قوموں کی تعمیر میں نصاب تعلیم وہ بنیاد ہے جس پر آنے والی نسلوں کی فکری، نظریاتی اور تمدنی اساس رکھی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ تعلیم کو محض علم کی ترسیل کا وسیلہ سمجھنے کے بجائے اسے سماجی تشکیل اور نظریاتی پرداخت کا آلہ کار مانا جاتا ہے۔ ہندوستان میں حالیہ دنوں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آرٹی) کی جانب سے درجہ ہفتم کی سماجی سائنس کی نصابی کتابوں میں کی گئی تبدیلیاں نہ صرف علمی دنیا کیلئے باعث تشویش ہیں بلکہ ایک گہرے سیاسی و نظریاتی ایجنڈے کی غمازی بھی کرتی ہیں۔
تعلیمی سیشن2025-26کیلئے جاری کردہ نئی کتاب Exploring Society – India and Beyond (Part 1) میں دہلی سلطنت اور مغلوں کے ادوار کو مکمل طور پر حذف کر دیا گیا ہے۔ سابقہ نصاب میں جہاں تغلق، خلجی، لودی اور مغل خاندانوں کی سیاسی، سماجی، ثقافتی اور تمدنی خدمات کو شامل کیا گیا تھا وہ اب قصہ پارینہ بنا دی گئی ہیں۔ یاد رہے کہ کووڈ19- کے بعد تعلیمی دباؤ کو کم کرنے کے نام پراین سی ای آرٹی نے ان ابواب کو مختصر ضرور کیا تھا مگر مکمل اخراج کا یہ پہلا موقع ہے۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک کے سیاسی منظرنامے پر ہندو قوم پرستی کی لہر غالب ہے۔ نئی نصابی کتب میں قدیم ہندوستانی خاندانوں جیسے مگدھ، موریہ، شونگا، ساتواہن، چولا، پانڈیہ اور چیرا کو بڑی تفصیل سے شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ’زمین مقدس کیسے بنتی ہے؟‘ کے عنوان سے بھی ایک باب شامل کیا گیا ہے جس میں مختلف مذاہب کے مقدس مقامات کا ذکر کیا گیا ہے۔ 12 جیوترلنگ، چار دھام یاترا، شکتی پیٹھ اور مہا کمبھ جیسے مقامات کو اب ابواب کا موضوع بنایا جا رہا ہے۔ سنسکرت الفاظ کو ’ڈائیکرٹیکل ‘نشانات کے ساتھ استعمال کر کے ان کے تلفظ کی درستگی پر زور دیا جا رہا ہے جو اس بات کا اظہار ہے کہ اب نصاب کی علمی ساخت بھی مخصوص تہذیبی تناظر میں ڈھالی جا رہی ہے۔
تاریخی طور پر مغلوں اور دہلی سلطنت کے حکمرانوں نے ہندوستان کے فن تعمیر، عدلیہ، نظم و نسق، زراعت، فنون لطیفہ، موسیقی اور تہذیب پر جو اثرات ڈالے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مغلوں کی تعمیر کردہ عمارات جیسے تاج محل، لال قلعہ اور جامع مسجد نہ صرف فن کی علامتیں ہیں بلکہ ہندوستان کی شناخت کا حصہ ہیں۔ اس کے باوجود ان کی مکمل غیر موجودگی ایک دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے کہ نئی نسل ان تاریخی کرداروں سے ناآشنا رہے۔
مزید برآں نئی کتاب میں حالیہ حکومتی پروگرام جیسے ’میک ان انڈیا‘، ’بیٹی بچاؤ- بیٹی پڑھاؤ‘ اور ’اٹل ٹنل‘ جیسے منصوبوں کے ابواب بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یہ وہ پروگرام ہیں جن پر خود حکومتی اعداد و شمار اور سرکاری ایجنسیوں کی رپورٹوں نے سوالات اٹھائے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے مطابق گزشتہ دہائی میں خواتین کے خلاف جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ غیرمحفوظ ریاستیں وہ ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے۔ ’میک ان انڈیا‘ کا دعویٰ بھی زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں کیونکہ ہندوستان کا مینوفیکچرنگ سیکٹر اب بھی چین، ویتنام اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے پیچھے ہے۔ان تبدیلیوں کو جس انداز میں نافذ کیا گیا ہے، وہ ایک علمی یا اصلاحی عمل نہیں بلکہ سیاسی بیانیے کی تعلیماتی اشاعت ہے۔ این سی ای آرٹی کے موجودہ ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی نے گزشتہ برس گجرات 2002 کے فسادات کی معلومات کو حذف کرنے کے فیصلے کا دفاع یہ کہہ کر کیا تھا کہ متنازع موضوعات سے گریز ’مثبت شہری‘ پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تاریخ کی تلخ حقیقتوں سے نظریں چرانا نوجوانوں کو بہتر انسان بناتا ہے یا انہیں ایک محدود اور غیر تنقیدی سوچ کا حامل بناتا ہے؟
حالیہ ترمیمات میں یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ نصابی کتاب کا دوسرا حصہ سال کے آخر میں جاری ہوگا مگر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا مغلوں اور دہلی سلطنت جیسے موضوعات اس میں شامل کیے جائیں گے یا نہیں۔ جب ایک پوری نسل کو برصغیر کے قرون وسطیٰ کے اہم ترین دور سے محروم رکھا جائے گا تو ان کی فکری نشوونما نہ صرف ادھوری ہوگی بلکہ متعصبانہ رجحانات کی آبیاری کا سبب بنے گی۔
یہ تبدیلیاں محض چند ابواب کی کمی یا زیادتی کا معاملہ نہیں بلکہ ایک ایسی فکری کٹائی کا عمل ہے جو طلبا کے ذہن سے ایک مکمل تاریخی روایت کو حذف کر دینا چاہتا ہے۔ اس روایت میں نہ صرف مسلمانوں کا حصہ شامل ہے بلکہ ہندوستان کی وہ گنگا-جمنی تہذیب بھی ہے جس نے اسے ہزاروں برسوں تک کثیرالثقافتی ریاست کے طور پر قائم رکھا۔
کہتے ہیں کہ تاریخ اپنی شرائط پر آگے بڑھتی ہے، چاہے کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ اسے مٹایا نہیں جا سکتا محض وقتی طور پر نصاب سے حذف کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال جو ماحول رائج ہے، وہ کسی تعلیمی و تدریسی ضرورت کی تکمیل سے زیادہ ایک خاص نظریے کو راسخ کرنے کا عمل ہے جہاں ’ہندو راشٹر‘ کا خواب حقیقت کا لباس پہننے لگا ہے۔ اگر تعلیمی ادارے خصوصاً این سی ای آرٹی جیسے قومی ادارے اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر سیاسی مصلحتوں کے تابع ہو جائیں تو تاریخ خاموشی سے نہیں بیٹھے گی۔ وہ کسی نہ کسی شکل میں اپنا انتقام ضرور لے گی، خواہ وہ نسلوں کی فکری پسماندگی کی صورت میں ہو یا سماجی ہم آہنگی کے زوال کی شکل میں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نصاب تعلیم کو سیاسی ایجنڈے سے آزاد کریں تاکہ تعلیم کا اصل مقصد یعنی تنقیدی شعور، ہم آہنگی اور تاریخی شعور کی تشکیل پوری ہوسکے۔ بصورت دیگر ہم ایک ایسی نسل تیار کریں گے جو نہ تو اپنے ماضی سے واقف ہوگی نہ حال سے باخبر اور نہ مستقبل کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے قابل۔
[email protected]
تاریخ کے صفحات سے مٹتی حقیقت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS