ایم اے کنول جعفری
اس مرتبہ147خوش ترین ممالک کی درجہ بندی میں ہندوستان کا مقام 118واں ہے،جو گزشتہ برس سے 8 درجہ اُوپر ہے۔ دوسری جانب لاقانونیت، عدم استحکام، سیاسی تصادم، مہنگائی، بدعنوانی اور بے روزگاری کا شکار پاکستان ہم سے9 پائیدان اُوپر109ویں مقام پر ہے۔ فن لینڈ کے عوام سب سے زیادہ خوش ہیں۔’ورلڈ ہیپی نیس انڈیکس 2025‘میں گزشتہ7برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی فن لینڈ سب سے اُوپر پہلے نمبرپر ہے۔کسی ملک کا مسلسل 8ویں مرتبہ پہلے مقام پرقائم رہنا کسی عجوبے سے کم نہیں ہے۔
امریکہ کے واشنگٹن میں واقع ’گیلپ اور یونائٹیڈ نیشنز سسٹینیبل ڈیولپمنٹ سولیوشنز نیٹ ورک‘ کے ساتھ پارٹنرشپ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ’ویلبیئنگ ریسرچ سینٹر‘ کی جانب سے20مارچ کو شائع کی گئی سالانہ رپورٹ میں دیگرنارڈک ممالک ڈنمارک مسلسل دوسرے،آئس لینڈ تیسرے اور سویڈن چوتھے مقام پربرقرار ہیں۔خوشی کی درجہ بندی کے ٹاپ 20 ممالک میں فن لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ اور سویڈن کے بعد نیدرلینڈ 5ویں، کوسٹاریکا6ویں، ناروے 7ویں، اسرائیل8ویں، لکسمبرگ9ویں، میکسیکو 10ویں، آسٹریلیا11ویں، نیوزی لینڈ 12ویں، سوئٹزرلینڈ13ویں، بلجیم14ویں،آئرلینڈ15،لیتھو انیا 16ویں، آسٹریا 17 ویں، کینیڈا18ویں، سلووینیا 19ویں اور چیک جمہوریہ 20ویں مقام پر ہے۔خوش حال ممالک کی درجہ بندی میں امریکہ24ویں مقام پر ہے۔2012میں جب یہ سروے شروع کیا گیا تھا،تب امریکہ11ویں نمبر پر تھا۔اس کے بعد سے امریکہ مسلسل نیچے جا رہا ہے۔ یہ مطالعہ ’گیلپ اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے حل کے نیٹ ورک‘ کے اشتراک سے کیا گیا ہے۔ گیلپ کے سی ای او جان کلفٹن نے بتایا کہ خوشی صرف پیسے یا ترقی کے بارے میں نہیں ہے،یہ اعتماد، تعلقات اور یہ جاننے کے بارے میں بھی ہے کہ لوگ آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔
رینکنگ میں یوروپی ممالک کا سب سے اُوپر کے 20 مقامات پر غلبہ ہے،لیکن کچھ مستثنیات بھی ہیں۔حماس کے ساتھ ایک برس سے زیادہ کی خونریز جنگ کے باوجود اسرائیل8ویں مقام پر ہے۔کوسٹاریکا اور میکسیکو پہلی مرتبہ بالترتیب 6ویں اور 10مقام پر آکر پہلے 10خوش ممالک کی فہرست میں شامل ہو گئے۔اس درجہ بندی میں برطانیہ 23ویں اور افغانستان سب سے نیچے147ویں پائیدان پر سب سے ناخوش ملک ہے۔ اس کے اُوپر سیرالیون، لبنان، ملاوی، زمبابوے، بوٹسوانا، جمہوری جمہوریہ کانگو، یمن، کوموروس اور لیسوتھو ہیں۔ 2024، 2023 اور 2022 میں ہندوستان 126 ویں، 2021 میں 136 ویں، 2020 میں 139ویں، 2019 میں 144ویں مقام پر تھا۔ یہ اسکور اَب تک کا سب سے خراب اسکور ہے۔ ہندوستان کا سب سے اچھا اسکور 2012 میں 94 تھا۔
خوشی کے پیمانے کے طور پرتمام ممالک کی درجہ بندی2022سے2024کی مدت کے دوران خود ساختہ زندگی کے جائزے کے اوسط کے مطابق کی گئی ہے۔ خوشی کی بنیاد کے طور پرسروے میں6 پیرامیٹرز پرغور کیا گیا،جن میں سماجی مدد، فی کس مجموعی گھریلو پیداوار، متوقع عمر، آزادی، سخاوت اور بدعنوانی کا ادراک شامل ہے۔ مجموعی خوشی کی پیمائش کے لیے عوام سے صحت، دولت، آزادی، سخاوت اور بدعنوانی سے آزادی سمیت مختلف عوامل پوچھے گئے اور جوابات کا جائزہ لیا گیا۔
معاشیات،نفسیات، سماجیات اور دیگر کئی پہلوؤں پربھی توجہ دی گئی۔ محققین کے مطابق دوسروں کے ساتھ کھانا بانٹنا،کسی پر بھروسہ کرنا اور خاندانی سائز جیسے عوامل خوشی کے حصول میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔گیلپ کے سی ای او جان کلفٹن نے کہا کہ خوشی صرف پیسے یا ترقی کے بارے میں نہیں ہے، یہ اعتماد،تعلق اور یہ جاننے کے بارے میں ہے کہ لوگ ہمیشہ آپ کا ساتھ دیں گے۔اگر مضبوط معاشرے اور معیشت چاہتے ہیں تو ان چیزوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے،جو واقعی اہم ہیں۔ ہندوستان عطیہ کرنے کے معاملے میں 57ویں، لوگوںکی رضاکارانہ خدمات میں 10ویں، کسی اجنبی کی مددکرنے میں74ویں، کسی پڑوسی کے ذریعہ بٹوا لوٹانے میں 11ویں، کسی اجنبی کی طرف سے 86ویں اور پولیس کے معاملوں میں93ویں مقام پر ہے۔
ہندوستان کو پاکستان، جنگ زدہ یوکرین اور فلسطین سے زیادہ افسردہ اور غیرمطمئن قراردیاگیاہے،جسے درست نہیں کہا جاسکتا۔سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا ایسے عالمی اشارے واقعی حقائق پر مبنی ہیں؟ اتنا ہی نہیں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر حقیقی خوشی اور اس کی پیمائش کا معیار کیا ہے؟ اگرچہ اس رینکنگ میں ہندوستان کی پوزیشن گزشتہ برس کے مقابلے میں بہتر ہوئی ہے، لیکن اگر پاکستان،جو معاشی دیوالیہ پن اور خانہ جنگی جیسی صورت حال سے دوچار ہے، کو اس سے اُوپر رکھا جائے تو فطری طور پر شکوک و شبہات پیدا ہوں گے۔ جنگ زدہ ممالک کی بات کریں تو اسرائیل 8ویں، فلسطین 108 ویں، روس66ویں، یوکرین 11 ویں نمبر پر ہے۔
یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ درجہ بندی میں118مقام پر رکھا گیا ہندوستان بغیر کسی جنگ اور بنا کسی تباہی کے بھی نا خوش ملک ہے اور اِس پائیدان پرکیوں ہے ؟ عالمی غیر یقینی صورت حال کے درمیان مختلف بین الاقوامی ایجنسیاں ہندوستان کی شرح نمو پر اُمیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ خوشیوں کے پیمانے میں ہندوستان کا اسکور چاڈ، برکینیا فاسو، بینن اورصومالیہ جیسے ممالک سے تھوڑا ہی اُوپر ہے۔تو کیا یہ مان لیا جانا چاہیے کہ ان ممالک کی طرح لاقانونیت اور تصادم حقیقی خوشی کی اصل ہے اور ہمیں اس پر ہی عمل کرنا چاہیے؟ حیرت میں ڈالنے والی بات یہ بھی ہے کہ ’گروس ہیپی نیس انڈیکس‘ کا آئیڈیا دینے والا بھوٹان،جس کی 2024 کی رپورٹ میں79ویں رینک تھی، اس برس کوئی بھی رینک حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔اتنا ہی نہیں وسطی امریکی ملک بیلیز،جسے دنیا میں سب سے زیادہ قتل کی شرح میں شمار کیا جاتا ہے، خوشی کے میٹر پر25ویں نمبر پر ہے،جو امریکہ سے صرف ایک درجہ نیچے ہے۔
وہاں کے لوگوں کا اتنا خوش ہونا بھی حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق برسوں سے معاشی بحران، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام اور سماجی بد امنی سے نبردآزما وینزویلا ہندوستان سے زیادہ خوش ملک ہے۔تو کیا اس کا مطلب یہ نکالا جانا چاہیے کہ اَب لاقانونیت اورعدم استحکام عالمی خوشی کا پیمانہ بن گیا ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ایک پوری تہذیب کے معیارکا کیا ہوگا؟قاتل کو قتل کرنے میں،کسی کو بدلہ لینے میں اور کسی کو صدقہ کرنے میں خوشی ملتی ہے۔ خوشی کے معیار ہر ایک کے مختلف ہو سکتے ہیں،لیکن ان معیارات کو نارمل کہہ کر شکوک پیدا کرنا کس حد تک مناسب ہے کہ لوگ یہ نہ جان سکیں کہ آخرحقیقی خوشی کیا ہے؟ایسا کرنے والے اشاریوں کی سطح صرف ایک روز کی سنسنی تک محدود ہو،تو تعجب کی بات نہیں!!
عالمی خوشی رپورٹ دیکھ کر کسی کو بھی حوصلہ شکن یا غمگین ہونے کے بجائے اس سے حوصلہ لینے کی ضرورت ہے۔ خوشی کی پیمائش کے اپنے اپنے پیمانے ممکن ہیں۔پہلا عدم اطمینان یہی ہے کہ پاکستان کو ہندوستان سے زیادہ خوش ملک قرار دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں بدعنوانی، غربت، مہنگائی، تشدد اور دہشت گردی کم ہے؟ اگر نہیں،تو پھر وہ ہندوستان سے بہتر کیسے ہوگیا؟اور اگر ہاںتو خوشی کی رپورٹ تیار کرنے والوں کا پیمانہ ہی غلط ہے۔ دیگر پڑوسی ممالک میں سری لنکا133ویں،بنگلہ دیش 134ویں، چین 68ویں اور نیپال92ویں نمبر پر ہے۔ قابل غور ہے کہ ایک چھوٹے ملک کے لیے خوش ہونا زیادہ آسان ہے،بہ نسبت بڑے ملک کے۔بڑے ملک میں چیلنجز زیادہ ہوتے ہیں۔ چین خوش حال اور اُبھرتی ہوئی بڑی طاقت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے،لیکن50خوش نصیب ممالک میں اس کا نام شامل نہیں ہے۔جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو وہ ایسے کسی مقابلے میں حصہ نہیں لیتا۔ ہندوستان سب سے بڑی آبادی کا ملک ہے۔ اس کے تنوع کے علاوہ نظام کی سخاوت بھی کہیں نہ کہیں خوشی میں رُکاوٹ بن رہی ہے۔ بہرحال ہمارے لیے اپنی فکر زیادہ کرنے اور خوشی یا سکون کے سفر کو آگے بڑھانے پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]