بے روزگاری کا بے قابو مسئلہ، آخر حل کیا ہے؟

0

صبیح احمد

حالیہ اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم روز بروز زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ پر کشش وعدوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حسب دستور بر سر اقتدار سے لے کر اپوزیشن تک تمام سیاسی پارٹیاں ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر اپنا پلہ جھاڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان گہما گہمیوں میں عام لوگوں کے بنیادی مسائل کی طرف کوئی توجہ دینے کی کوشش ہی نہیں کرتا یا جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ الیکشن کے وقت ووٹروں کو مفت تحفے و تحائف دینے کا چلن اتنا عام ہو گیا ہے کہ عوام کے اصل ایشوز دب کر رہ جاتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ درحقیقت ووٹروں کی توہین ہے۔ انہیں اتنا گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ ووٹ ڈالنے کے اپنے آئینی حق کا استعمال آزادانہ طور پر کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہ پاتے۔ انہی وعدوں اور دعووں میں الجھ کر وہ وقتی طور پر اپنے بنیادی مسائل تک بھول جاتے ہیں اور گمراہی میں ایسے امیدواروں کو اپنا قیمتی ووٹ دے دیتے ہیں جن کا ان کے مسائل اور ضروریات سے دور دور تک کوئی مطلب ہی نہیں رہتا۔
ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، عوامی مسائل کے انبار ہیں۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی عام لوگوں کو بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں ہیں۔ الیکشن پر الیکشن ہو رہے ہیں لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہر الیکشن میں ووٹروں کوان مسائل کے خاتمہ کے لیے نام نہاد ’نسخے‘ تھما دیے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ابھی تک جاری ہے لیکن مسائل اور ایشوز جہاں تھے، وہیں برقرار ہیں۔ ابھی سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی اور بے روزگاری کا ہے۔ ملک میں بے روزگاری بے قابو ہوتی جا رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے بے روزگاری کا مسئلہ نہیں تھا لیکن اب یہ ناسور کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ اتنا عاجز اور پریشان ہو چکا ہے کہ وہ اب سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ بے روزگاری کا مسئلہ اب اتنا خوفناک شکل اختیار کر چکا ہے کہ اس کا سامنا کرنا ہمارے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ملک میں بے روزگاری کی شرح دسمبر میں ریکارڈ 7.91 فیصد پر پہنچ گئی۔ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی (سی ایم آئی ای) کے مطابق یہ شرح گزشتہ 4 مہینے میں سب سے زیادہ رہی۔ 2021 میں اکتوبر کو چھوڑ کر باقی 11 مہینوں میں ہندوستان کے گائوں کے مقابلے شہروں میں زیادہ بے روزگاری رہی۔ شہروں میں کام کرنے کی خواہش اور لیاقت ہونے کے باوجود لوگوں کے پاس کوئی نوکری نہیں ہے۔
ہندوستان میں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب گائوں میں کام نہیں مل رہا ہو تو شہروں کی طرف کوچ کیا جاتا ہے کیونکہ شہروں میں نوکری یا روزگار کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں، اس لیے شہروں میں کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا۔ لیکن کووڈ 19- وبا کی وجہ سے اس سوچ میں نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔ 2021 میں صرف اکتوبر کے علاوہ باقی مہینوں میں شہری بے روزگاری کی شرح دیہی بے روزگاری کی شرح سے زیادہ درج کی گئی۔ دیہی بے روزگاری کی شرح کم ہونے کی 2 اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اچھا موسم ہونے سے کورونا کی دوسری لہر کے دوران شہر سے گائوں آنے والے لوگوں کو کھیتوں میں کام ملا اور دوسری یہ کہ الگ الگ ریاستوں کی سرکاروں نے بھی منریگا کے ذریعہ لوگوں کو کافی روزگار دیا۔ گزشتہ 4 مہینے کی بات کی جائے تو سب سے کم بے روزگاری کی شرح ستمبر میں 6.9 فیصد تھی۔ اس کے بعد اکتوبر میں ایک بار پھر بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا اور اعداد و شمار 7.8 فیصد تک پہنچ گئے۔ نومبر میں مجموعی طور پر بے روزگاری کی شرح 7 فیصد رہی۔ وہیں دسمبر میں گزشتہ 4 مہینے میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح 7.9 فیصد پر پہنچ گئی۔ پورے سال کی بات کی جائے تو ملک میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی شرح دوسری لہر کے دوران مئی 2021 میں 11.84 فیصد رہی۔ ملک میں سب سے زیادہ بے روزگاری والی ریاست ہریانہ ہے۔ دسمبر میں ہریانہ کی بے روزگاری کی شرح 34.1 فیصد رہی۔ اس کے بعد راجستھان 27.1 فیصد بے روزگاری کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ جھارکھنڈ تیسرے اور بہار چوتھے مقام پر ہے۔ وہیں دوسری جانب سب سے کم بے روزگاری والی ریاستوں میں کرناٹک 1.4 فیصد بے روزگاری کی شرح کے ساتھ پہلے مقام پر ہے۔ دوسرے نمبر پر گجرات ہے۔
کووڈ19- عالمی وبا کا اثر معاشی طور پر تقریباً تمام شعبوں پر پڑا ہے۔ یہ اثر الگ الگ سیکٹروں میں اب بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 2020-21 میں سب سے زیادہ بے روزگاری کی مار غیر منظم سیکٹر کے ہاکر اور ریہڑی پٹری پر سامان فروخت کرنے والوں پر پڑی۔ 2019-20 کے مقابلے 2020-21 میں غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والوں کی تعداد 14.5 فیصد کی شرح سے کم ہوئی ہے۔ صرف زرعی شعبہ ہے جہاں 2021 میں روزگار کی صورتحال مقابلتاً صحیح رہی۔ زراعت کے شعبہ میں 2020 کے مقابلے 2021 میں روزگار میں 7.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ نوکری اور بزنس کرنے والوں کے لیے بھی 2021 ٹھیک نہیں رہا۔ 2019 کے مقابلے 4اہم شعبوں بزنس، نوکری، غیر منظم شعبہ اور زراعت کی بات کی جائے تو زرعی شعبہ کو چھوڑ کر باقی سبھی شعبوں میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ ملک کی معیشت آزادی کے اتنے برسوں بعد بھی پوری طرح خستہ حالت میں ہے۔ خواہ ہماری سرکاریں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے اور انہیں خاطر خواہ روزگار مہیا کرانے کا دم بھرتی ہوں لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ ہماری زیادہ تر آبادی بے روزگاری کے سبب بھوکے پیٹ سونے اور تعلیم سے محروم رہنے کے لیے مجبور ہے۔ اسے کس قسم کی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔
حالانکہ 1990 کی ابتدائی دہائی میں نجکاری اور لبرلائزیشن جیسی نئی اقتصادی پالیسیوں کی ہندوستان میں آمد کے ساتھ ہی روزگار کی صورتحال میں تھوڑی بہتری آئی تھی۔ انہی پالیسیوں کے نتیجے میں کئی ایسی صنعتوں کا فروغ ہوا جن کے سبب بے روزگاری سے متعلق اعداد و شمار میں کمی دیکھی گئی۔ اقتصادی کھلے پن اور گلوبلائزیشن کے سبب کثیر ملکی کمپنیاں بھی جنہوں نے ہمارے نوجوانوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں کافی مدد کی، ہندوستان میں اپنے پائوں پھیلانے میں کامیاب رہی لیکن یہ ترقی صرف شہری علاقوں تک ہی محدود رہی۔ اصلی ہندوستان جو دیہات و گائوںمیں بستا ہے، کی ترقی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے نتیجہ کے طور پر گائوں میں روزگار کی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہو گئی۔ ہندوستان ایک بہت بڑی آبادی والا ملک ہے۔ آبادی جتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، لوگوں کا معیار زندگی اور روزگار کے مواقع اتنی ہی تیزی سے نیچے گرتے جا رہے ہیں۔
بے روزگاری کا مسئلہ صرف بڑھتی آبادی تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہمارا نظام اور اس میں موجود خامیاں بھی اس کے لیے خاص طور پر ذمہ دار ہیں۔ بدعنوانی ایسی ہی ایک سماجی اور اخلاقی برائی ہے۔ بڑھتی بے روزگاری کا مسئلہ راست طور پر بدعنوانی سے وابستہ ہے۔ بدعنوانی جتنی تیزی سے پھل پھول رہی ہے، روزگار کی تعداد اسی رفتار سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ سرکار دیہی علاقوں میں لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے روزگار سے متعلق مختلف اسکیمیں اور پروجیکٹ چلاتی ہے لیکن بدعنوانی کے سبب یہ کوششیں درحقیقت ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ ہندوستان میں بے روزگاری کو بڑھتی آبادی، بڑے پیمانے پر نا خواندگی اور بدعنوانی یکساں طور پر تقویت پہنچارہی ہیں۔ اگر ان سبھی عوامل میں سے کم از کم ایک سے بھی سنجیدگی کے ساتھ نمٹنے کی کوشش کی جائے تو بے روزگاری کے مسئلہ کو ختم کرنے میں کافی حد تک مدد مل سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS