقت سمجھ سکے اور ہدایت کے جانب راہ یاب ہوسکے اس لئے اب حضرت سلیمان نے اظہار مقصد کے لئے دوسرا لطیف طریقہ اختیار فرمایا اور اس کی ذکاوت فطانت کو مہمیز کیا وہ یہ کہ انہوں نے جِنوں کے مدد سے ایک عالیشان شیش محل تیارکرایاتھا جو آنگینہ کی چمک قصر کی رفعت اور عجیب وغریب صنعت کاری کے لحاظ سے بے نظیر تھا اور اس میں داخل ہونے کے لئے سامنے جو صحن پڑتا تھا اس میں بہت بڑا حوض کھدواکر پانی سے لبریز کردیا تھا اور پھر شفاف آبگینوں اور بلور کے ٹکڑوں سے ایسا نفیس فرش بنایاتھا کے دیکھنے والے کی نگاہ دھوکا کھاکر یہ یقین کرلیتی تھی کہ صحن میں صاف وشفاف پانی بہہ رہاہے ۔ملکہ سبا سے کہا گیا کہ قصرشاہی میں قیام کرے ملکہ محل کے سامنے پہنچی تو شفاف پانی بہتاہواپیا یہ دیکھ کر ملکہ نے پانی میں اترنے کیلئے کپڑوں کو ساق سے اوپر چڑھایاتو حضرت سلیمان نے فرمایا اس کی ضرورت نہیں یہ پانی نہیں ہے سارے کا سارا محل اور اس کا خوبصورت صحن چمکتے ہوئے آبگینہ کاہے
ملکہ کی ذکاوت اور فطانت پر یہ سخت چوٹ تھی جس نے حقیقت حال سمجھنے کیلئے اس کے قوائے عقلی کو بیدار کردیا اور اس نے اب سمجھاکہ قاہرانہ طاقتوں کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ مجھ پر واضح کرنا مقصود ہے کہ سلیمانؑ کی یہ بے نظیر طاقت اور یہ معجزانہ قدرت کسی ایسی ہستی کی عطاکردہ ہے جو شمس وقمر بلکہ کل کائنات کا تنہامالک ہے اور اس لئے سلیمانؑ یکتا ذات کی اطاعت وانقیاد کی دعوت دینا ان کا مقصدہے ۔ملکہ کے دماغ پر یہ خیال آنا تھا کہ اس نے فورا حضرت سلیمانؑ کے سامنے ایک شرمسار اور نادم انسان کی طرح بارگائہ الٰہی میں یہ اقرار کیا پروردگار آج تک ماسوائے اللہ کی پرستش کرکے میں نے اپنے نفس پر بڑاظلم کیا مگر اب میں سلیمانؑ کے ساتھ ہوکر صرف تجھ پر ایمان لاتی ہوں تو تمام کائنات کا پروردگار ہے اور اس طرح حضرت سلیمان کے پیغام واٰتونی مسلمین کی حقیقی مراد تک پہنچ کر اس نے دینِ اسلام اختیار کرلیا بلکہ مسلمان ہوکر حکومت سبا کو ہی حکومت سلیمان کے زیر فرمان کردیا ۔
qqq