امریکہ کے لیے حالات 1991 سے پہلے کے حالات سے زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ اس وقت اسے صرف سوویت یونین سے ہی نمٹنا تھا، اسی کے مطابق عالمی پالیسی بنانی تھی۔ اس کی ابتدا اس نے ’ٹرومین ڈوکٹرین‘ سے کی تھی، ’مارشل پلان‘ اس کی توسیع تھی مگر امریکہ کے پہلے افغان جنگ اور پھر عراق جنگ میں الجھ جانے سے روس اور چین جیسے ملکوں کو خود کو مستحکم بنانے کا موقع مل گیا اور اس کا بھرپور فائدہ دونوں ملکوں نے اٹھایا۔ امریکہ کے لیے عراق جنگ ختم کرنا آسان تھا اور یہ کام اوباما نے کر دیا، البتہ افغان جنگ ختم کرنے کے لیے برسوں تک امریکہ اس کشمکش میں مبتلا رہا کہ جنگ اگر اس نے یوں ہی ختم کر دی تو پھر اس کی ساکھ کا کیا ہوگا؟ لیکن پہلے اوباما نے یہ بات سمجھی کہ امریکہ کا اور زیادہ افغان جنگ میں الجھے رہنا روس اور چین کو زیادہ مستحکم بنا دے گا اور یہ اس کے طویل مدتی مفاد کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ بعد میں ڈونالڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن نے بھی یہ بات سمجھی۔ ٹرمپ نے ایک طرف افغان جنگ ختم کرنے پر توجہ دی، دوسری طرف چین کو کمزور کرنے پر۔ ٹریڈ وار امریکہ نے اسی لیے چھیڑی۔ کورونا کے لیے چین پر الزام عائد کرنے کی امریکہ نے اسی لیے کوشش کی مگر یہ دیکھتے ہوئے وقت رہتے امریکہ کو سنبھلنا پڑا کہ مغربی یوروپ کے کئی ملکوں کی چین کے خلاف کھڑے ہونے میں زیادہ دلچسپی نہیں۔ روس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑی تو ابتدا میں اس جنگ کے سلسلے میں سبھی مغربی ملکوں کا موقف ایک نہیں تھا۔ اس وقت تک امریکہ کا یہ بھرم تھا کہ وہ کھل کر یوکرین کا ساتھ دے گا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے روس پرپابندیاں لگائیں مگر پابندیوں کا زیادہ اثر روس پر نہیں پڑا۔ اب امریکہ کے وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے یہ امید ظاہر کی ہے کہ ’ سردیوں کے بعد یوکرین روس کے خلاف نیا جوابی حملہ کرے گا۔‘ممکن ہے کہ ایسا ہی ہو۔ امید یہ بھی ہے کہ امریکہ ، یوکرین کی کچھ اورمدد کرے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ جنگ رکوانے کے لیے روس سے وہ براہ راست ٹکرائے گا اور اس کا جواب فی الوقت نفی میں نظر آتا ہے۔ یہ بات چین کے لیے حوصلہ افزا ہوگی۔ چین اگر یوکرین کی جگہ تائیوان اور روس کی جگہ خود کو رکھ کردیکھ رہا ہوگا تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ چین نے یہ ضرور سمجھنے کی کوشش کی ہوگی کہ اگر امریکہ نے تائیوان پر حملہ کر دیا تو وہ کس حد تک جائے گا؟ کیا کرے گا؟ اس کا ساتھ کون ممالک دیں گے اور وہ کس حد تک دیں گے؟ لیکن امریکہ نے اگر یوکرین کی طرف سے روس کے خلاف فوجی کارروائی کی ہوتی تویہ صورتحال پیدا نہیں ہوتی۔ روس کے خلاف نہ چھیڑنے کے لیے امریکی لیڈران یہ جواز پیش کر سکتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں وہ ایٹم بم کا استعمال کر دیتا مگر ایٹم بم تو چین کے پاس بھی ہے۔ طاقتور چین بھی ہے۔ تو کیا اس کی طاقت کو نظرانداز کرکے وقت پڑنے پر تائیوان کا ساتھ امریکہ دے پائے گا؟ سچ تو یہ ہے کہ یوکرین جنگ نے امریکہ کی طاقت کا بھرم توڑ دیا ہے۔ عالمی برادری کو یہ بتا دیا ہے کہ وہ سپر پاور تو ہے اور جنگ کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے مگر افغانستان اورعراق جیسے ملکوں کے خلاف، روس یا چین جیسے ملکوں کے خلاف نہیں!n